امریکا کی اوباما انتظامیہ اور اسرائیلی حکومتی کے درمیان کشیدگی عالمی سیاست کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرارداد کی منظوری ایسا حیرت انگیز اور غیر متوقع اقدام ہے کہ جسے نیتن یاہو انتظامیہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اس قرارداد میں غرب اردن میں یہودی بستیوں کی ناجائز تعمیر روکنے کا مطالبہ کیا گیا ۔ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت سے مصر نے قرارداد پیش کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو نیوزی لینڈ، سینیگال، وینزویلا، اور ملا ئیشیا نے قرارداد پیش کی۔ اس موقع پر امریکا کے غیر جانبدار رہنے اورویٹو کا حق استعمال نہ کرنے کے نتیجے میں اس قراراداد کو سلامتی کونسل میں 15 میں سے 14 ارکان کی حمایت حاصل ہو گئی۔ اسرائیل نے قرارداد کی منظوری پر جس طرح آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے اور امریکا سمیت عالمی برادری کو للکاررہا ہے اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ناجائز ریاست نا صرف مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی امن کے لیے شدید خطرات کا باعث ہے۔ عالمی برادری نے صہیونیت پر قائم اس ملک کو لگام نہ ڈالی تومستقبل قریب میں اس سے کسی بھی جارحیت کی امید کی جاسکتی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسرائیل ایک عرصے سے فلسطینی علاقوں میں ناجائز یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع رکھے ہوئے ہے۔ مہذب دنیا کی مخالفت کے باوجود اسرائیل انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ غز ہ کی پٹی غرب اردن میں یہودی بستیاں تعمیر کر رہا ہے۔ دنیا کی جمہوریت اور امن کی ٹھیکیدار ی کا دعویدار امریکا شروع دن سے اسرائیل کی کھلی پشت پناہی کرتا چلا آرہا ہے۔ جب بھی سلامتی کونسل میں اسرائیل کی جارحیت اور بدمعاشی کے خلاف کوئی قرارداد پیش ہوتی ہے تو امریکا ویٹو کا حق استعمال کر کے اسے غیر موئثر کردیتا ہے۔ جنرل اسمبلی میں بھی اسرائیل کی حمایتی عالمی قوتوں نے اس پر کبھی آنچ نہیں آنے دی جس کی وجہ سے یہ ملک مشرق وسطیٰ میں بغیر کسی خوف و خطرہ کے یہودی بستیوں کی تعمیر ، مظلوم فلسطینیوں پر بمباری، پڑوسی ملکوں کے خلاف جارحانہ کاروائیوں سمیت ہر نوع کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہتا ہے۔ امریکہ نے سات دہائیوں سے مشرق وسطیٰ میں قائم اسرائیلی ریاست کی پشت پناہی کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اسی سے شہ پاکر عربوں کے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی طرف سے یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ غرب اردن میں غیر قانونی بستیوں کی تعمیر بھی اسی ڈھیٹائی کا حصہ ہے جس کی وجہ سے ناصرف علاقائی سلامتی کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ امریکا کی کوششوں سے فلسطین ، اسرائیل دوریاستی فارمولے کو بھی دھچکا پہنچا ۔ امریکی انتظامیہ جو کسی بھی قیمت پر مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے وجود کو قانونی قرار دینے کی کوششوں میں مصروف ہے، ان تعمیرات پر تحفظات کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکی۔ یہی وجہ ہے کہ مصر کے بعد نیوزی لینڈ ، سینیگال، وینزویلا، اور ملائیشیا نے یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف قرارداد پیش کی تو اوباما انتظامیہ اسرائیل سے لاتعلق ہو گئی۔ اس قرارداد کی بھاری اکثریت سے منظوری کے بعد اسرائیل نے جس قسم کے اشتعال انگیز ردعمل کا مظاہرہ کیا اس سے ثابت ہوا کہ یہ ریاست مشرق وسطیٰ میں امن، سلامتی و استحکام کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کی مخالف ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے سب سے پہلے امریکی سفیر کو طلب کر کے اپنے غیظ و غضب کا اظہار کیا ۔ اس کے بعد قرارداد پیش کرنے والے ممالک کے خلاف انتہائی جارحانہ زبان زبان استعمال کی۔ نیوزی لینڈ اور سینیگال سے اپنے سفیر واپس بلا لیے جبکہ قرارداد پیش کرنے والے ممالک کے خلاف سخت سفارتی اقدامات کا اعلان کردیا۔ یہی نہیں اقوام متحدہ کے پانچ ذیلی اداروں کی مالی امداد تک بند کر دی۔ اسرائیل کے ان اقدامات کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے گزشتہ روز اپنی تقریر میں ایک بار پھر واضح کیا کہ اسرائیل جمہوری ریاست بن جائے یا پھر یہودی ملک۔ انہوں نے واضح الفاظ میں یہودی بستیوں کی غیر قانونی فیصلہ قراردیا اور کہا کہ امریکا اسرائیل کی سلامتی چاہتا ہے جو خطے میں دو ریاستی فارمولے پر عمل درآمد ہی سے ممکن ہوگا، جسے اسرائیلی اقدامات سے سخت نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی وزیر خارجہ کی اس تقریرکوبھی مسترد کردیا اور کہا کہ امریکی وزیر خارجہ کا بیان ہمارے لیے سخت تشویش کا باعث ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے معاملے پر اوباما حکومت اسرائیل کے درمیان کشیدگی اس امر کی دلیل ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اقدامات امن کے لیے خطرات کا باعث ہے۔ اوباما انتظامیہ نے آخری دنوں میں ہی سہی اس حقیقت کو تسلیم ضرور کیا ہے کہ اسرائیل کی شرانگیزیاں مشرق وسطیٰ کے لیے سنگین خطرات کا سبب بن رہی ہیں۔اس خطے میں دوریاستوں کے قیام کی شکل میں امن کا جو روڈ میپ امریکا سامنے لا رہا ہے اس میں بنیادی اور بڑی رکاوٹ صرف ا ور صرف اسرائیل ہے۔ جو اپنی جارحانہ صیہونی سوچ کے تحت خطے پر بالا دستی کی مکروہ کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ امریکا یا دنیا کا کوئی بھی ملک اسرائیل کی جتنی بھی حمایت کر لے جب بھی تل ابیب کے جنونی اقدامات کو روک لگائی جائے گی یہ احسان فراموشی میں تاخیر نہیں کرے گا۔ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگرچہ اسرائیل کی اشک شوئی کر رہے ہیں ۔ اپنے تازہ ترین بیان میں انہوں نے اسرائیل کو 20 جنوری تک ”حوصلے” سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ اسرائیل کی حمایت کا امریکی تسلسل پھر سے قائم کر دیں گے تاہم امریکا کے پالیسی سازوں کو جتنا جلد ہو سکے اسرائیل کا اصل چہرہ پہچان لینا چاہیے۔ بصورت دیگر عالمی امن کو لاحق یہ ناسور ایک دن خود امریکا کی رسوائی بلکہ تباہی کا باعث بن جائے گا۔