اسرائیل نے گذشتہ ایک سال سے فلسطینی قانون ساز کونسل کے سپیکر عزیز دویک 8وزراء اور 42اراکین پارلیمنٹ کو قید کررکھاہے – امور اسیران کی نگران تنظیم نفحا کے ترجمان وکیل اور سپیکر عزیز دویک کی اہلیہ نے کہاہے کہ عزیز دویک شوگر کے مریض ہیں- جب سے اسرائیل نے ان کو قید کررکھاہے تب سے جیل حکام نے ان کی دوا روک رکھی ہے – ان کوذہنی اور جسمانی طور پر ٹارچر کیا جاتاہے- شوگر کی مرض اوپر سے پیرانہ سالی اور جیل حکام کے ظلم سے عزیزدویک کا وزن خطرناک حد تک کم ہوچکاہے – ان کے گردے اور دل بھی شدید متاثر ہوچکے ہیں- جیل حکام کی پوری سازش ہے کہ عزیز دویک کو جیل میں شہید کردیاجائے-
عزیزدویک کی حالت تشویشناک ہوئی تو ان کو قیدیوں کے ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے مگر وہاں پر علاج کی سہولیات میسر نہیں ہیں- اسرائیل کی جیل میں اراکین پارلیمنٹ نے عالمی سپیکر فورم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی منتخب سپیکر کی جان بچائیں جن کو شہید کرنے کا ارادہ جیل حکام کے عزائم سے ظاہر ہورہاہے- انہوں نے کہا کہ عزیز دویک فلسطینی عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور فلسطینی قانون ساز کونسل کے منتخب سپیکر ہیں- عالمی سپیکر فورم کی خاموشی چہ معنی دارد – اگر فلسطینی قانون ساز کونسل اور اس کے سپیکر کو اس طرح بے عزت کرکے جیل میں بغیر کوئی جرم بتائے شہید کیاگیا تو فلسطین میں قیام امن کیسے قائم ہوگا- عالمی دنیا فلسطینیوں کی قانون ساز کونسل کو تسلیم کرے تاکہ فلسطینی اراکین پارلیمنٹ کو وہ مقام حال ہوجو دنیا کے دیگر ممالک کے اراکین پارلیمنٹ کو حاصل ہے-
اسرائیل ایک طرف فلسطینیوں کی آزاد ریاست کی بات کرتاہے اور امریکہ میں مجوزہ امن کانفرنس کے لئے پر جوش ہے اور دوسری طرف وہ فلسطینیوں کے منتخب نمائندوں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کررہاہے – 8وزراء اور 42اراکین پارلیمنٹ کو بغیر کسی جرم کے گذشتہ ایک سال سے پابند سلاسل کررکھاہے – اسرائیل کا ایک حوالدار اٹھتا ہے اور فلسطین کے سپیکر کو اٹھا کر جیل میں بند کردیتاہے اور جیل حکام اسکے ساتھ ذلت آمیز سلوک کرتے ہیں- یہ کیا ہے؟ کیا یہ فلسطینی قوم کی توہین نہیں ہے؟ کیا ان کے مینڈیٹ کی توہین نہیں ہے؟ اگر معزز دنیا اس عمل کو غیر اخلاقی اور غیر انسانی سمجھتی ہے تو وہ اسرائیل کی مذمت کیوں نہیں کرتی؟ کیا وہ امریکہ سے امداد کے نام پر چند ڈالروں کی خاطر اپنے ضمیر کا سودا کئے ہوئے ہیں- اسرائیل جب تک فلسطینیوں کا قتل عام بند نہیں کرتا- فلسطینی ریاست کی سالمیت اور برابر کو تسلیم نہیں کرتا القدس کو فلسطینیوں کے حوالے سے نہیں کرتا اس وقت امن مذاکرات اور امن کانفرنسز پر وقت ضائع تو کیا جاسکتا ہے مگر ان سے خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکتے –
اسرائیل کا ماضی دغدار ہے اس لئے اس کے کسی معاہدے اور وعدہ پر اعتبار نہیں کیاجا سکتاہے – امریکہ میں اناپولیس کانفرنس کے حوالے سے اسرائیل نے کچھ مثبت اشارے دیئے ہیں – القدس کے کچھ حصوں کو فلسطینیو ں کو دینے اور فلسطینی ریاست کا دارالحکومت القدس کے ان حصوں پر قائم کرنے کی اجازت دینے پر رضا مند ہو رہاہے – مہاجرین کی واپسی بارے بھی اسرائیل نے اب یہ موقف اختیار کیا ہے کہ 1967ء کے علاقوں میں کرسکتے ہیں کہ 1948ء کے قبضے کئے گئے علاقوں میں نہیں آسکتے –
اسرائیل بنیادی طور پر یہ سمجھتاہے کہ ایک ایسی فلسطینی ریاست قائم کرلی جائے جس کی سلامتی کا دارو مدار اسرائیل پر ہو – جب چاہے اور جس وقت چاہے فلسطینی سپیکر وزیراعظم اور اراکین پارلیمنٹ کو گرفتار کرے- جب چاہے اور جس وقت چاہے جہاں چاہے فوجی کاروائی کرے- ایسی ریاست اگر قائم بھی ہوتی ہے تو اس کا فلسطینیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہے- فلسطینی قوم اس طرز پرکوئی حل یقیناً قبول نہیں کرے گی- امریکہ جس دو ریاستی نظریے کی بات کرتاہے اوراس کی حمایت کرتاہے اس کا نقشہ یہی ہے جو اسرائیل کا ہے – اسرائیل کبھی بھی آزاد اور مضبوط فلسطینی ریاست قائم نہیں ہونے دے گا-
اایسی ریاست اگر قائم بھی ہوتی ہے تو اس کا فلسطینیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا- فلسطینی یقینا اس طرز کا کوئی حل قبول کیسے کریں گے جس میں ان کی سلامتی کی کوئی ضمانت ہی نہیں ہے-
امریکہ دو ریاستی نظریے کی بات ضرور کرتاہے اس کاحامی بھی ہے، مگر اسرائیل ایسی ریاست چاہتا ہے جو مضبوط بھی نہ اور آزاد بھی نہ ہو-
اناپولیس امن کانفرنس انعقاد سے قبل ہی ناکام ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے،امریکہ نے محمود عباس پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ دحلان کو اپنا نائب نامزد کریں چونکہ دحلان امریکہ اور اسرائیل کے لیے وہ خدمات انجام دے سکتے ہیں جو اور کوئی اس کا سوچ بھی نہیں سکتا-
دحلان کی سعی ہے کہ فتح کے اندر بھی تقسیم در تقسیم کا عمل ہو مگر فلسطینی ایسا نہیں ہونے دیں گئے، چونکہ اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ پہلے ہی نقصان اٹھا چکے ہیں، امریکہ درون خانہ اسی سعی میں ہے کہ فلسطینیوں کو باہم دست وگریباں کر کے ان پر حل مسلط کیا جائے-
اسرائیلی جیل میں فلسطینی سپیکرکی تشویشناک حالت
ہفتہ 10-نومبر-2007
لینک کوتاه: