وزیر اعظم اسرائیل بنیامین نیتن یاہو کا دعوی ہے کہ مشرقی مقبوضہ بیت المقدس پر اسرائیل کا اقتدار اعلی ہے اور اس موقف کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا جب تک امریکی صدر براک اوباما نے جون کے اوائل میں مصر میں عالم اسلام سے اپنے شہرہ آفاق خطاب کے دوران، امریکا اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی کے ازالہ اور خیر سگالی کے فروغ کے لئے یہودیوں اور مسلمانوں پر یہ واضح کیا تھا کہ ’’ جس طرح اسرائیل کے وجود کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ویسے ہی فلسطینیوں کو بھی یہی حق حاصل ہے-
امریکا ان لوگوں کا استحقاق تسلیم نہیں کر سکتا جو اسرائیل کو سمندر میں دھکیل دینا چاہتے ہیں تاہم ہم اسرائیل کی طرف سے مسلسل نئی آبادیاں بساتے چلے جانے کے استحقاق کو بھی تسلیم نہیں کرتے- یہ تعمیرات سابق معاہدوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں-
اب وقت آگیا ہے کہ ان تعمیرات کو روک دیا جائے ‘‘- براک اوباما نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ ’’امریکہ اپنی پالیسیاں ان کے ساتھ مربوط کرتا ہے جو کہ امن کے متلاشی ہیں‘‘- اوباما کی صاف گوئی یہ خبر دیتی ہے کہ امریکا امن کو ترجیح دیتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے جو بھی اس کے ہم قدم رہے گا امریکا اپنی پالیسیوں کو اس کے ساتھ مربوط کرے گا-
فتح کی قیادت نے اگر چہ، امن کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے ظاہر ہے وزیر اعظم اسرائیل اور متنازعہ صدر فلسطین محمود عباس کے سخت گیر موقف نے امن کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ پیدا کر دی ہے- نئی بستیوں کی تعمیر کو روکنے کے لئے امریکا نے مطالبہ کیا ہے جسے قبول کرنا اسرائیل کی اخلاقی ذمہ داری ہے- فلسطینیوں کی جانب سے اصل مسئلہ پر اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا- اگر امریکا اسرائیل کے ہٹ دھرمی کے رویے پر خاموشی اختیار کرتا ہے تو اور اعتدال پسند فلسطینیوں کو بات چیت کے میز پر آنے کے لئے ترغیب دیتا ہے تو مشرق وسطی میں حقیقی امن کی تلاش میں براک اوباما کا دعوی نہ صرف ایک مذاق بن جائے گا بلکہ ان کا اعتبار بھی ختم ہو جائے گا-
اوباما، فی الوقت مسٹر کلین کی حیثیت رکھتے ہیں ان کے ساتھ اعتبار اور دیانت داری دو ایسی خصوصیات ہیں جو دنیا کو ان پر اعتما د اور بھروسہ کرنے پر قائل کرتی ہے- اوباما، ان خصوصیات کو کھونا اور پامال نہیں کرنا چاہتے تو ان کے پاس دو ہی راستے باقی رہ جاتے ہیں کہ وہ پہلے تو اسرائیل کی قیادت کو ترغیب دیں یا پھر ایسی پالیسی اختیارکریں جو اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتی ہے- یہ سوال تو خارج از بحث ہے کہ اوباما، فلسطین کے مسئلہ پر اسرائیل سے اپنے تعلقات کو توڑ لیں چوں کہ ان کا رویہ حقیقت پسندانہ بھی نظرآتا ہے- انہیں یہ احساس بھی ہے کہاس طرح کے انتہائی اقدام کے ذریعہ وہ مسئلہ ہے فلسطین کو حل نہیں کر سکیں گے بلکہ دو علیحدہ مملکتوں کا ان کے نظریہ پر پانی پھر جائے گا جب کہ عربوں اور یہودوں کی ایک بڑی تعداد اپنی ناپسندیدگی کا باوجود، اس نظریہ کو مناسب اور احسن طریقہ تصور کرتی ہے-
وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو جو قدامت پسند لیکوڈ پارٹی کے کی نمائندگی کرتے ہیں اگرچہ فلسطینی مملکت کے اصول کو کئی ایک شرائط کے ساتھ آخر کار قبول کر تو لیا لیکن پھر ان کی دیانت داری اور اخلاق پر گہرا شبہ ہے- کہا جاتا ہے کہ نیتن یاہو دونوں عوام کے لیے دونوں مملکتوں کے نظریہ پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا ہے-
گزشتہ اتوار کو انہوں نے فلسطینی قیادت کو بھی امن بات چیت کے لئے مدعو کیا تھا جس میں انہوں نے اس معاملت کے لئے کھرے انداز میں اپنی شرائط پیش کی ہیں- ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو سب سے پہلے اسرائیل کو یہودی عوام کی مملکت کے طور پر تسلیم کرنا چاہئے لیکن فلسطینی عوام کے کے مذاکرات کاروں نے اس طرح کی شرط کو اس استدلال کے ساتھ مسترد کر دیا کہ اس کے نتیجے میں 1948ء کے فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کی اولاد کی اپنے سابق مکانات میں واپسی کی حق نفی ہو گی- نیتن یاہو کا استدلال یہ تھا کہ پناہ گزینوں کے مسئلہ کو اسرائیل کی حدود کے باہر حل کئے جانے چاہئے اور یہ کہ اسرائیل قابل دفاع سرحدات کو ہی قبول کرے گا اور انہیں یہ عالمی ضمانت بھی ملنی چاہئے کہ جو بھی فلسطینی مملکت قائم ہو رہی ہے وہ غیر مسلح اور نہتی رہے-
اسرائیل کی یہ ایسی شرائط ہیں جو فلسطینی قائدین کے لئے مشکل ہی سے قابل قبول ہو سکتی ہیں- اس طرح کی غیر مسلح فلسطینی مملکت کے اقتدار اعلی اور اس کی سالمیت کی ضمانت کون دے گا؟ کیا اسرائیل بھی مسلح افواج کو تحلیل کر دے گا؟ مشرقی مقبوضہ بیت المقدس کے موقف کے بارے میں خاموشی کے اختیار کی گئی ہے جب کہ یہ بھی بشمول سرحدات اور پناہ گزین ایک بنیادی مسئلہ ہے-
فلسطینی کی علیحدہ مملکت کے مسئلہ کو جس انداز سے پیچیدہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے نیتن یاہو اور ان کی قدامت پسند لیکوڈ پارٹی اور حکومت کی بد نیتی کا پتہ چلتا ہے اور بدنیتی کسی مسئلے کا حل نہیں سو سکتی اور نہ پائیدار امن کا وسیلہ بن سکتی ہے- ایسے میں اوباما کی امن کی تلاش نہ صرف ایک بے معنی ہے بلکہ ایک چیلنج بھی ہے-