شنبه 16/نوامبر/2024

اسرائیل کا میزائل پروگرام امریکا کی دوہری پالیسی

اتوار 11-اپریل-2010

مندرجہ ذیل حقائق سے اندازہ ہوتا ہے امن کے نام پر ایک طرف تو مذاکرات کی میزیں سجتی رہی اور میڈیا پر تصویروں کی اشاعت سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی رہی جبکہ درون خانہ اسرائیل کی فاشسٹ ریاست جنگوں کی تیاری اور اسلحے کی کھیپ کی کھیپ بنانے میں کس قدر مصروف رہی اور عالمی انسانی حقوق کے ٹھیکیدار کس طرح درپردہ اس انسان دشمن پروگرام میں اسرائیل کی معاونت کرتے رہے۔

اس وقت اسرائیل کے پاس دنیا کا جدید ترین میزائل پروگرام موجود ہے جس میں دشمن کے مقابلے کی تباہ کن صلاحیت موجود ہے۔ اسرائیل میں میزائل پروگرام کو ”جو ریشو 1” کا نام دیا گیا اور 1960ء میں فرانس کی ایک کمپنی ”ڈیزالٹ ایوی ایشن” کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوا اور تل ابیب میں 1963ء میں ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے جس کے مطابق اس کمپنی نے (امن پسند) اسرائیل کو 235 سے 500 کلو میٹر تک مار کرنے والے بلاسٹک میزائل فراہم کرنے تھے جو 450 سے 650 کلو گرام تک تباہ کن مواد لے جاسکتے تھے۔ یہ خبر سب سے پہلے نیو یارک ٹائمز نے 1971ء میں ”جو ریشو میزائل اول” کے نام شائع کی۔ ابتداً ان میزائلوں کی آزمائش فرانس کے ہوائی اڈوں پر ہی ہوتی رہی لیکن 1978ء تک کے مختصر عرصے میں اسرائیل نے یہ بلاسٹک میزائل اپنی سرزمین پر بنانا شروع کردیے تھے اور خاص 1978ء میں ہی اس نام کے پچاس میزائل اسرائیل کی ریاست بنانے میں کامیاب بھی ہو چکی تھی اور بعد کے تجاوزات میں اس ”جوریشو 1” میزائل کے اندر ایٹمی اسلحہ لے جانے کی صلاحیت بھی داخل کردی گئی۔

1980ء اور 1990ء کے دوران اسرائیل کے اندر ”جوریشو 2” پر تجربات ہوتے رہے اور یہ پہلے میزائل سے کہیں بہتر ٹیکنالوجی کا حامل میزائل تھا جو 1500 سے 3500 کلو میٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور 750 سے 1000 کلو گرام تک تباہ کن مواد اٹھا سکتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1989ء میں یہ ثانی الزکر میزائل تیار ہو کر دشمن پر وار کرنے کے قابل ہو چکا تھا اور ظاہر ہے اس میں ایٹمی اسلحہ لے جانے کی گنجائش بھی پہلے والے میزائل سے کہیں بہتر اور زیادہ تھی۔ اسرائیل کی فضائیہ کے تین اسکوارڈنز کو یہ میزائل فراہم کیے گئے ہیں ایک اسکوارڈن کا بیس تل ابیب کے جنوب میں 45 کلو میٹر دور واقع ہے، دوسرا ”سیڈوت میکا” نامی بیس زکریا نامی قصبے کے پڑوس میں واقع ہے جبکہ تیسرا ”سورک” دریا کے کنارے پر دو قصبوں کے درمیان واقع ہے۔ خلیج کی جنگ کے دوران اگرچہ اسرائیل نے ان میزائلوں کے چلانے سے انکار کیا ہے لیکن خلائی سیاروں سے حاصل کی گئی تصاویر اور دیگر شہادتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان میزائلوں کو عرب آبادیوں پر بے دردی سے چلایا ہے لیکن ظاہر ہے پاکستان کا اسلامی بم، عراق کے کیمیائی ہتھیار اور ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کو بنظر غائر دیکھنے والوں کو اسرائیل کے یہ چلتے ہوئے بلاسٹک میزائل کیسے نظر آسکتے ہیں؟؟ اسرائیلی فضائیہ نے ان میزائلوں کو خندقوں، غاروں اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے درمیان چھپا کر اور حملے کے لیے ہردم تیار باش کر کے رکھا ہے۔

