اس کے باوجود یہ مسئلہ نصف صدی سے زیادہ عرصے سے اقوام عالم کے سامنے موجود ہے اور تاحال اس کے حل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی- اس تنازع کے اب تک طے نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس معاملے پر تاحال مناسب اور بھرپور توجہ ہی نہیں دی گئی- اس سارے عرصے کے دوران مختلف ممالک اور عالمی راہنماؤں کی جانب سے اس مسئلے کے حل کی ضرورت پر زور تو دیا جاتا رہا لیکن اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدام عمل میں نہیں لایا گیا اور اگر اس معاملے میں بعض ممالک کی جانب سے کچھ پیش رفت کرنے کی کوشش کی بھی گئی تو اسرائیلی قیادت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ کوششیں ناکام ہوگیں جیسے چند برس قبل کچھ ممالک کی جانب سے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک روڈ میپ تشکیل دیا گیا تھا
اسرائیلی اور فلسطینی قیادت نے جس پر عملدرآمد پر رضامندی ظاہر کی لیکن بعد ازاں اسرائیل کی جانب سے ایسے جارحانہ اقدامات کیے گئے کہ پورا روڈ میپ سبوتاژ ہوگیا اور یہ مسئلہ ایک بار پھر لٹک گیا- اسرائیل کی جانب سے ہٹ دھرمی کے اس مظاہرے کی بنیادی وجہ امریکہ اور بعض دیگر ممالک کا یہودیوں کے معاملے میں جانب دارانہ رویہ اور پالیسیاں ہیں- اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود امریکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیل کے خلاف منظور ہونے والی ہر قرارداد ویٹو کردیتا ہے-
چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امریکہ کی جانب سے ویٹو کے اختیار کے ناجائز اور غیر مناسب استعمال کی وجہ سے ہی یہ مسئلہ گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران پیچیدہ ترین بن چکا ہے کیونکہ اسرائیلی قیادت امریکہ کی جانب سے حاصل ہونے والی طاقت اور اسلحہ فلسطینیوں کے خلاف استعمال کرتی ہے- اس طرح اسرائیل کا رقبہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور فلسطین سکڑتا جارہا ہے- یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ یا تو فلسطین کا وجود ختم کردیا جائے گا یا پھر ایک محدود سے رقبے کو آزاد فلسطین کا نام دے کر اس مسئلے کو حل کرنے کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی کوشش کی جائے گی-
ایسا سوچنے والوں کو اس امر کا ادراک کرنا چاہیے کہ فلسطینیوں کو یہ اقدام کسی طور منظور نہیں ہوگا اور اس طرح کا کوئی اقدام مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کی بجائے حالات کو مزید خراب کردے گا اس لیے اسرائیل فلسطین تنازع کے حل میں کردار ادا کرنے کی صلاحیت و حیثیت کے حامل ملکوں کو ایسے کسی لمحے کا انتظار کرنے کی بجائے اور اس تنازعے کے حوالے سے زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے اس مسئلے کے حل کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ مشرق وسطی کے علاقے میں پائیدار امن کے قیام کی راہ ہموار ہو اور اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے آئے روز فلسطینیوں کا جو خون بہایا جاتا ہے وہ روکا جاسکے- پوپ بینڈکٹ اگر اس تنازع کو حل کرنے کے دل سے خواہشمند ہیں تو ان کیلئے امریکہ و مغربی ممالک کو اس امر پر راضی کرنا چنداں مشکل نہیں ہے-