جنوبی ہند کی اداکارہ خوشبو کی داخل کردہ ایک خصوصی درخواست پر اپنا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ایک بنچ جو تین ججوں (چیف جسٹس کے جی بالا کرشنن، دیپک ورما اور بی ایس چوہان) پر مشتمل تھا خیال ظاہر کیا کہ شادی کے بغیر اگر کوئی (بالغ) مرد اور (بالغ) عورت ایک ساتھ رہتے ہیں تو اسے جرم سمجھا نہیں جائے گا۔ کوئی قانون ایسا نہیں کہ وہ بالغ مرد و عورت کو ایک ساتھ رہنے پر منع کرتا ہے؟ آخر کس قانون کے تحت شخصی رائے جرم قرار پائے گی یا پھر بالغ مرد اور عورت کا ایک ساتھ رہنا جرم قرار پائے گا؟ لہٰذا یہ شخصی خیال ہے اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں؟ شادی سے پہلے جنسی تعلقات پر خوشبو کی رائے شخصی ہے اور یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں یا پھر گھروں پر اثر انداز ہونے والی نہیں ہے، اس لیے فاضل ججوں کا وکلاء سے سوال تھا: (خوشبو کی شخصی رائے سے) کتنے گھر متاثر ہوئے ہیں؟ (رائے سے متاثر ہونے کی) کتنی شکایتیں آئی ہیں؟
(١) شادی سے پہلے جنسی تعلقات یا (کسی بھی سماجی، اخلاقی اور قانونی بندش کے بغیر) بالغ مرد اور عورت کا ایک ساتھ رہنا (٢) بالغ مرد اور عورت کے ایک ساتھ رہنے پر قانون اور اس کی کوئی دفعہ کا نہ رہنا (٣) جنسی نوعیت اور جنسی تعلقات کے موضوعات پر شخصی اظہار خیال اور اس کا عوام الناس تک پہنچانا اور اس پر قانونی اطلاق کی عدم گنجائش
… یا مختصر الفاظ میں جنس (جنسی تعلقات کی ہئیتیں) اور قانون کے باہمی رشتے پر ملک کی سپریم کورٹ نے جو کچھ اپنے طور پر کہا ہے، اس پر تو ملک میں نقد و تبصرہ و بحث و مباحثہ کا روایتی عمل شروع ہو چکا ہے لیکن شادی سے قبل یا بالغ مرد اور عورت کا جنسی تعلق کہ ہندوستان کے سماجی، تہذیبی، معاشرتی، اخلاقی، قانونی اور مذہب و عقیدے کے بنیادی طور پر مختلف و متضاد و متفرق نظاموں (مثلاً ملک کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کا سماجی، تہذیبی، معاشرتی، اخلاقی، قانونی اور مذہب و عقیدے کا نظام ملک کی سب سے بڑی اکثریت ہندو اکثریت کے ہندومت سے بالکل مختلف منفرد جداگانہ نوعیت رکھتا ہے) کے پس منظر میں انفرادی و سماجی مسائلی نوعیتیں رکھتا ہے مگر شادی سے قبل جنسی تعلق پر سپریم کورٹ کا اظہار خیال اس وقت قابل فہم ہوسکتا ہے جب ہمارے ذہن میں
The Making of neoliberal India :Nationalism gender and the paradoxes of Globalization (Rupa Oza: 2006)
کے علاوہ ان نتائج کی بھی آگاہی ضروری ہے، جو ملک کی سول سوسائٹی میں ہندو اسرائیلی اور امریکی تعلقات کی وجہ سے بھی پیدا ہوئے ہیں کیونکہ ہندوستان پر امریکا اور اسرائیل سے تعلقات کے اثرات بھی رہے ہیں۔ سابقہ وزیر اعظم شری اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت میں این ڈی اے کی حکومت میں امریکا اور اسرائیل سے ہندوستان کے تعلقات پہلے مرحلے پر اپنی انتہا کو پہنچ چکے تھے۔
