مغربی ذرائع ابلاغ اسلامی مدارس کی برائیاں تو بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں
لیکن انہیں اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا …..ایک انکشاف انگیز رپورٹ
جب واقعہ گیارہ ستمبر رونما ہوا تو امریکا سمیت تمام مغربی ذرائع ابلاغ سے وابستہ خودساختہ محقق اور دانش ور کرید کرید کر اسلامی تعلیمات کی خامیاں تلاش کرنے لگے- انہوں نے خاص طور پر یہ بات نمایاں کی کہ مدارس میں مسلمان طلبہ و طالبات کو دہشت گردی، نفرت، انتہا پسندی اور تشدد کے اسباق پڑھائے جارہے ہیں- کئی امریکی و مغربی صحافیوں نے مدارس کا دورہ کیا اور دنیا والوں کے سامنے انہیں بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی- قرآن کریم میں جہاں جہاں یہود اور عیسائیوں کو لتاڑا گیا ہے، وہ آیات شد و مد سے پیش کی گئیں- جو اسلامی ممالک امریکا کے زیر اثر ہیں، وہاں امریکیوں نے نصاب تبدیل کرنے کی تحریک چلادی تاکہ اسے ’’ہم مزاج‘‘ بنایا جاسکے-
سیاسی وجودہ اور اپنے تعصب کے باعث کسی غیر ملکی صحافی کو دیکھنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ یہ معلوم کرے کہ اسلامی مدارس میں کتنے اعلی درجے کی تعلیمات پڑھائی جاتی ہیں- مثلاً یہودیت اور عیسائیت کا احترام اور ان کے پیغمبروں کی عزت دیگر تہذیبوں سے رواداری کا رویہ، شخصی تعمیر، خاندانی روایات کی ترویج، غریب پر رحم کرنا، حقوق کی برابری، آزادی سے محبت اور غلامی سے نفرت اور اسلامی نظام (جمہوریت) کی تعلیم-
دوسری طرف کسی امریکی یا مغربی صحافی کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اسرائیل کے نظام تعلیم پر نظر ڈالتا اور دوسروں سے اس کا تقابلی جائزہ لیتا- اگر وہ جائزہ لیتے تو ان پر انکشاف ہوتا کہ اسرائیلی نظام تعلیم کتنا نسل پرستانہ، جارحانہ، طبقہ امرا کا حامی، عدم برداشت والا، نفرت ابھارنے والا متشدد، جنگجویانہ اور دہشت گردانہ ہے- دراصل اسرائیل کے بانیوں کو پوری طرح احساس تھا کہ انہوں نے فلسطینیوں کی حق تلفی کرتے ہوئے عربوں کے قلب میں جو ریاست بنائی ہے، اسے کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا- اسے قائم رہنے کے لیے زبردست فوجی قوت کی ضرورت ہوگی- اسی لیے انہیں اول دن سے اسرائیلی معاشرے کو جنگجویانہ بنانا پڑا- حتی کہ پہلے اسرائیلی صدر ڈیوڈ بن کوریان کو بھی تسلیم کرنا پڑا:
’’اسرائیل محض ایک جنگجو معاشرہ ہے-‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی زندگی کے ہر پہلو سے جنگ پرستی نمایاں ہے- وہ ایک اسرائیلی خاندان سے شروع ہوتی اور محلے، شہر، ادب، آرٹ سے ہوتے ہوئے فلموں اور کھیل تک جاپہنچتی ہے- حقیقتاً کسی نہ کسی طرح ہر اسرائیلی فوجی ہے-
یہی وجہ ہے کہ ہر اسرائیلی آبادی میں ہر جگہ مسلح افراد نظر آتے ہیں، چاہے وہ گلی ہو یا مارکیٹ، دکان ہو یا ریستوران، بس ہو یا ریل غرض کوئی جگہ بھی ان سے بچی ہوئی نہیں- اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی مشینری کے تمام چھوٹے بڑے کل پرزے حاضر یا سابق فوجی افسر اور جرنیل چلارہے ہیں-
جنگ پسند معاشرے میں ہر انسان جنگ کے لیے زندہ رہتا اور مرتا ہے- اس قسم کا معاشرہ تخلیق کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بچپن سے شہریوں کو جنگجویانہ نظریات پڑھائے اور سمجھائے جائیں تاکہ وہ ان کے اذہان میں راسخ ہوسکیں- یہ مقصد حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جماعت اول سے جنگ پسند نظریے نظام تعلیم میں ٹھونس دیئے جائیں- بچپن میں بچے کا ذہن نرم و نازک ہوتا ہے اور اسے کسی بھی سمت موڑا جاسکتا ہے-
دوسروں کو چھوڑیے ، مشہور اسرائیلی دانش ور اور کالم نگار، ارناکازین تسلیم کرتا ہے ’’اسرائیل میں نصاب تعلیم کچھ اس قسم کا ہے کہ وہ جماعت اول سے جنگ پرستانہ ماحول رکھتا ہے- اس ماحول میں پلنے بڑھنے والے بچے پھر خود بخود چاہنے لگتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر فوجی بنیں- یاد رہے کہ اسرائیل میں ملٹری سروس کو مقدس ترین مذہبی عبادات کا درجہ حاصل ہے-
سکول میں داخل ہونے والا اسرائیلی بچہ پہلے دن سے یہ انتہائی تعصبانہ، جنگجویانہ اور انتہا پسندانہ سبق پڑھتا ہے کہ یہودی گو خدا کی پسندیدہ قوم ہے لیکن اسے اول دن سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے- خدا نے اسے ارض موعود بخشا تھا لیکن وہ اس سے چھین لیا گیا- یوں اسرائیلی بچے پر انکشاف ہوتا ہے کہ ہر یہودی پیدائشی طور پر خدا کا چہیتا ہے مگر دنیا میں اسے مظلوم حیثیت حاصل ہے کیونکہ گوئم (غیر یہودی خصوصاً عرب مسلمان) نے یہود کو ظلم و ستم کا نشانہ بنارکھا ہے-
جماعت اول کے اسباق میں درج ہے کہ یہ گوئم انسانی اجسام میں پوشیدہ محض جانور ہیں اور ان کی بنیادی ذمے داری یہ ہے کہ وہ ’’خدا کے پسندیدہ افراد‘‘ کی خدمت بجا لائیں- اسرائیلی بچے کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے اسے جو علاقہ بخشا تھا، وہ ارضی چوروں (مسلمانوں) نے ہتھیا لیا ہے اور اب یہ اس کی مذہبی ذمے داری ہے کہ وہ ان چوروں کا صفایا کرے، ارض موعود واپس لے اور وہاں خدا کا گھر (ہیکل سلیمانی) تعمیر کرے-
اسی طرح اعلی جماعتوں کا نصاب تعلیم انتہائی جنگ پسند صہیونی نظریات رکھتا ہے اور اس میں جی بھر کر مذہبی رنگ آمیزی کی گئی ہے- کچھ عرصہ پہلے حیفہ یونیورسٹی سے منسلک ایک ماہر تعلیم، پروفیسر ایلی بودیا نے یہ دیکھنے کے لیے تحقیق کی کہ نصابی کتب میں تاریخ کو کیونکر مسخ کیا گیا ہے- تحقیق کا نتیجہ پروفیسر بودیا کی زبانی سنیے:
’’نصابی کتب میں عرب اسرائیل اختلافات دانستہ طور پر زندہ رکھے گئے ہیں- مسئلہ فلسطین پرامن طریقے سے حل کرنے میں حقیقتاً ہمارا نصاب تعلیم بہت بڑی رکاوٹ ہے- یہ نصاب صہیونی نظریوں سے بھرا پڑا ہے- یہ عربوں خصوصاً فلسطینیوں کے خلاف نفرت و دشمنی پیدا کرتا اور انہیں حیوان، ظالم، دہشت گرد، پاگل، گندہ اور مجرم قرار دیتا ہے-‘‘
ایک اور اسرائیلی دانشور سیگرڈلیہمسن کہتا ہے ’’ہم یہودی عربوں کو گوئم سمجھتے ہیں- بحیثیت یورپی انہیں اپنا ایشیائی دشمن قرار دیتے اور بطور سوشلسٹ ہمارا خیال ہے کہ عرب مسلمان کسی پاگل کی اولاد ہیں-‘‘
اسرائیل کا تمام تر نصاب تعلیم مذہبی تعصبات سے پر ہے اور گوئم کو نیچ و شودر قرار دیتے ہوئے یہودیوں کو بالادست بناتا ہے- یہود کی مذہبی کتب قدیم یہودی پیغمبروں کے ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں جو خدا کے احکامات پر قتل و غارت کرتے، یہودیوں کو گوئم کے خلاف لڑنے بھیجتے اور بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو بھی نہیں بخشتے- وہ جانوروں پر رحم نہیں کھاتے اور دشمنوں کی ساری بھیڑیں ہلاک کرڈالتے ہیں- حتی کہ ماحولیات کے خلاف سبھی گھنائونے جرائم کرتے ہیں مثلاً شہر جلاتے، پھل دار درخت کاٹ دیتے اور فصلیں جلا ڈالتے ہیں-
اسرائیل کے پہلے بادشاہ شاول اور سیموئیل نبی کا واقعہ درج بالا حقائق کی ایک مثال ہے ورنہ عہد نامہ قدیم اور تالمود ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے- کئی جنگوں میں یہود کا خدا سرگرم حصہ لیتا اور دشمنوں پر آگ پھینکتا یا اولے برساتا ہے- یوں اسرائیلی طلبہ و طالبات یہ بات دل و دماغ میں بٹھا لیتے ہیں کہ گوئم کو قتل کرنا اور ان کے شہر جلانا صرف خدا کا حکم ہی نہیں بلکہ مذہبی ذمہ داری بھی ہے-
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ان کا خدا ابھی تک یہودی علماء (راہبوں) کو احکامات جاری کررہا ہے، اسی لیے اسرائیلی رابی جاری کر کے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوج کا ظلم و ستم جائز قرار دیتے ہیں- اسرائیل کے رابی اعلی، مرد شاہی ایلا ہونے یہ مذہبی حکم جاری کیا تھا کہ تمام فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا ہر اسرائیلی کی مذہبی ذمہ داری ہے-
اسی طرح اسرائیل کے ایک مشہور رابی ایلازار عالمید نے ہم وطنوں کو یہ مذہبی حکم دیا کہ وہ فلسطینیوں کی فصلیں چرائیں اور جلا دیں- ان کے پالتو جانور مار ڈالیں اور عرب کنوئوں میں زہر ڈال دیں- یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی نوجوان راتوں کو پڑوسی فلسطینی بستیوں میں شب خون مارتے اور انہیں ہر ممکن نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں-
حتی کہ کچھ عرصہ قبل اسرائیل کے موجود اعلی ربی، یوسف عبیدیہ نے مذہبی حکم جاری کرتے ہوئے فلسطینی مسلمانوں کو ’’لال بیگ‘‘ اور ’’جھینگر‘‘ قرار دیا اور یہود سے کہا کہ وہ انہیں پیروں سے کچل دیں- موصوف یہ تبلیغ بھی کرتے ہیں کہ حضرت مسیح دنیا میں تشریف لاکر تمام عربوں کو جہنم کی نذر کردیں گے-
ستمبر 2005ء میں اسرائیل کے سرکردہ ربیوں نے رابی اعملی ڈوولینور کی سرکردگی میں اس وقت کے وزیر اعظم ایریل شیرون کو یہ مذہبی حکم دیتے ہوئے اجازت دی کہ وہ فلسطینی شہریوں کو نشانہ بناسکتے ہیں- اس سلسلے میں انہوں نے قدیم اسرائیلی بادشاہوں کی مثال دی جنہوں نے خدا کے حکم پر تمام گوئیوں کو قتل کرڈالا حتی کہ بچوں عورتوں اور بوڑھوں کو بھی نہیں چھوڑا-
خاص بات یہ ہے کہ اعلی ربیوں کے تمام مذہبی احکامات قوانین بن جاتے ہیں- وہ پھر دیگر مذہبی کتب کے ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات کو پڑھائے جاتے ہیں- مذہبی کتب میں ان اسرائیلی جنگی مجرموں کو ’’ہیرو‘‘ بنا کر پیش کیا گیا جنہوں نے گوئم فلسطینیوں پر خوفناک مظالم ڈھائے ہیں- ایک ایسی ہی کتاب باروچ، دی ہیرو‘‘ ہے جسے لابی اسحاق گنز برگ نے لکھا- یہ باروخ گولڈ سٹائن کی آپ بیتی ہے جس نے 1994ء میں الخلیل کی ایک مسجد میں داخل ہو کر انتیس فلسطینی شہید اور ڈیڑھ سو زخمی کرڈالے تھے- اس خوفناک جرم کے باوجود اسرائیلیوں نے اسے ’’سینٹ‘‘ بنا ڈالا- آج اس کی قبر پر ہر سال میلہ لگتا ہے-
تین اہم خصوصیات
اسرائیل کے نظام تعلیم کو جنگ پسندانہ بنانے کا عمل تین خصوصیات رکھتا ہے:
اول:-
یہ نظام فوجی طاقت کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتا اور جنگ کو اسرائیلی روز مرہ زندگی کا حصہ بنادیتا ہے- یہ اس نظریے کو درست قرار دیتا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس! یہود کے خدا کا ہر اسرائیلی سے سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ وہ جنگی خدمت انجام دے- یہ جنگجو خدا ہر یہودی کو حکم دیتا ہے کہ وہ ارض موعود سے گوئم عربوں کا صفایا کرڈالے اور اسے ہیکل بنا کردے-
ایسا لگتا ہے کہ یہود کے خدا کو جنگ بہت پسند ہے اور وہ انسانوں کو لڑتا دیکھ کر ازحد مسرت محسوس کرتا ہے- اس کی لے دے کر واحد خواہش یہی ہے کہ اسے زمین پر ایک چھوٹا سا ہیکل بنادیا جائے-
نئی نسل کی مکمل ’’برین واشنگ‘‘ کرنے اور طلبہ و طالبات میں ’’فوجی روح‘‘ کوٹ کوٹ کر بھرنے کے لیے تمام سکول یہ اہتمام کرتے ہیں کہ طالبان علم کو فوج کے مراکز کا دورہ کرایا جائے- طلبہ و طالبات کو وہاں زیادہ سے زیادہ فوجی زندگی سے متعارف کرایا جاتا ہے- وہ ہر قسم کے ہتھیار دیکھتے بھالتے، فوجیوں کے ساتھ تصاویر اترواتے بلکہ رائفلیں چلانا سیکھتے ہیں-
اسرائیلی طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ بموں پر اپنے دستخط کریں- یہ بم پھر عرب پڑوسیوں پر گرائے جاتے ہیں- 2006ء میں لبنان حملے کے دوران ایسے کئی بم نہتے لبنانی بچوں، بوڑھوں اور عورتوں پر گرائے گئے- سکول کے کام کی حیثیت سے طالب علم فوجیوں کو خط لکھ اور تہنیتی کارڈ بھیج کر انہیں سراہتے ہیں کہ انہوں نے خدا کی پسندیدہ قوم کے دشمنوں کو مار کر بڑا تیر مارا ہے- اسرائیلی فوج کے جرنیل اور دیگر افسر باقاعدگی سے تعلیمی اداروں میں لیکچر دے کر انہیں بتاتے ہیں کہ خدا کی ’’چہیتی‘‘ ہونے کے باعث اسرائیلی فوج ناقابل شکست ہے اور جنگ کیونکر اسرائیل کے لیے مفید ہے-
دوم:-
اسرائیلی تعلیمی اداروں کی نمایاں ترین ابو لعجمی یہ ہے کہ وہاں اسرائیلی فوج کے سابق افسر نہ صرف انتظامیہ بلکہ اساتذہ میں بھی شامل ہیں- وجہ یہی ہے کہ نوخیز اذہان میں جنگ کی ’’خوبیاں‘‘ بخوبی بھری جاسکیں- ’’سفتا‘‘ اسرائیلی وزارت تعلیم کا ایک تربیتی پروگرام ہے- جو مسابق فوجی افسر اینٹیلی جنس کے اہل کار اور جرنیل اسے پاس کرلیں، انہیں بحیثیت استاد یا پرنسپل تعینات کردیا جاتا ہے- اس پروگرام کا ڈائریکٹر موتی سجی کہتا ہے:-
’’اس تربیتی پروگرام کا مقصد باصلاحیت اور اہل استادان تلاش کرنا نہیں بلکہ ان فوجی افسروں کو ڈھونڈنا ہے جو مخصوص صلاحیتیں رکھتے ہوں-‘‘
یاد رہے کہ جب 2000ء میں انتہا پسند اسرائیلی جماعت لیکوڈ کا کٹر یہودی راہنماء، لائموء لیفنات وزیر تعلیم بنا، تو اس کے عہد میں بیسیوں فوجی افسروں نے وزارت کے تمام اعلی عہدے سنبھال لیے- یوں اسرائیلی نظام تعلیم مزید جنگ پسند ہوگیا-
سوئم:-
اسرائیلی حکومت نے ایسے خصوصی مذہبی فوجی تعلیمی ادارے بھی قائم کررکھے ہیں جو ’’یشووت ہسدیر‘‘ کہلاتے ہیں- یہ ادارے ربی چلاتے ہیں اور یہاں اسرائیلی ہائی سکولوں سے فارغ ہونے والے گریجوایٹس کو متعصبانہ صہیونی تعلیم دینے کے علاوہ سخت فوجی تربیت بھی دی جاتی ہے- گو ان اداروں کو فوج چلاتی ہے تاہم وہ ان پر کسی قسم کا کنٹرول نہیں رکھتی، انہیں ربی ہی چلاتے ہیں-
خاص بات یہ ہے کہ یہ خصوصی ادارے مقبوضہ فلسطین کی سرزمین یا یروشلم میں واقع ہیں- ان اداروں کا نصاب انتہا پسندانہ صہیونی مذہبی فتووں پر مشتمل ہے جو گوئوں خصوصاً عربوں کے لیے نفرت سے بھرپور ہے- یہاں پڑھانے والے ربی عربوں پر زبانی کلامی تیز و تند حملے کرتے ہیں- وہ ان سے کسی قسم کا امن معاہدہ کرنے کے سخت مخالف ہیں-
رابی ایلی الباز ایک مشہور استاد ربی ہے- وہ اکثر اسلام اور نبی پاک پر زبانی اور تحریری حملے کرتا رہتا ہے- ربی ایلا ہوسکین بیت لحم میں قائم ایک خصوصی تعلیمی ادارے میں پڑھاتا ہے- یہ مسلمانوں ہی نہیں عیسائیوں سے بھی دوستانہ تعلقات قائم نہیں رکھنا چاہتا- جب بھی مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے مابین امن مکالمہ ہو تو وہ ان پر شدید تنقید کرتا ہے- وہ اس بات کی تبلیغ کرتا ہے ’’مسلمان صرف گولیوں کی زبان جانتے ہیں-‘‘
یہ صہیونی مذہبی فوجی ادارے نہ صرف عربوں اور امن کے لیے خطرہ ہیں بلکہ اسرائیل کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں- کئی غیر جانب دار ماہرین اور فوجی جرنیل یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اسرائیلی حکومت پر قبضہ کر کے اسے صہیونی مذہبی ریاست میں بدلنا چاہتے ہیں- کچھ عرصہ قبل علاقہ رامت گان میں واقع اسرائیلی بار ایلن یونیورسٹی کے محققوں نے دوران تحقیق دریافت کیا کہ ان مذہبی تعلیمی اداروں کے 99 فیصد طالب علم اور 90 فیصد انتہا پسند یہودی باشندے سیکولر اسرائیلی قوانین کی پاس داری نہیں کرتے- اس کے بجائے وہ اپنے ربیوں کے مذہبی فتوئوں پر عمل کرتے ہیں-
ایک اور عوامی جائزے کے مطابق اسرائیلی فوج کے 95 فیصد مذہب پسند فوجی اور جرنیل جب متناقص مقام پر پہنچ جائیں تو وہ سیکولر قوانین کے بجائے مذہبی فتوئوں پر عمل کرتے ہیں- یہ معاملہ 2004ء میں ابھر کر سامنے آیا جب سابق وزیر اعظم ایریل شیرون نے غزہ کی پٹی سے اسرائیلی آبادیاں ختم کیں-
اس وقت مشہور ربی، ابراہا شاہ ہیرو نے غزہ کی پٹی میں آباد اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ وہ اسرائیلی فوج کا مقابلہ کریں- اسی طرح ایک اور ربی ہیم ڈرک مین نے اپنے شاگردوں کو احکامات جاری کیے کہ اگر اسرائیلی فوجی زبردستی انہیں گھر سے نکالنے کی کوشش کریں تو وہ ان پر گولی چلا دیں-
اسرائیل کے دہشت گرد تعلیمی نظام سے متعلق یہ چند خوفناک حقائق پیش کیے گئے- دنیا میں بہت کم لوگ انہیں جانتے ہیں- غیر ملکی صحافیوں کو چاہیے کہ وہ صرف اسلامی مدارس کا ہی دورہ نہ کریں بلکہ اسرائیلی تعلیمی اداروں میں بھی جائیں- اس طرح دنیا والوں کے سامنے صحیح تصویر آئے گی-
سیاسی وجودہ اور اپنے تعصب کے باعث کسی غیر ملکی صحافی کو دیکھنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ یہ معلوم کرے کہ اسلامی مدارس میں کتنے اعلی درجے کی تعلیمات پڑھائی جاتی ہیں- مثلاً یہودیت اور عیسائیت کا احترام اور ان کے پیغمبروں کی عزت دیگر تہذیبوں سے رواداری کا رویہ، شخصی تعمیر، خاندانی روایات کی ترویج، غریب پر رحم کرنا، حقوق کی برابری، آزادی سے محبت اور غلامی سے نفرت اور اسلامی نظام (جمہوریت) کی تعلیم-
دوسری طرف کسی امریکی یا مغربی صحافی کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اسرائیل کے نظام تعلیم پر نظر ڈالتا اور دوسروں سے اس کا تقابلی جائزہ لیتا- اگر وہ جائزہ لیتے تو ان پر انکشاف ہوتا کہ اسرائیلی نظام تعلیم کتنا نسل پرستانہ، جارحانہ، طبقہ امرا کا حامی، عدم برداشت والا، نفرت ابھارنے والا متشدد، جنگجویانہ اور دہشت گردانہ ہے- دراصل اسرائیل کے بانیوں کو پوری طرح احساس تھا کہ انہوں نے فلسطینیوں کی حق تلفی کرتے ہوئے عربوں کے قلب میں جو ریاست بنائی ہے، اسے کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا- اسے قائم رہنے کے لیے زبردست فوجی قوت کی ضرورت ہوگی- اسی لیے انہیں اول دن سے اسرائیلی معاشرے کو جنگجویانہ بنانا پڑا- حتی کہ پہلے اسرائیلی صدر ڈیوڈ بن کوریان کو بھی تسلیم کرنا پڑا:
’’اسرائیل محض ایک جنگجو معاشرہ ہے-‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی زندگی کے ہر پہلو سے جنگ پرستی نمایاں ہے- وہ ایک اسرائیلی خاندان سے شروع ہوتی اور محلے، شہر، ادب، آرٹ سے ہوتے ہوئے فلموں اور کھیل تک جاپہنچتی ہے- حقیقتاً کسی نہ کسی طرح ہر اسرائیلی فوجی ہے-
یہی وجہ ہے کہ ہر اسرائیلی آبادی میں ہر جگہ مسلح افراد نظر آتے ہیں، چاہے وہ گلی ہو یا مارکیٹ، دکان ہو یا ریستوران، بس ہو یا ریل غرض کوئی جگہ بھی ان سے بچی ہوئی نہیں- اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی مشینری کے تمام چھوٹے بڑے کل پرزے حاضر یا سابق فوجی افسر اور جرنیل چلارہے ہیں-
جنگ پسند معاشرے میں ہر انسان جنگ کے لیے زندہ رہتا اور مرتا ہے- اس قسم کا معاشرہ تخلیق کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بچپن سے شہریوں کو جنگجویانہ نظریات پڑھائے اور سمجھائے جائیں تاکہ وہ ان کے اذہان میں راسخ ہوسکیں- یہ مقصد حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جماعت اول سے جنگ پسند نظریے نظام تعلیم میں ٹھونس دیئے جائیں- بچپن میں بچے کا ذہن نرم و نازک ہوتا ہے اور اسے کسی بھی سمت موڑا جاسکتا ہے-
دوسروں کو چھوڑیے ، مشہور اسرائیلی دانش ور اور کالم نگار، ارناکازین تسلیم کرتا ہے ’’اسرائیل میں نصاب تعلیم کچھ اس قسم کا ہے کہ وہ جماعت اول سے جنگ پرستانہ ماحول رکھتا ہے- اس ماحول میں پلنے بڑھنے والے بچے پھر خود بخود چاہنے لگتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر فوجی بنیں- یاد رہے کہ اسرائیل میں ملٹری سروس کو مقدس ترین مذہبی عبادات کا درجہ حاصل ہے-
سکول میں داخل ہونے والا اسرائیلی بچہ پہلے دن سے یہ انتہائی تعصبانہ، جنگجویانہ اور انتہا پسندانہ سبق پڑھتا ہے کہ یہودی گو خدا کی پسندیدہ قوم ہے لیکن اسے اول دن سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے- خدا نے اسے ارض موعود بخشا تھا لیکن وہ اس سے چھین لیا گیا- یوں اسرائیلی بچے پر انکشاف ہوتا ہے کہ ہر یہودی پیدائشی طور پر خدا کا چہیتا ہے مگر دنیا میں اسے مظلوم حیثیت حاصل ہے کیونکہ گوئم (غیر یہودی خصوصاً عرب مسلمان) نے یہود کو ظلم و ستم کا نشانہ بنارکھا ہے-
جماعت اول کے اسباق میں درج ہے کہ یہ گوئم انسانی اجسام میں پوشیدہ محض جانور ہیں اور ان کی بنیادی ذمے داری یہ ہے کہ وہ ’’خدا کے پسندیدہ افراد‘‘ کی خدمت بجا لائیں- اسرائیلی بچے کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے اسے جو علاقہ بخشا تھا، وہ ارضی چوروں (مسلمانوں) نے ہتھیا لیا ہے اور اب یہ اس کی مذہبی ذمے داری ہے کہ وہ ان چوروں کا صفایا کرے، ارض موعود واپس لے اور وہاں خدا کا گھر (ہیکل سلیمانی) تعمیر کرے-
اسی طرح اعلی جماعتوں کا نصاب تعلیم انتہائی جنگ پسند صہیونی نظریات رکھتا ہے اور اس میں جی بھر کر مذہبی رنگ آمیزی کی گئی ہے- کچھ عرصہ پہلے حیفہ یونیورسٹی سے منسلک ایک ماہر تعلیم، پروفیسر ایلی بودیا نے یہ دیکھنے کے لیے تحقیق کی کہ نصابی کتب میں تاریخ کو کیونکر مسخ کیا گیا ہے- تحقیق کا نتیجہ پروفیسر بودیا کی زبانی سنیے:
’’نصابی کتب میں عرب اسرائیل اختلافات دانستہ طور پر زندہ رکھے گئے ہیں- مسئلہ فلسطین پرامن طریقے سے حل کرنے میں حقیقتاً ہمارا نصاب تعلیم بہت بڑی رکاوٹ ہے- یہ نصاب صہیونی نظریوں سے بھرا پڑا ہے- یہ عربوں خصوصاً فلسطینیوں کے خلاف نفرت و دشمنی پیدا کرتا اور انہیں حیوان، ظالم، دہشت گرد، پاگل، گندہ اور مجرم قرار دیتا ہے-‘‘
ایک اور اسرائیلی دانشور سیگرڈلیہمسن کہتا ہے ’’ہم یہودی عربوں کو گوئم سمجھتے ہیں- بحیثیت یورپی انہیں اپنا ایشیائی دشمن قرار دیتے اور بطور سوشلسٹ ہمارا خیال ہے کہ عرب مسلمان کسی پاگل کی اولاد ہیں-‘‘
اسرائیل کا تمام تر نصاب تعلیم مذہبی تعصبات سے پر ہے اور گوئم کو نیچ و شودر قرار دیتے ہوئے یہودیوں کو بالادست بناتا ہے- یہود کی مذہبی کتب قدیم یہودی پیغمبروں کے ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں جو خدا کے احکامات پر قتل و غارت کرتے، یہودیوں کو گوئم کے خلاف لڑنے بھیجتے اور بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو بھی نہیں بخشتے- وہ جانوروں پر رحم نہیں کھاتے اور دشمنوں کی ساری بھیڑیں ہلاک کرڈالتے ہیں- حتی کہ ماحولیات کے خلاف سبھی گھنائونے جرائم کرتے ہیں مثلاً شہر جلاتے، پھل دار درخت کاٹ دیتے اور فصلیں جلا ڈالتے ہیں-
اسرائیل کے پہلے بادشاہ شاول اور سیموئیل نبی کا واقعہ درج بالا حقائق کی ایک مثال ہے ورنہ عہد نامہ قدیم اور تالمود ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے- کئی جنگوں میں یہود کا خدا سرگرم حصہ لیتا اور دشمنوں پر آگ پھینکتا یا اولے برساتا ہے- یوں اسرائیلی طلبہ و طالبات یہ بات دل و دماغ میں بٹھا لیتے ہیں کہ گوئم کو قتل کرنا اور ان کے شہر جلانا صرف خدا کا حکم ہی نہیں بلکہ مذہبی ذمہ داری بھی ہے-
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ان کا خدا ابھی تک یہودی علماء (راہبوں) کو احکامات جاری کررہا ہے، اسی لیے اسرائیلی رابی جاری کر کے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوج کا ظلم و ستم جائز قرار دیتے ہیں- اسرائیل کے رابی اعلی، مرد شاہی ایلا ہونے یہ مذہبی حکم جاری کیا تھا کہ تمام فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا ہر اسرائیلی کی مذہبی ذمہ داری ہے-
اسی طرح اسرائیل کے ایک مشہور رابی ایلازار عالمید نے ہم وطنوں کو یہ مذہبی حکم دیا کہ وہ فلسطینیوں کی فصلیں چرائیں اور جلا دیں- ان کے پالتو جانور مار ڈالیں اور عرب کنوئوں میں زہر ڈال دیں- یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی نوجوان راتوں کو پڑوسی فلسطینی بستیوں میں شب خون مارتے اور انہیں ہر ممکن نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں-
حتی کہ کچھ عرصہ قبل اسرائیل کے موجود اعلی ربی، یوسف عبیدیہ نے مذہبی حکم جاری کرتے ہوئے فلسطینی مسلمانوں کو ’’لال بیگ‘‘ اور ’’جھینگر‘‘ قرار دیا اور یہود سے کہا کہ وہ انہیں پیروں سے کچل دیں- موصوف یہ تبلیغ بھی کرتے ہیں کہ حضرت مسیح دنیا میں تشریف لاکر تمام عربوں کو جہنم کی نذر کردیں گے-
ستمبر 2005ء میں اسرائیل کے سرکردہ ربیوں نے رابی اعملی ڈوولینور کی سرکردگی میں اس وقت کے وزیر اعظم ایریل شیرون کو یہ مذہبی حکم دیتے ہوئے اجازت دی کہ وہ فلسطینی شہریوں کو نشانہ بناسکتے ہیں- اس سلسلے میں انہوں نے قدیم اسرائیلی بادشاہوں کی مثال دی جنہوں نے خدا کے حکم پر تمام گوئیوں کو قتل کرڈالا حتی کہ بچوں عورتوں اور بوڑھوں کو بھی نہیں چھوڑا-
خاص بات یہ ہے کہ اعلی ربیوں کے تمام مذہبی احکامات قوانین بن جاتے ہیں- وہ پھر دیگر مذہبی کتب کے ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات کو پڑھائے جاتے ہیں- مذہبی کتب میں ان اسرائیلی جنگی مجرموں کو ’’ہیرو‘‘ بنا کر پیش کیا گیا جنہوں نے گوئم فلسطینیوں پر خوفناک مظالم ڈھائے ہیں- ایک ایسی ہی کتاب باروچ، دی ہیرو‘‘ ہے جسے لابی اسحاق گنز برگ نے لکھا- یہ باروخ گولڈ سٹائن کی آپ بیتی ہے جس نے 1994ء میں الخلیل کی ایک مسجد میں داخل ہو کر انتیس فلسطینی شہید اور ڈیڑھ سو زخمی کرڈالے تھے- اس خوفناک جرم کے باوجود اسرائیلیوں نے اسے ’’سینٹ‘‘ بنا ڈالا- آج اس کی قبر پر ہر سال میلہ لگتا ہے-
تین اہم خصوصیات
اسرائیل کے نظام تعلیم کو جنگ پسندانہ بنانے کا عمل تین خصوصیات رکھتا ہے:
اول:-
یہ نظام فوجی طاقت کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتا اور جنگ کو اسرائیلی روز مرہ زندگی کا حصہ بنادیتا ہے- یہ اس نظریے کو درست قرار دیتا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس! یہود کے خدا کا ہر اسرائیلی سے سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ وہ جنگی خدمت انجام دے- یہ جنگجو خدا ہر یہودی کو حکم دیتا ہے کہ وہ ارض موعود سے گوئم عربوں کا صفایا کرڈالے اور اسے ہیکل بنا کردے-
ایسا لگتا ہے کہ یہود کے خدا کو جنگ بہت پسند ہے اور وہ انسانوں کو لڑتا دیکھ کر ازحد مسرت محسوس کرتا ہے- اس کی لے دے کر واحد خواہش یہی ہے کہ اسے زمین پر ایک چھوٹا سا ہیکل بنادیا جائے-
نئی نسل کی مکمل ’’برین واشنگ‘‘ کرنے اور طلبہ و طالبات میں ’’فوجی روح‘‘ کوٹ کوٹ کر بھرنے کے لیے تمام سکول یہ اہتمام کرتے ہیں کہ طالبان علم کو فوج کے مراکز کا دورہ کرایا جائے- طلبہ و طالبات کو وہاں زیادہ سے زیادہ فوجی زندگی سے متعارف کرایا جاتا ہے- وہ ہر قسم کے ہتھیار دیکھتے بھالتے، فوجیوں کے ساتھ تصاویر اترواتے بلکہ رائفلیں چلانا سیکھتے ہیں-
اسرائیلی طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ بموں پر اپنے دستخط کریں- یہ بم پھر عرب پڑوسیوں پر گرائے جاتے ہیں- 2006ء میں لبنان حملے کے دوران ایسے کئی بم نہتے لبنانی بچوں، بوڑھوں اور عورتوں پر گرائے گئے- سکول کے کام کی حیثیت سے طالب علم فوجیوں کو خط لکھ اور تہنیتی کارڈ بھیج کر انہیں سراہتے ہیں کہ انہوں نے خدا کی پسندیدہ قوم کے دشمنوں کو مار کر بڑا تیر مارا ہے- اسرائیلی فوج کے جرنیل اور دیگر افسر باقاعدگی سے تعلیمی اداروں میں لیکچر دے کر انہیں بتاتے ہیں کہ خدا کی ’’چہیتی‘‘ ہونے کے باعث اسرائیلی فوج ناقابل شکست ہے اور جنگ کیونکر اسرائیل کے لیے مفید ہے-
دوم:-
اسرائیلی تعلیمی اداروں کی نمایاں ترین ابو لعجمی یہ ہے کہ وہاں اسرائیلی فوج کے سابق افسر نہ صرف انتظامیہ بلکہ اساتذہ میں بھی شامل ہیں- وجہ یہی ہے کہ نوخیز اذہان میں جنگ کی ’’خوبیاں‘‘ بخوبی بھری جاسکیں- ’’سفتا‘‘ اسرائیلی وزارت تعلیم کا ایک تربیتی پروگرام ہے- جو مسابق فوجی افسر اینٹیلی جنس کے اہل کار اور جرنیل اسے پاس کرلیں، انہیں بحیثیت استاد یا پرنسپل تعینات کردیا جاتا ہے- اس پروگرام کا ڈائریکٹر موتی سجی کہتا ہے:-
’’اس تربیتی پروگرام کا مقصد باصلاحیت اور اہل استادان تلاش کرنا نہیں بلکہ ان فوجی افسروں کو ڈھونڈنا ہے جو مخصوص صلاحیتیں رکھتے ہوں-‘‘
یاد رہے کہ جب 2000ء میں انتہا پسند اسرائیلی جماعت لیکوڈ کا کٹر یہودی راہنماء، لائموء لیفنات وزیر تعلیم بنا، تو اس کے عہد میں بیسیوں فوجی افسروں نے وزارت کے تمام اعلی عہدے سنبھال لیے- یوں اسرائیلی نظام تعلیم مزید جنگ پسند ہوگیا-
سوئم:-
اسرائیلی حکومت نے ایسے خصوصی مذہبی فوجی تعلیمی ادارے بھی قائم کررکھے ہیں جو ’’یشووت ہسدیر‘‘ کہلاتے ہیں- یہ ادارے ربی چلاتے ہیں اور یہاں اسرائیلی ہائی سکولوں سے فارغ ہونے والے گریجوایٹس کو متعصبانہ صہیونی تعلیم دینے کے علاوہ سخت فوجی تربیت بھی دی جاتی ہے- گو ان اداروں کو فوج چلاتی ہے تاہم وہ ان پر کسی قسم کا کنٹرول نہیں رکھتی، انہیں ربی ہی چلاتے ہیں-
خاص بات یہ ہے کہ یہ خصوصی ادارے مقبوضہ فلسطین کی سرزمین یا یروشلم میں واقع ہیں- ان اداروں کا نصاب انتہا پسندانہ صہیونی مذہبی فتووں پر مشتمل ہے جو گوئوں خصوصاً عربوں کے لیے نفرت سے بھرپور ہے- یہاں پڑھانے والے ربی عربوں پر زبانی کلامی تیز و تند حملے کرتے ہیں- وہ ان سے کسی قسم کا امن معاہدہ کرنے کے سخت مخالف ہیں-
رابی ایلی الباز ایک مشہور استاد ربی ہے- وہ اکثر اسلام اور نبی پاک پر زبانی اور تحریری حملے کرتا رہتا ہے- ربی ایلا ہوسکین بیت لحم میں قائم ایک خصوصی تعلیمی ادارے میں پڑھاتا ہے- یہ مسلمانوں ہی نہیں عیسائیوں سے بھی دوستانہ تعلقات قائم نہیں رکھنا چاہتا- جب بھی مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے مابین امن مکالمہ ہو تو وہ ان پر شدید تنقید کرتا ہے- وہ اس بات کی تبلیغ کرتا ہے ’’مسلمان صرف گولیوں کی زبان جانتے ہیں-‘‘
یہ صہیونی مذہبی فوجی ادارے نہ صرف عربوں اور امن کے لیے خطرہ ہیں بلکہ اسرائیل کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں- کئی غیر جانب دار ماہرین اور فوجی جرنیل یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اسرائیلی حکومت پر قبضہ کر کے اسے صہیونی مذہبی ریاست میں بدلنا چاہتے ہیں- کچھ عرصہ قبل علاقہ رامت گان میں واقع اسرائیلی بار ایلن یونیورسٹی کے محققوں نے دوران تحقیق دریافت کیا کہ ان مذہبی تعلیمی اداروں کے 99 فیصد طالب علم اور 90 فیصد انتہا پسند یہودی باشندے سیکولر اسرائیلی قوانین کی پاس داری نہیں کرتے- اس کے بجائے وہ اپنے ربیوں کے مذہبی فتوئوں پر عمل کرتے ہیں-
ایک اور عوامی جائزے کے مطابق اسرائیلی فوج کے 95 فیصد مذہب پسند فوجی اور جرنیل جب متناقص مقام پر پہنچ جائیں تو وہ سیکولر قوانین کے بجائے مذہبی فتوئوں پر عمل کرتے ہیں- یہ معاملہ 2004ء میں ابھر کر سامنے آیا جب سابق وزیر اعظم ایریل شیرون نے غزہ کی پٹی سے اسرائیلی آبادیاں ختم کیں-
اس وقت مشہور ربی، ابراہا شاہ ہیرو نے غزہ کی پٹی میں آباد اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ وہ اسرائیلی فوج کا مقابلہ کریں- اسی طرح ایک اور ربی ہیم ڈرک مین نے اپنے شاگردوں کو احکامات جاری کیے کہ اگر اسرائیلی فوجی زبردستی انہیں گھر سے نکالنے کی کوشش کریں تو وہ ان پر گولی چلا دیں-
اسرائیل کے دہشت گرد تعلیمی نظام سے متعلق یہ چند خوفناک حقائق پیش کیے گئے- دنیا میں بہت کم لوگ انہیں جانتے ہیں- غیر ملکی صحافیوں کو چاہیے کہ وہ صرف اسلامی مدارس کا ہی دورہ نہ کریں بلکہ اسرائیلی تعلیمی اداروں میں بھی جائیں- اس طرح دنیا والوں کے سامنے صحیح تصویر آئے گی-
(سید عاصم محمود)
سنڈے ایکسپریس