فلسطینی حکام کے مطابق گزشتہ برس کے اختتام تک ساڑھے سات ہزار فلسطینی مختلف اسرائیلی جیلوں میں قید تھے۔ ان میں 34 خواتین اور 300 سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔
جمعرات 31 دسمبر تک تین سو سے زائد فلسطینیوں کو بغیر کوئی مقدمہ چلائے اسرائیلی جیلوں میں بند رکھا گیا تھا۔ 2009 کے آخری روز مہیا کئے گئے ان اعداد و شمار کے مطابق ان زیر حراست فلسطینیوں میں اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے سترہ ارکان پارلیمان اور دو سابق وزراء بھی شامل ہیں۔
قیدیوں کی اکثریت کا تعلق مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے سے ہے۔ ان فلسطینی قیدیوں کی تعداد کے حوالے سے دوسرے نمبر پر غزہ جبکہ تیسرے نمبر پر مقبوضہ مشرقی بیت المقدس کا نام آتا ہے۔ اسرائیلی جیلوں کے ایسے فلسطینی قیدیوں میں فخری اور نائیل برغوثی نامی دو بھائیوں کے علاوہ اکرم منصور نامی ایک اور کارکن شامل ہے۔ یہ تینوں گزشتہ بتیس برسوں سے اسرائیل کی حراست میں ہیں۔ ان افراد کا شمار ان تین سو سے زائد فلسطینیوں میں ہوتا ہے جنہیں 1994 میں فلسطینی اتھارٹی کے قیام سے قبل اسرائیلی اہلکار حراست میں لے چکے تھے۔ فلسطینی حکام کے بقول اب تک 200 سے زائد فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں انتقال کر چکے ہیں۔
درایں اثنا فلسطینی تنظیم حماس نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کی قید میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کی رہائی کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے فلسطینیوں کی رہائی کے معاملے پر مذاکرات کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ حماس کے ایک عہدیدار محمد الزھار کے بہ قول بات چیت ابھی جاری ہے البتہ حماس کے بعض تحفظات بھی اپنی جگہ ہیں۔
دیگر اطلاعات کے مطابق دمشق میں حماس کی قیادت نے اسرائیل کی جانب سے قیدیوں کے تبادلے کی نئی پیش کش پر غور کرنے کے بعد اسے مسترد کر دیا ہے۔ اسرائیل نے اپنے ایک فوجی گیلاد شالیت کے بدلے ایک ہزار فلسطینیوں کی رہائی کی پیش کش کی تھی۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ کے طویل محاصرے کے باعث پیدا شدہ انسانی المیے کی جانب عالمی توجہ مبذول کرانے کے لئے گزشتہ ہفتوں کے دوران مختلف ممالک سے درجنوں سماجی کارکنوں نے قاہرہ میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ اس اجتماع میں بیالیس ملکوں سے آنے والے یہ افراد غزہ جانا چاہتے تھے تاہم اسرائیل اور مصر کی جانب سے انہیں وہاں جانے نہیں دیا گیا۔
قاہرہ میں فرانسیسی سفارتخانے کے سامنے تین سو مقامی شہریوں نے اسی سلسلے میں احتجاجی کیمپ لگائے۔ ان مظاہروں میں شامل ایک امریکی شہری کا کہنا تھا کہ مظاہرین ’’غزہ کے شہریوں کو امید کی کرن دکھانے آئے ہیں، تاکہ وہ محسوس کر سکیں کہ وہ دنیا میں اکیلے نہیں ہیں۔