ماریہ نے یوکرائن کے میں1967 ء کے اوائل میں آنکھ کھولی- متوسط خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ابتدائی تعلیم اچھے انداز میں جاری رکھی- انٹر تک تحصیل علم کے اس نے ٹیکنیکل انجینئرنگ میں ایک ڈپلومہ بھی کیا اور وہ ہلکی پھلکی ملازمت کرنے کے قابل ہو گئی-
ادھرماریہ کے والدین نے بھی بیٹی کے لیے کوئی مناسب نوکری کی تلاش شروع کردی – ابتداء میں اسے ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی میں پارٹ ٹائم کام کرنے کا موقع ملا، بعد میں اسی کمپنی میں فل ٹائم کام شروع کردیا گیا-دوران ملازمت ماریہ کی ایک سنیئر خاتون اور اس کی سہیلی بیرون ملک ملازمت کے لیے چلی گئی- سہیلی کے چلے جانے کے بعد ماریہ نے بھی بیرون ملک ملازمت کے خواب دیکھنے شروع کر دیے- اتفاق سے جس دفتر میں وہ برسر رزگارتھی اس سے ملحقہ ایک پرانے فلیٹ میں لوگوں کوبیرون ملک بھیجنے کے ایک ادارے کا دفتر تھا- اگرچہ یہ دفتر بالکل نیا اور عارضی تھا-
اس کا اسٹاف بھی بالکل ناآشنا لوگوں پر مشتمل تھا- ماریہ نے اپنے خواب کی تعبیر کے لیے دفتر کے ایک اہلکارسے ملاقات کی اور اپنی خواہش اس کے سامنے رکھی-دفتری اہلکار جس اپنا نام ظاہر نہ کیا نے یقین دہانی کرائی کہ وہ ضرور اسے بیرون ملک بھیجنے میں مدد دے گا- اس نے ماریہ سے ایک فارم فل اپ کروا کراسے جلد مطلع کرنے کا وعدہ کر کے رخصت کردیا- ایک ماہ کے بعدماریہ کو ایک خط موصول ہوا، جس میں اسے اسرائیل میں بہترین ملازمت کے ایک موقع سے فائدہ اٹھانے کی تجویز کے ساتھ مبارک باد بھی دی گئی تھی – خط میں لکھا گیا تھا کہ اسے جلد اسرائیل کا فری ویزہ بھی مل جائے گااور وہ ملازمت کے لیے تل ابیب روانہ ہوجائے گی- خط میں ملازمت کی دیگر تفصیلات نہ تھیں ،تاہم تفصیلات کے لیے دفتر آنے کو کہا گیا تھا- ماریہ کے لیے یہ خوشی کا موقع تھا- اس نے اپنے والدین سے مشورہ کیا اور ان کی رضامندی حاصل کرکے ملازمت دلوانے والے ادارے کے دفتر میں جا کر دیگر معلومات حاصل کیں-
ماریہ کو بتایا گیا کہ اسے تل ابیب کی ایک فیکٹری میں اہم عہدے پر کام کرنے کا موقع ملے گا، جہاں اس کی ماہانہ تنخواہ دس ہزار ڈالر سے زیادہ ہو گی- طعام وقیام بھی کمپنی کے ذمہ ہوگا-ماریہ نے حامی بھر لی – تقریبا ایک مہینے کے اندر اندر اسے ویزہ جاری کرنے کی یقین دہائی کرادی گئی – ادھر ماریہ نے بھی بڑے زوروشور سے بیرون ملک جانے کی تیاریاں شروع کردیں- ابھی چند دن گزرے تھے کہ اسے ٹیلی فون کر کے دفتر آنے اور اپنا ویزہ حاصل کرنے کو کہا گیا- بیرون ملک ملازمت کا یہ کام جس سرعت سے ہو رہا تھا اسے ماریہ نے اپنی قسمت کی یاوری سمجھا اور پوری تند دہی سے اس کے لیے تیاری کر کی دفتر روانہ ہو گئی – اس بار دفتر کی جگہ تبدیل ہو چکی تھی اوراسے کم آبادی والے علاقے میں منتقل کیا گیا تھا- ماریہ نے ویزہ لیا اور پند رہ دن کے اندر اندر اس کے بیرون ملک جانے کے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے-1999 ء میں ماریہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے چھ مزید بدقسمت خواتین کے ساتھ اسرائیل روانہ کیا گیا – دوسرے دن ماریہ اور اس کی ہمرائیوں کو مقبوضہ فلسطین کے شہر عسقلان کے ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا -چند دن کے قیام کے دوران ان کی اچھی طرح خدمت خاطرکی گئی لیکن انہیں ان کے استفسار کے باجود اصل منزل سے مطلقا بے خبر رکھا جاتارہا- اچانک انہیں ایک دن