لاس اینجلس ٹائمز نے اکتوبر 2003ء میں یہ رپورٹ شائع کی کہ اسرائیل نے امریکا کے فراہم کردہ ”ہارپون کروز میزائلز” کو ایٹمی اسلحہ لے جانے کے قابل بنا کر تو اپنی آبدوز میں نصب کر دیا ہے۔ ابتداً یہ میزائل جو اسرائیلی بحریہ کے حوالے کیا گیا ہے 130 کلو میٹر تک وار کرسکتا تھا لیکن اسرائیل نے اس کی ٹیکنالوجی کو وسعت دی اور اب یہ ”ہارپون کروز میزائل” 320 کلو میٹر تک بآسانی وار کرسکتا ہے۔ یہ 533 ملی میٹر کی تار پیڈ و ٹیوبز میں لگا کر فائر کیا جاتا ہے۔ 2000ء میں اس میزائل کے ٹیسٹ خلائی سیارے کے ذریعے مشاہدہ کیے گئے لیکن اسرائیلی قیادت نے کذب بیانی پر قائم رہتے ہوئے اس کا انکار کیا ہے، جبکہ جون 2002ء میں پنٹاگون نے بھی ان میزائلز کی آزمائش کی تصدیق کردی تھی۔ اس سب کے باوجود اسرائیل نے امریکا سے مزید میزائل مانگے ہیں اور اس بار وہ میزائل 540 ملی میٹر کی تارپید و ٹیوب سے فائر کیے جانے کے قابل ہوں گے یعنی پہلے سے بھی زیادہ تباہ کن صلاحیت کے حامل ہوں گے اور اس مقصد کے لیے تین ڈولفن کلاس آبدوزیں تیار کی جارہی ہیں جو اپنی کارکردگی میں پہلے سے کہیں بہتر اور سبک رفتار ہیں۔ اسلامی دنیا کے میزائل پروگرام جن کی ناک پر ہردم کھٹکتے رہتے ہیں اور جن کے خطرے کے پیش نظر ان کی نیندیں حرام ہیں کہ مسلمانوں کے ہاتھ کہیں یہ ٹیکنالوجی نہ لگ جائے وہ کس طرح اسرائیل کی کھل کر سرپرستی کررہے ہیں۔

اسرائیل واحد ملک ہے جس کے پاس بلاسٹک میزائل سے بچنے کا نظام تیار حالت میں موجود ہے، اکتوبر 2002ء میں امریکا اور اسرائیل نے باہمی تعاون سے یہ نظام اسرائیل میں نصب کیا اور اس کے اخراجات کا 80 فیصد امریکا بہادر نے برداشت کیا۔ اس وقت اسرائیل کے پاس دو ایروبیٹریز موجود ہیں اور تیسری کی تیاری جاری ہے، جبکہ ہر بیٹری میں ایک سو کی تعداد میں دفاعی راکٹ برسانے کی صلاحیت موجود ہے۔ فروری 2007ء میں اسرائیل نے تیرہواں کامیاب تجربہ کیا تھا جس میں بہت بلندی پر جاکر اس راکٹ نے ایک میزائل کو جالیا تھا۔ یہ تجرباتی تیاریاں دراصل ایران کے شہاب تھری بلاسٹک میزائل کے دفاع کے طور پر بنائے جارہے ہیں۔ اسرائیل کی ہوائی جہاز بنانے والی کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے دور مار گائیڈڈ میزائل بھی تیار کرلیے ہیں اور مارچ 2004ء میں ان کا کامیاب تجربہ بھی کیا جاچکا ہے۔ جبکہ اسی سال 2004ء کے اگست میں پیٹروٹ اور ہاک میزائلوں کے تجربات بھی کیے جاچکے ہیں اور یہ سب کچھ امریکا کی زیر نگرانی ہورہا ہے کیونکہ اس مقصد کے لیے اس کمپنی اور امریکا کے درمیان مارچ 2003ء میں ایک معاہدے پر دستخط بھی ہوئے تھے۔ کتنی حیرانی کی بات ہے کہ امریکا جو ساری دنیا کا ٹھیکیدار بنتا ہے لیکن اسے صرف اسرائیل کا ہی دفاع عزیز ہے، سارے انسانی حقوق، تمام تر عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی ساری قراردادیں اور فیصلے اسرائیل کی سرحدوں پر آکر دم توڑ دیتے ہیں اور مسلمان ممالک میں داخل ہو کر انہیں سو سے ضرب دے دی جاتی ہے، پس جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ کرے۔ اس پر متضاد یہ کہ اسرائیل ”میزائل پروگرام کنٹرول رجیم” کا رکن بھی نہیں ہے اور امریکا کے کامرس ڈیپارٹمنٹ نے اسرائیل کو میزائل فراہم کرنے والے ممالک میں بھی شامل کرلیا ہے جبکہ پابندیاں صرف اسلامی ممالک کے لیے ہیں۔

اسرائیل اور امریکا ایک اور میزائل سے دفاعی نظام پر مل کر کام کررہے ہیں جسے Mobile Tactical High-Energy Laser (MTHEL)” کا نام دیا گیا ہے۔ یہ امریکی فوج اور اسرائیلی وزارت دفاع کا مشترکہ منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت مئی 2004ء کو نیو میکسیکو میں تجربہ بھی کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت تیار ہونے والے میزائل اپنے دشمن میزائل کو ہوا میں ہی نشانہ بنا کر ختم کردینے کی صلاحیت کے حامل ہوں گے۔ ایک طرف مسلمان ممالک کے میزائل پروگراموں پر پابندی لگائی جارہی ہیں تو دوسری طرف اسرائیل نے کھلی پیشکش کررکھی ہے کہ جو ملک چاہے اس کے ساتھ میزائل ٹیکنالوجی میں شراکت کرے چنانچہ اس وقت بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک اسرائیل ہی ہے۔ اس بات کا اقرار جون 2002ء میں بھارتی وزارت دفاع کے سیکرٹری نے بھی کیا کہ ”گرین پائین فائر کنٹرول ریڈار” کے حصول کے لیے اسرائیل سے مذاکرات کامیاب رہے ہیں جبکہ کئی دیگر ممالک سے بھی مذاکرات چل رہے تھے۔ یہ ریڈار سسٹم میزائل سے دفاع کے پروگرام کا اہم حصہ ہے اور 500 کلو میٹر دور تک اپنی طرف آنے والے میزائل کو بھانپ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگست 2004ء میں بھی بھارت کے چیف ملٹری سائنسدان نے اعلان کیا تھا کہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان دور مار میزائلوں کی تیاری پر گفت و شنید جاری ہے۔

اسرائیل کی ان تیاریوں پر حیرانی نہیں کیونکہ وہ تو علی الاعلان دشمن ہے جبکہ سیکولر مغربی تہذیب جس کے عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں، میڈیا، عالمی عدالت انصاف، بین الاقوامی پولیس اور اقوام متحدہ جیسا ادارہ اور نہ معلوم کیا گیا اور کیسے کیسے پروگرام منصوبے یہ سب کچھ کیا صرف مسلمانوں کے لیے ہی ہیں؟؟ دنیا کی بدترین فاشسٹ ریاست جس نے پڑوسیوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے کیا اس پر کوئی پابندی نہیں، اقوام متحدہ کی سیکڑوں قراردادیں صرف ہاتھ اٹھانے تک محدود ہیں اور اندر خانے سیکولر مغربی تہذیب کے کارپردار ان انسانی تاریخ کی بدترین منافقت کی تاریخ رقم کررہے ہیں جن پر شاعر مشرق نے بہت خوبصورت اور سپاٹ تبصرے کیے ہیں۔ ان سب حالات میں جبکہ سیکولر مغربی تہذیب پنجے جھاڑ کر امت مسلمہ کے پیچھے پڑ چکی ہے امت کی قیادت کو چاہیے کہ ان کے مقابلے کے لیے بھرپور تیاری کرے جس کا قرآن مجید نے بھی حکم دیا ہے کہ دشمن کے مقابلے کے لیے اپنے گھوڑے تیار رکھو۔ اسی مقصد کے لیے ”قتال” کے عنوان سے جنگ کرنا ہر اس مسلمان پر فرض ہے جس پر نماز اور روزہ فرض ہے۔ مسلمان حکومتوں کو چاہیے اسلحہ کی بہترین تیاری اور دفاعی ٹیکنالوجی کا جدید ترین سامان اپنے پاس محفوظ رکھیں اور اس مقصد کے لیے اسلامی سربراہی کانفرنس کے ایجنڈے پر ایک عرصے سے مشترکہ اسلامی فوج کی تجویز کو اب شاید دیمک لگنے والی ہوگی، اس کو تازہ کریں اور ایمان تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے مقاصد کے تحت پوری امت کو ایک چھتری تلے جمع کریں اور ہم کہ بکھرے ہوئے قطرے سمندر بن جائیں اور سیکولر مغربی تہذیب کو بھارت اور اسرائیل کی خباثتوں سمیت انہیں لے ڈوبیں تاکہ انسانیت کو امن و آشتی کا سامان میسر آئے۔

بشکریہ سنڈے میگیزین اوصاف

لینک کوتاه:

کپی شد