شنبه 16/نوامبر/2024

اسرائیلی ٹارگٹ کلنگ اور فلسطینی صدر کا دورہٴ پاکستان!!

پیر 22-فروری-2010

”اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کے مختلف حصوں میں حماس، حزب اللہ اور دیگر مسلم مزاحمت کاروں کو ٹارگٹ کرنے کی مہم جاری رکھے گا۔“ یہ الفاظ ”مڈل ایسٹ اسٹڈی سینٹر“ کی رپورٹ کے ہیں۔ اسرائیلی ایجنٹ حزب اللہ اور حماس کو مشرقِ وسطیٰ میں سرگرمیوں سے روکنے کے لیے ان کے کارکنوں کو پراسرار طریقے سے قتل کرنے کی کارروائیاں کررہے ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیوں میں اسرائیلی خفیہ ادارے ”موساد“ کے ملوث ہونے کے ثبوت اور شواہد ملے ہیں۔ یہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ اسرائیلی ٹارگٹ کلنگ کی آنکھیں کھول دینے والی فہرست میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ فروری 1973ء میں خفیہ طور پر اسرائیلی کمانڈوز بیروت میں داخل ہوئے اور ”فلسطین لبریشن آرگنائزیشن“ کے 3 لیڈروں کو قتل کردیا۔
 
جنوری 1979ء میں علی حسن بیروت میں ایک بم دھماکے میں شہید کردیے گئے۔ یہ کام اسرائیلی ایجنٹوں نے سرانجام دیا۔ 18/ اپریل 1988ء کو ابوجہاد خالد الوزیر کو مغربی کنارے میں شہید کردیا۔ فروری 1992ء لبنانی حزب اللہ کے لیڈر شیخ عباس مساوی لبنان میں اس وقت شہید کردیے گئے جب اسرائیلی ہیلی کاپٹروں نے اندھا دھند فائرنگ کردی۔ اکتوبر 1995ء میں اسلامی جہاد کے سربراہ فتح شکاکی کو مالٹا میں 2 مسلح افراد نے شہید کردیا۔ جنوری 1996ء کو حماس کے بم ساز عیسیٰ عباس کو ایک دھماکے میں اُڑادیا۔ اس قتل کی ذمہ داری خود اسرائیل نے قبول کی۔ ستمبر 1997ء میں حماس کے لیڈر خالد مشعل کو قتل کرنے کی سازش میں اُردن میں 2 اسرائیلیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ جنوری 2002ء میں حماس کے کمانڈر صلاح شہادة کے علاوہ 14/ افراد کو شہید کردیا گیا۔ ستمبر 2002ء میں حماس کے کمانڈر محمد دیف زخمی کر دیے گئے۔

مارچ 2003ء میں حماس کے سینئر منصوبہ ساز ابراہیم کو اسرائیلی ایجنٹوں نے قتل کردیا۔ 21/ اگست 2003ء کو مشہور حماس لیڈر اسماعیل ابوشتاب اور ان کے دو باڈی گارڈز شہید کردیے گئے۔ 7 فروری 2004ء کو اسرائیل نے اسلامی جہاد کے 2/ افراد کو ٹارگٹ کرنے کے لیے فائرنگ کی جس سے ایک 12 سالہ بچہ بھی جان سے گزرگیا۔ مارچ 2004ء میں حماس کے تین کارکنوں کو شہید کرنے کے لیے جنوب مغرب میں کارروائی کی گئی جس سے 4 عام شہری بھی مارے گئے۔
 
22 مارچ 2004ء کو حماس کے سربراہ شیخ احمد یٰسین کو غزہ میں اسرائیلی میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔ 2000ء سے 2010ء تک دس سالوں میں اسرائیلیوں اور ان کے ایجنٹوں نے ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے تقریباً 176 اہم فلسطینی لیڈروں اور اہم ترین کارکنوں کو بے دردی سے شہید کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے 19 جنوری 2010ء کو دبئی کے فائیو اسٹار ہوٹل ”بستان روتانا“ میں حماس ملٹری ونگ ”عز الدین القسام“ کے انتہائی اہم کمانڈر ”محمود المجوح“ کو اسرائیل کے گیارہ ایجنٹوں نے شہید کردیا۔ دبئی پولیس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ”ضحی خلفان التمیم“ نے پریس بریفنگ میں اعتراف کیا ہے اس واردات میں اسرائیلی انٹیلی جنس ”موساد“ کے ایجنٹ شریک تھے۔
 
دبئی پولیس کے سربراہ کا کہنا تھا برطانوی، آئرش، فرانسیسی اور جرمن پاسپورٹوں کے حامل قاتلوں نے دبئی میں حماس کے کمانڈر کو ہلاک کرنے کے لیے غیرملکی پاسپورٹوں پر مختلف ممالک کا باشندہ ظاہر کیا ہے۔ برطانوی اخبار ”ٹائمز آن لائن“ نے انکشاف کیا ہے موساد کے ان ایجنٹوں نے دبئی کے سفر کے لیے یہ پاسپورٹ برطانیہ سے چوری کیے تھے۔ برطانوی اخبا رکی یروشلم میں موجود نمایندہ خاص ”شیلا فرینکل“ اور دبئی میں موجود نامہ نگار ”ہگ ٹام لنسن“ کا کہنا ہے موساد کی جانب سے حماس کے ملٹری کمانڈر محمود المجوح کو قتل کیے جانے کے پس پردہ وہی اسرائیلی تکنیک تھی جس پر برسوں سے عمل کیا جاتا رہا ہے۔ اسی تکنیک کی مدد سے اسرائیلی ایجنٹوں نے کینیڈین پاسپورٹس کا استعمال کر کے حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ ”خالد مشعل“ کو اُردن کے دارالحکومت ”عمان“ میں قتل کرانے کی کوشش کی تھی لیکن اردنی انٹیلی جنس اور خالد مشعل کے گارڈز کی بروقت کارروائی کے باعث ان کی جان بچالی تھی۔
 
قارئین! ایک طرف تو امریکا کے بغل بچہ اسرائیل نے فلسطین کے مسلمانوں خصوصاً فلسطین کی حریت وآزادی کے لیے برسرپیکار تنظیموں کا جینا حرام کررکھا ہے تو دوسری طرف مسٹر اوباما اسلامی دنیا سے بہتر تعلقات کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ گزشتہ سال اپنے دورہٴ مصر کے دوران صدر اوباما نے تسلیم کیا تھا چھ دہائیوں سے فلسطینی عوام اپنے گھروں سے بے دخلی کی اذیت برداشت کررہے ہیں۔ امریکا فلسطینی عوام کی عزت ووقار، مواقع اور اپنی ریاست کی جائز خواہش کی حمایت ترک نہیں کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا: ”حماس کو تشدد کا راستہ ترک کرکے ماضی کے معاہدوں اور اسرائیل کے وجود کے حق کو تسلیم کرنا ہوگا۔“ اس وقت ہم نے انہی کالموں میں یہ بات دوہرائی کہ حماس نہیں، اسرائیل فلسطین کے وجود کے جائز حق کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ تشدد اور ظلم وستم کا راستہ اسرائیل نے اپنایا ہوا ہے۔

اسرائیل ہی دنیا کو تباہی کے دہانے پر لے جارہا ہے۔ 16 فروری کو قطر کے دارالحکومت ”دوحا“ میں عالم اسلامی فورم کے لیے اپنے ویڈیو پیغام میں اوباما نے کہا: ”امریکا اور اسلامی دنیا میں کافی عرصے سے اعتماد کا فقدان ہے۔ یہی بداعتمادی تنازعات کا سبب بن رہی ہے۔ میں اعلان کرتا ہوں اسلامی دنیا کے ساتھ گہرے، بہتر اور پائیدار تعلقات قائم کیے جائیں گے۔“ اس مقصد کے لیے مسٹر اوباما نے ”رشاد حسین“ نامی خصوصی نمایندہ بھی مقرر کردیا ہے۔ رشاد حسین حافظ قرآن ہیں اور وہ امریکن مسلم کمیونٹی کے ممبر بھی ہیں۔ رشاد امریکا اور اسلامی دنیا کے مابین تعلقات کار کو فروغ دینے کے لیے کام کریں گے۔ یقینا یہ ایک خوش آیند اقدام ہے کہ امریکی صدر نے کم ازکم کوئی نمایندہ تو منتخب کیا۔ جو مسلمانوں کی آواز اور ان کے جذبات امریکی صدر کے گوش گزار کریں گے، لیکن اصل بات سفارشات پر عمل درآمد کی ہوتی ہے۔ مسٹر اوباما بہت کچھ بدلنے کا عزم لے کر آئے تھے۔
 
انہوں نے ایک سال میں کئی اچھے اور دوررس نتائج کے حامل اعلانات بھی کیے۔ مسلم دنیا کے لیے وائٹ ہاؤس میں ”فرح پنڈت“ نامی مذہبی مشیر بھی مقرر کی۔ عراق اور افغانستان سے فوجیں واپس بلانے اور مذاکرات کرنے کا اعلان بھی کیا۔ کشمیر اور فلسطین کے گھمبیر مسئلے کے حل کا عندیہ بھی دیا، لیکن چونکہ امریکا میں اصل نظام یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔ امریکی اسٹبلشمنٹ میں بااثر یہودی ہیں۔ وائٹ ہاؤس کا چیف آف اسٹاف ”راہم ایمانوئیل“ صہیونی ہے۔ 32 یہودیوں کا ٹولہ ہمیشہ اوباما کے اردگرد منڈلاتا رہتا ہے۔ وہ مسئلہ فلسطین کے حل کی طرف اوباما کو آنے ہی نہیں دیتا۔

آیندہ ماہ 8 مارچ 2010ء کو امریکا کے نائب صدر ”بائیڈن“ مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کرنے والے ہیں۔ وہ اپنے دورے کے دوران اسرائیل، فلسطین، مصر اور اُردن جائیں گے اور اوباما کا خصوصی پیغام دیں گے۔ دورے کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو، صدر محمود عباس، فلسطینی وزیراعظم سلیم فیاض، حماس کے راہنما خالد مشعل، مصر کے صدر حسنی مبارک اور اُردن کے شاہ عبداللہ سے ملاقات میں باہمی اور علاقائی معاملات سمیت مشرقِ وسطیٰ امن حوالے سے تبادلہ خیال کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں مشرق وسطیٰ میں اس وقت تک قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک فلسطین کا مسئلہ مسلمانوں خصوصاً عربوں کی خواہشات کے مطابق حل نہیں ہوجاتا۔ گزشتہ ہفتے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے پاکستان کا دورہ کیا۔

صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کی جس میں دو طرفہ تعلقات، مسلم اُمہ کو درپیش چیلنجز اور مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے فلسطین کے مسئلے کے حل پر زور دیا۔ پاکستانی صدر اور وزیراعظم نے اسرائیلی جارحیت اور غزہ کے محاصرے کی مذمت کرتے ہوئے آزاد، خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی اور کہا: ”پاکستان فلسطینی سرزمین پر یہودی بستیوں کی تعمیر کی مخالفت جاری رکھے گا۔“ فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا: ”پاکستان میرا دوسرا گھر ہے اور فلسطینی عوام پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔“ بے شک ایک مسلمان دوسرے سے محبت کرتا ہے۔ بمصداق حدیث تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔ ایک کی تکلیف دوسرا محسوس کرتا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں عالم اسلام کے 58/ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو یک زبان ہو کر فلسطین کی حقیقی نمایندہ قوتوں کے درمیان اتحاد اور فلسطینی انتفاضہ کی حمایت کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے سفارتی محاذ پر سرگرم کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر ایسا ہوجائے تو پھر مسئلہ فلسطین کے حل میں دیر نہیں لگے گی۔ امریکی حکمرانوں کو بھی چاہیے وہ ایسے اسرائیل کی پشت پناہی ختم کریں جو سنگین جنگی جرائم اور انسانیت سوز دھندوں میں مبتلا ہے۔

غزہ میں حقائق تلاش کرے والے اقوام متحدہ کے مشن کے سربراہ جسٹس رچرڈ گولڈ اسٹون بھی اس بات کی گواہی دے چکے ہیں۔ امریکی حکمرانوں کو ایسے اسرائیل کی حمایت زیب نہیں دیتی جو فلسطینیوں کے خلاف ٹارگٹ کلنگ مہم ایک عرصے سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل کی ایسی انسانیت سوز کارروائیوں پر عالمی عدالت انصاف کو بھی کان دھرنے چاہییں۔ کیونکہ ایسی کارستانیاں دنیا کے امن کو تہ وبالا کرنے کی صہیونی سازش ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

لینک کوتاه:

کپی شد