Old and New Links Between Israel and India (Samuel G Freedman) Nov. 2008. میں جہاں ہندوستان کے ہندومت اور اسرائیل کے یہودیت کے مذہبی اور تہذیبی رشتوں کی دریافت ہوئی وہیں معاشی اور دفاعی شعبوں میں تعاون و اشتراک کا بہترین آغاز ہوا۔ ہندوستان کے مختلف اداروں (institutions) پر امریکی اور اسرائیلی تہذیبی اقدار کے اثرات بھی مرتب ہوئے خصوصاًط ماس میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا، انٹرٹینمنٹ انڈسٹری اور کنزیومر مارکیٹ میں گلوبلائزیشن اور امریکی اور اسرائیلی کلچر کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں جن سے ملک میں بعض سماجی طبقات کے لائف اسٹائل میں تبدیلی آگئی۔
بہ قوم مصنف سابقہ این ڈی اے حکومت ہندو نیشنلزم اور ہندو تہذیب کے احیاء پر یقین رکھتی ہے، مگر اس نے بھی سابقہ مرکزی کانگریسی حکومت کی معاشی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے جہاں ملک میں آزاد معیشت اختیار کیا، وہیں جنسی کوڈز کے عمل بھی جاری رہنے دیا، جس سے ہندومت کے عورت کے روایتی تصور کے باوجود ہندوستان کے تہذیبی و سماجی پردہ پر نیو لبرل خاتون بھی نظر آنے لگی جس کے نتیجہ میں بنگلور میں عالمی حسن کا مقابلہ منعقد ہوا، جو ہندوستانی کلچر میں گلوبلائزیشن کی کھلی اور واضح علامت تھی یا پھر اسرائیلی اور امریکی کلچر سے برآمد شدہ جنسی کوڈز۔ سابقہ این ڈی حکومت قومی تہذیب (national culutre) کے تحفظ کو عزیز سمجھنے کے باوجود۔
ہندو اکثریتی رکھنے والی کلچر میں بھی قطبی نظام کے ایک اہم ترین تصور یعنی globalization of sex داخل ہوگیا اور یہ تصور معاشی تصور کی پیٹھ پر بیٹھ کر ترقی پذیر ممالک کی سوسائیٹیوں میں داخل ہو کر متاثر کرنے لگا تھا۔ اسرائیلی گلوبلائزیشن کے فلسفے نے جنسیت کو بھی معاشی تصور کے ساتھ جوڑ دیا تھا اور اس کے اطراف میں معاشی تصورات جمع کردیئے گئے تھے کیونکہ سیکس گلوبل ہو کر صرف امریکا میں 13 billion ڈالر کا سالانہ کاروبار کررہا ہے جبکہ ایک بہت پرانی اطلاع کے مطابق قطبی نظام کے معاشی ایجنڈے میں جنسیت کو شامل کر کے اسے cultural globalization کا حصہ بنایا گیا ہے۔ بہر حال مشرقی دنیا میں بھی مغرب تہذیبی انقلاب لانا چاہتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے لیے ہندوستانی سوسائٹی موزوں جگہ ہے کیونکہ ہندوستانی سوسائٹی کے بعض سماجی طبقات ایسے ہیں جو اپنی منفرد شناخت (identidy) کے لیے جنسی طور پر قطبی جنسی اخلاقیات کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔
امریکی و اسرائیلی تہذیبی گلوبلائزیشن کا مقصد خصوصاً ترقی پذیر ممالک (جس میں ہندوستان بھی شامل ہے) میں جہاں جنسیت میں جنسیت کی اس اخلاقیات کو فروغ دیا جائے۔
بالغ مرد اور بالغ عورت کے باہمی تعلقات کی مندرجہ ذیل شکلیں امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں پائی جاتی ہیں جن کا تعلق ہمارے موضوع سے ہے۔
(1) Marriage (2)common law – marriage (3) same sex marriage (4) cohabitation (5) civil union (6) domestic partnership (7) putative marriage.
جمہوری نظاموں کی حکومتوں میں اور جن میں جنسیت کے متعلق ایشوز ”سیاسی ایشوز” (political issues) کی نوعیت اس لیے اختیار کرلیے ہیں کہ جنسیت پر سیاست کی جانے لگی ہے۔ اس لیے مارک بلاسس کا کہنا ہے کہ جمہوری نظام حکومت میں politiclizing sexuality کا تصور پایا جانے لگا ہے۔ جنسیت کی سیاست کی انتہا پسندی یہ ہوئی امریکا میں یہ بھی مطالبہ کیا جانے لگا کہ امریکا کا صدر guy ہو!
اب یہ سوال اہم نہیں رہا کہ اگر معاشی گلوبلائزیشن کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک (جن میں ہندوستان شامل ہے) میں مردوں اور عورتوں میں ہم جنسیت کی ہمت افزائی کا حکم دیا جاتا ہے یا پھر transgender identity (LGBT) کو قبول کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تو یہ سب تعجب خیز نہ ہوگا اور یہ بھی سمجھا نہیں جائے گا کہ ان سب کو سماج میں رواج دینے سے مقامی تہذیب اور مقامی اخلاقیات کو نقصان پہنچے گا؟ چنانچہ ماضی میں سابقہ این ڈی اے حکومت نے اپنے ملک میں مغربیت کے داخلے کو جاری رکھا اور اسے اپنے کلچر کے لیے نقصان دہ یا خطرناک نہیں سمجھا۔ ہندو نیشنلزم کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والی سابقہ این ڈی حکومت نے بھی امریکا اور اسرائیل سے بہت کچھ سیکھا اور ملک میں ان کی تہذیبی آمد کو خوش آمدید کیا۔ برطانوی سکول آف اکنامکس لندن کے تعلیم یافتہ کانگریسی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور سابق اطالوی شہری و عیسائی خاتون مسز سونیا گاندھی کی یو پی اے حکومت اپنی خارجی پالیسیوں سے واضح اشارے دے چکی ہے کہ اس کی پالیسیاں امریکی اور اسرائیلی نواز ہیں؟ امریکا اور اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کی گہرائی کا یہ عالم ہے کہ ملک میں اگر دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو اس کی تفتیش کے لیے امریکا کا محکمہ جاسوسی ایف بی آئی اور اسرائیل کا محکمہ موساد (MOSAD) کا عملہ ہندوستان آجاتا ہے۔ کانگریسی ہندوستان آجاتا ہے۔ کانگریسی یو پی اے حکومت عدالت کے ذریعہ بعض ایسے فیصلے کیے ہیں جو liberalization of sexual morality کے ضمن میں آسکتے ہیں۔ بہت پہلے
سپریم کورٹ نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ اگر قحبہ گری دنیا کا قدیم پیشہ ہے، اور اسے قوانین سے دبایا جا نہیں سکتا اور اس کا (سب سے بڑا) سبب ملک کی غریبی ہے تو بہتر یہ ہے کہ پیشے کو قانونی طور پر جائز بنایا جائے۔ اگر prostitution کو قانونی بنایا جائے تو اس سے بہت سارے مسائل حل ہوں گے۔” چنانچہ مخصوص شرائط کے ساتھ قحبہ گری کو قانونی قرار دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے gender-equlaity اور قانون کی نظر میں عورت اور مرد برابر کے نظریے کے تحت خواتین کو بہ طور باربنڈرز کا پیشہ اختیار کرنے کی قانونی اجازت دی اور اس کے ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا تھا کہ ان کا تحفظ بھی کیا جائے۔
gender parity in workforce کی بنیاد پر اور کام کرنے والی خواتین کے لیے یہ آسانی فراہم کردی ہے کہ وہ رات کی شفٹ میں کام کرسکتی ہیں۔ امریکی پیٹرن پر بالغ فرد کی حیثیت سے حقوق اور ذمہ داریوں کے ضمن میں ہندوستان کے سپریم کورٹ نے بھی اٹھارہ سال کی لڑکیوں کو حقوق (rights of elope) دیئے ہیں جن کے ضمن میں ان کے والدین انہیں نہ تو خوف زدہ کرسکتے ہیں نہ ہی ان کی آزادی میں خلل پیدا کرسکتے ہیں۔ وہ آزاد ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرسکتے ہیں۔ بعض صورتوں میں اسقاط حمل کو بھی قانونی قرار دیا گیا ہے اور اس پر سات ہفتوں کے اندر عمل کیا جاسکتا ہے۔ مہاراشٹرا ریاستی حکومت نے ڈانس بارز (dance bars) کو بند کردینے کے احکام نافذ کیے تھے۔ ریاستی حکومت نے ڈانس بارز میں کام کرنے والی خواتین کو بھی روزگار پر روک لگادی تھی مگر HS lifts ban on dance bars (Ap 12 2006) کے مطابق جسٹس ایف آئی روبیلا اور جسٹس روشن دالوی نے اپنا حکم صادر کرتے ہوئے حکومت مہاراشٹرا کو بارز کھولنے کا اور ان میں کام کرنے والی خواتین کو روزگار پر برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا اور ریاستی حکومت کو اپنا حکم نامہ منسوخ کرنا پڑا تھا۔ انٹرنیٹ رپورٹ Homosexuality In India Is Now Legal (indiaserver.com) میں ہندوستان میں genders rights میں ہم جنسوں کے حقوق کو شامل کر کے جسٹس پرکاش شاہ اور جسٹس ایس مرلی دھر نے انہیں قانونی حیثیت دے دی ہے۔