ایک اور گروہ کے حوالے کر دیا گیا- اس کے بعد سے اب تک ماریہ اور اس جیسی بد قسمت دوسری خواتین پر کیا بیتی یہ ایک طویل داستان ہے- مختصر یہ کہ انہیں جلد ہی معلوم ہو گیا کہ وہ کسی جرائم پیشہ گروہ کے ہاتھ چڑھ چکی ہیں- ان میں سے فی کس کو آٹھ سے دس ہزار ڈالر کے عوض یہودیوں کو فروخت کر دیا گیا ہے-خریدو فروخت کا یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہا- جس گرہ کے ہاتھ یہ خواتین لگتیں وہ ان سے لونڈیوں جیسا سلوک کرتا- ان کی فحش فلمیں بنائی جاتیں اور انکار کرنے پر بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا- جن خفیہ کیمپوں میں ماریہ نے اپنی زندگی کے سیاہ شب وروز بسر کیے ان میں نت نئی خواتین لائی جاتیں اوراگلے دن وہاں سے کسی دوسرے نامعلوم مقام پر منتقل کردی جاتیں-خود ماریہ کو بھی ایک سے دوسرے مقام پر منتقل کرنے کا سلسلہ برابر جاری رکھا گیا-
یہ کہانی یوکرائن کی ایک سیاہ بخت خاتون کی ہے جس کی عصمت مسلسل آٹھ سال تک جنسی ہوس گیری کا شکار ہوتی رہی- اس نے حال ہی میں پیشہ ور گروہ کے ہاتھوں فرار میں کامیابی کے بعد اپنی آپ بیتی بی بی سی کو سنائی-
ماریہ نے بی بی سی کو انٹر ویو دیتے ہوئے بتایا کہ اس نے ایسی ہزاروں خواتین دیکھیں جنہیں اسرائیل لایا جاتا اور ان سے جنسی ہوس پور ی کر کے آگے فروخت کر دیا جاتا- اسرائیل کے انسانی اسمگلنگ اور خواتین کی خرید فروخت کے اعدادو شمارکے مطابق یہ بات قطعی طورپر ثابت ہو چکی ہے اسرائیل اکیسوی صد ی کے آغاز سے خواتین کی اسمگلنگ اور ان سے ہونے والی زیادتیوں میں پوری دنیا میں پہلے نمبر پر ہے- اسرائیل کے خواتین اسمگلنگ اور جنسی ہوس گیر ی کے لیے خواتین کی خریدوفروخت کا پہلاانکشاف 1992 ء میں سامنے آیا، خواتین اسمگلنگ میں ملوث ایک گروہ کو گرفتار بھی کیا گیا- اس کے بعد سے اب تک اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق عالمی ادارے کی دھمکیوں کے باوجود اسرائیل میں اس مکروہ دہندے کا طوفان تھمنے میں نہیں آرہا- 2000ء میں جب اسرائیل کا نام اس دہندے میں ملوث ہونے کی وجہ سے ہٹ لسٹ پر آیا تو حکام نے اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی بھی کی اور خواتین کی خریدو فروخت کرنے ان سے جنسی ہوس گیر ی کرنے والے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کر کے ان کی تمام جائیدادیں ضبط کرنے کا فیصلہ کیا گیا -لیکن اعلی سطحی حکام اور با اثر لوگوں کے اس مکرہ فعل میں براہ راست ملوث ہونے کی وجہ سے یہ قانون خود بخود بے اثر ہو کر رہ گیا- بظاہر حکومت نے ایسے چند عناصر بے نقاب بھی کیے اور انہیں سزائیں بھی دی گئیں تاہم اسرائیل میں اس مکرہ عمل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہو سکی اور اسرائیلی آج بھی آزادانہ اس جرم کے مرتکب ہورہے ہیں-
اسرائیل میں عصمت فروشی کے لیے مجبور کی گئی خواتین کی بہبود کے لیے کام کرنے والے ادارے’’اسرائیل انجمن مائیگرنٹ ورکرزہاٹ لائن‘‘ کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل اس وقت پوری دنیا میں خواتین کی اسمگلنگ اور ان کی خریدو فروخت میں سنٹرل ایشیا، مشرق وسطی افریقہ اور یورپ کے درمیان’’ہب‘‘Hub کا کردار اداکر رہا ہے- دنیا بھر میں خواتین اسمگلنگ کے اسرائیلی ایجنٹ موجود ہیں ،جو خواتین کو پوری دنیا سے ملازمت دینے کا جھانسادے کر آگے فروخت کر دیتے ہیں- اسرا ئیل اس وقت پوری دنیا کی اسمگل شدہ خواتین کے لیے