جمعه 15/نوامبر/2024

آہ”غزہ” تو اتنا لاوارث کیوں ہے!

جمعرات 5-نومبر-2015

 انٹرنیٹ پرموجود ایک ویڈیو ہےجس میں’ غزہ ‘کے قبرستان کا منظر دکھایا گیا ہے ۔ دس ، بارہ سال کی  فلسطینی بچی ایک قبر کے سرہانے بیٹھی یہ بتا رہی ہے کہ اس کے خاندان کے آٹھ افراد اسرائیلی درندگی کا نشانہ بن چکے ہیں ۔ وہ کیتی ہے کہ میرا ایک بھائی سکول سے واپس آرہا تھا کہ راستے میں اسرائیلی میزائل کا نشانہ بن گیا ۔ دوسرا چار سال کا بھائی گھر میں کھانا کھا رہا تھا کہ موت کی آغوش میں چلا گیا ، پھر یہ بچی بڑے دکھ سے کہتی ہے ،میں بھی کسی دن ایسے ہی اپنے گھر میں یا سکول آتے جاتے اسرائیلیوں
گولیوں کا نشانہ بن جاوٗں گی ۔اس کے چہرے پر ہویدا غم اور کرب دیکھ کر اور اس کی باتیں سن کر میں بھی حسرت ، افسوس ،اور غم کے اندھیرے میں ڈوب جاتا ہوں ۔

ایک رسالے میں غزہ کی ایک گلی دکھائی گئی ہے ،جسمیں پانچ ماہ سے لے کر دس سال کے معصوم بچوں کی کٹی پھٹی  بے گورو کفن لاشیں پڑی ہیں ، جنہیں دیکھ کر انسانیت خون کی آنسو رورہی ہے۔اس طرح کی دو چار یا دس بیس نہیں بلکہ سیکڑوں تصویریں ، کہانیاں،اور مناظر عرب دنیا میں چھپنے والےانگریزی، عربی اخبارات ورسائل کی صورت میں اور انٹرنیٹ  پر موجود ویب سائٹس اور ویڈیوز کی شکل میں پچھلے کئی دنوں سے میرے سامنے ہیں ان سب کو دیکھ کر کبھی تو میں رونے لگتا ہوں اور کبھی سوچنے ،کبھی بے بسی سے ہاتھ  مسلنے لگتا ہوں اور کبھی غصے سے اٹھ کر ٹہلنے لگتا ہوں ۔ میرے جیسا کمزور
انسان اور کر بھی کیا سکتا ہے ؟

نہ جانےمجھے یہ کیوں لگتا ہے کہ امریکی و اسرائیلی ظلم کا شکار ہونے والے یہ سب بچے، میرے بچے ہیں۔یہ سب مائیں، میری مائیں ہیں یہ سب بہنیں، میری بہنیں ہیں۔ یہ سب بھائی ، میرے بھائی ہیں ۔ سوچتا ہوں میں ان کی مدد کیسے کر سکتا ہوں ؟

پھر سوچتا ہوں کہ یہ سب کچھ تو پچھلے چالیس ،پینتالیس برس سے ہو رہا ہے ، مگر نتیجہ ہمیشہ ایک ہی نکلتا ہے کہ اپنے لاشے اپنے ہاتھوں سےاٹھانے پڑتے ہیں۔ہمارے ہی خون سے ابو غریب سیراب ہو تا ہے،ہماری ہی ہڈیوں سے فلوجہ تشکیل پاتا ہے اور ہمارے ہی جسموں سے ’’غزہ‘‘ کے قرستان آباد ہیں۔

آخر کیوں؟

اور ادھر ظالم ہے کہ روز بروز آگے سے آگے بڑھتا جا رہا ہے ۔ پھر سوچتا ہے ہوں کہ کیوں نہ ہم اپنی پالیسی تبدیل کر کے دیکھیں ۔کیوں نہ ہم مان لیں کہ ہم کمزور ہیں ۔ہم بکھری ہوئی،منتشراور پراگندہ خیال قوم
ہیں ، ہم ردعمل کی نفسیات کے شکار ہیں ۔ ہم اپنی عظمت رفتہ کو شارٹ کٹ طریقے سے حاصل کرنا چاہتے ہیں ، ہمارے سیاسی رہنما ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں ۔

کیوں نہ ہم تسلیم کر لیں کہ ہم علم وفن میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔ کیوں نہ اس حقیقت کا ادراک کر لیں کہ ہم نے ایمانی قوت کھودی ہے اور مادی قوت کے راستے بھی ہماری کرپشن اور بدیانتی نے مسدود کررکھے ہیں ۔

کیوں نہ آج ہم یہ نوشئہ دیوار پڑھ لیں کہ ہم قحط الرجال کےشکار ہیں۔ ہماری ماوٗں نے وہ رہنما جننےبند کر دئیے ہیں جو بکتے تھے نہ جھکتے تھے ۔اب ہمارےہر لیڈر کی ایک قیمت ہے ۔ فرق ہے تو بس ان کی قیمت کا ۔ کسی کی کم کسی کی زیادہ ۔ ایسے میں کیا ہمارے فدائی حملے ،ہمارے پتھر، ہمارے غلیل ،ہمارے خود ساختہ بم،جدید ٹینکوں ،راکٹوں،میزائلوں،اور سیٹلائٹ کا مقابلہ کر سکتے ہیں ؟ ہم پتھر پھینک کر زیادہ سے زہادہ ایک سر پھاڑتے ہیں، جواب میں وہ ہمارے پورے خاندان کو ختم کر دیتے ہیں ۔

سوچتا ہوں کہ میں لوگوں سے کہوں :لوگو!ٓ آوٗ جو کچھ باقی بچا ہے کم ازکم اسے تو بچا لیں ۔ ٹھنڈے دل سے غور کرو ،اگر ہم نے سب ضائع کر دیا تو پھر سب صفر سے شروع کرنا پڑے گا۔کیا بہتر نہیں کہ ہمارے پاس جو دس بیس ہے اس سے دوبارہ شروع کر لیں ۔ علم فن میں مغرب سے بڑھ کر مقام حاصل کر لیں ۔

پھر سوچتا ہوں کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سےیقینا بہیتر ہوتی ہے،مگر اس وقت جب شیر کے اپنے بچے محفوظ ہوں۔ اگر سارے گیدڑ شیر کی پوری نسل ہی تباہ کرنے پر تلے ہوں تو پھر شیر کہ بہادری یہ ہے کہ خود زلت کی زندگی گزار کر اپنی نسل کو بچا لے اور نہیں یہ سق دے جائے کہ
پھر وہ کبھی کسی تنہا شیر کی طرف دیکھنے کی بھی جراٗت نہ کریں۔ جی چاہتا ہے کہ ایسی آواز لگاوٗں جو عالم اسلام کے کونے کونے تک پہنچ جائے ۔ مگرکیسے؟ میں جانتا ہوں کہ میری آواز تو ایک کمزو آواز ہے ! لیکن سوچتا ہوں نہ ہونے سے تو یہ کمزور آواز ہی بہر حال بہتر ہے
بشکریہ روزنامہ "جہان پاکستان”

لینک کوتاه:

کپی شد