اڈے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے- روس اور سینٹر ل ایشیا کی دیگر ریاستوں سے یورپ ملازمت کے لیے اور افریقہ سے سینٹرل ایشیا ویورپ اور امریکہ تک ملازمتوں کی فراہمی کے بہانے خواتین ادھر سے ادھر منتقل کی جاتی ہیں- رپورٹ کے مطابق یہ سارا مکروہ دہندہ ایک منظم نیٹ ورک کے ذریعے ہو رہا ہے جس کی باگ ڈور یہودیوں کے ہاتھ میں ہے- اسمگلنگ کاکام زیادہ تر قانونی طریقے سے کیا جاتا ہے تاہم بعض گروہ سرحدوں سے غیر قانونی طریقے استعمال کر کے خواتین کواسرائیل پہنچاتے ہیں- ہاٹ لائن کا کہنا ہے کہ ہر سال کم از کم تین ہزار خواتین اسرائیل لائی جاتی ہیں اور ان سے جنسی ہوس گیری کے بعد انہیں یاتو فروخت کر دیا جاتا ہے یاناکارہ ہونے کی وجہ سے قتل کر کے ڈیڈ باڈیزکو تیزاب میں جلا دیا جاتا ہے-
اسرائیل نے سرکاری سطح پر بھی خواتین کی اسمگلنگ روکنے کے لیے ’’انجمن ٹاسک فورس‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے-حال ہی میں جب خواتین کی اسمگلنگ اور ان کے جنسی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے کا معاملہ نے شدت سے سر اٹھایا تو ٹاسک فورس کی ایک نمائندہ یدیدو وولف نے انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ اب تک اس دھندے کو روکنے کیے جانے والے حکومتی اقدامات سے قطعا مطمئن نہیں، کیونکہ اسرائیل میں یہ دھندہ اس حد تک قوت پکڑ چکا ہے کہ لوگوں نے اسے باقاعدہ ایک کاروبار کی شکل دے رکھی ہے-جنسی مقاصد کے لیے خواتین کے اسرائیل لائے جانے کے بعد اسرائیل میں بدکاری کی شرح میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا جارہا ہے-
حال ہی میں مصر کے راستے روس سے اسرائیل لائی جانے والی خواتین کے ایک گرپ کی مصری سیکورٹی حکام سے جھڑپ میں ایک ایجنٹ قتل ہوا اور دیگر چھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے – پولیس نے چارروسی خواتین کواپنی تحویل میں لے لیا-یہودی ایجنٹوں کے ساتھ خواتین اسمگلنگ کے الزام میں ملوث چھ مصری شہریوں کو بھی گرفتار کیا گیاہے- ملزمان نے سینٹرل ایشیا سے خواتین کی اسمگلنگ کی متعدد کامیاب کوششوں کا اعتراف کیا ہے-
روسی حکام نے بھی انسانی اسمگلنگ خصوصا خواتین کی خریدو فروخت میں ملوث متعدد افراد گرفتار کیے ہیں- حکام کا کہنا ہے کہ گرفتار شدگان یوگنڈا اور روس سے خواتین کو یورپ اسمگل کرنے اور ان کے جنسی مقاصد کے لیے ایک سے دوسرے ممالک منتقل کرنے کا انکشا ف کیا ہے- حکام کا مزید کہنا ہے روس میں خواتین کی ٹریفیکنگ کے پس پردہ وہی عناصر کارفرما ہیں جو اسرائیل اور یورپ کے ممالک میں اس مکروہ دہندے میں مصروف ہیں-
انسانی اسمگلنگ کے اسرائیلی ایجنٹوں سے فرار ہونے والی مارینہ نامی ایک خاتون نے حال ہی میں بتایا کہ اسے طویل عرصے سے روس سے لا کر اسرائیل میں رکھا گیا- ابتداء میں اسے جنسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا – بعد ازاں اسے مکروہ دہندہ کاروں نے اپنے گروپ میں شامل ہونے کی باقاعدہ پیش کش کے ساتھ اس کی مکمل ٹرینگ کا بھی وعدہ کیااور خواتین کی اسمگلنگ کے سلسلے میں باقاعدہ کمیشن دینے کا بھی وعدہ کیا گیا- میں نے ان جرائم پیشہ گروہ سے گلو خلاصی کے لیے حامی بھر لی ان کی طرف سے ٹریننگ بھی لینی شروع کردی- میں چونکہ فرار کے موقع کی تلاش میں تھی ، اس لیے وہ میری حرکات وسکنات بھی نوٹ کرنے لگے- کچھ عرصے بعد انہیں شک گزرا تو انہوں نے مجھے دوبارہ ایک فلیٹ میں بند کردیا-
مارینہ نے انکشاف کیا کہ پیشہ ور ایجنٹ خواتین کو اس مکروہ فعل کے لیے استعمال کرتے ہیں- چونکہ خواتین ہی خواتین کے جھانسے میں زیادہ آتی ہیں اس لیے وہ کامیاب ہو جاتے ہیں- اس کے علاوہ ایجنٹ مسلسل اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں اور سکیورٹی کا انتظام اس قدر سخت ہوتا ہے کہ ایک گروہ جب اسمگل شدہ خواتین کو دوسرے کے حوالے کر دیتا ہے تو دونوں کو ایک دوسری کا اس کے بعد کوئی پتہ نہیں ہوتا – مارینہ کا کہنا ہے کہ اس نے خواتین کے اسمگلروں کا نیٹ ورک انتہائی مضبوط اور زیر زمین ہے جس سے ختم کرنے میں حکومت کوسنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے- انہوں نے مزید کہا کہ اس جرم کے مرتکبین اس قدر منظم ہیں اگر ان کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام اٹھائے گی اور اسے ختم کرنے کی بھر پور کوشش بھی کرے تو اسے اس میں کامیابی کے لیے کافی وقت درکا ہے-
اسرائیل میں جنس پرستی، جسم فروشی اور خواتین کے اسمگلنگ کے رو ز افزوں واقعات پر خطے کے دیگر ممالک بھی تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں- مصری فوج کی جانب سے ایسے متعدد گروہوں کے بے نقاب ہونے کے بعد یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ مصر میں خواتین اسمگلنگ کا دھندہ کرنے والے ایجنٹوں کے ڈانڈے بھی اسرائیل میں سرگرم نیٹ ورک سے ملتے ہیں- مصری ذرائع کہتے ہیں کہ حکام کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ طور پر ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے بصورت دیگر یہ نیٹ ورک مزید مضبوط ہو کر خطے کے دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا-عرب دنیا میں بے راہ روی کے عام ہونے سے نیٹ ورک کو آزادانہ کام کرنے کے مواقع مل رہے ہیں اور کمزور گرپوں کی بھی حوصلہ افزائی ہورہی ہے- عربی روزنامے الشرق الاوسط کی رپورٹ کے مطابق خواتین کی خریدوفروخت کا یہ سلسلہ ایشیائی عرب ممالک سے افریقی عرب ممالک تک وسیع ہو گیا ہے- مراکش اور لیبیا جیسے ممالک میں بھی یہ کاروبار تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے-
مکروہ کھیل میں اسرائیلی ایجنٹوں کے درپردہ بعض یوری افراد بھی شامل ہیں جو اس مکروہ دہندے اورخواتین کوجنس پرستی کی غرض سے استعمال کرنے کے لیے رقوم فراہم کرتے ہیں-اسرائیل میں یہ نیٹ ورک اس حد تک وسیع ہو چکا ہے کہ سابق وزیر اعظم ایرئیل شیرون کے ایک فرزند بھی اس مکروہ کھیل میں ملوث پائے گئے ہیں- اس کے علاوہ کئی اعلی سطحی حکومتی اہلکاروں کے علاوہ سرکاری افسران بھی اس کھیل کا حصہ ہیں- عالمی سطح پر مسلمہ اس جرم کی روک تھام کے لیے اسرائیلی ارباب اختیار کیا کچھ کر رہے ہیں، اسرائیلی عوام اور سماجی ادارے اس سے بالکل مطمئن نہیں- سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ خواتین اسمگلنگ کابڑھتا ہوا رحجان اسرائیلی معاشرے کو گھن کی طرح اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے- اگر اس جرم کی توسیع کا سلسلہ بدستور جاری رہا تو اور اعدادو شمار بڑھتے رہے سامنے آتے ہیں اور اقوام متحدہ کی طرف سے اسرائیل کو مختلف قسم کی پابندیوں کا بھی سامنا ہو سکتا ہے-
(بشکریہ ایکسپریس میگزین)
اسرائیل خواتین کی اسمگلنگ کا اڈہ کیسے بنا؟
پیر 3-دسمبر-2007
جنسی ہوس گیری کے لیے دنیا بھر سے اسرائیل لائی گئیستم رسیدہ خواتین کی کہانی ان کی زبانی
لینک کوتاه: