مقبوضہ علاقوں میں انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والی اسرائیلی تنظیم ’بتسلیم‘ نے درجنوں فلسطینی قیدیوں کی شہادتوں کی بنیاد پر ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس میں دوران حراست انہیں دی گئی اذیتوں کا تفصیلی احوال بیان کیا گیا ہے۔
’بتسلیم‘ نےان قیدیوں سے حراستی مراکز میں کئی ماہ کی مسلسل اذیتیں سہنے اور رہائی کے بعد باتکی۔ سابق اسیران نے ’بتسلیم‘ کو بتایا کہ ان سمیت تمام قیدیوں کے ساتھ انتہائیاذیت ناک سلوک کیا گیا۔ انہیں جسمانی تشدد، منظم جنسی زیادتیوں، توہین اور تذلیلکے ساتھ بھوکا پیاسا رکھ کر ستایا گیا۔
تنظیم نے”جہنم زار میں خوش آمدید” کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی جس میں قابض جیلوںمیں قید 9900 فلسطینی قیدیوں کی تکالیف کو اجاگر کیا گیا۔
اسرائیلی عقوبتخانوں میں قید فلسطینیوں کو بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے ہیں، ان کی عصمت دری کی جاتیہے اور ان پر بدترین تشدد کیا جاتا ہے۔ بہت سے فلسطینی قیدی جہنم نما حراستیکیمپوں اور تشدد گاہوں میں مسلسل اذیتیں سہتے ہوئے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ انکی موت ہوجانے کے باوجود ان کے لواحقین کو ہفتوں تک ان کے زندہ یا شہید ہونے کیخبر نہیں ہوتی۔
تنظیم نے اپنیرپورٹ کا عنوان نابلس شہر کے ایک قیدی اور جیلروں میں سے ایک کے درمیان ہونے والیبات چیت سے لیا ہے۔ اس فلسطینی قیدی نے اپنے بیان میں بتایا کہ اسے مجد جیل پہنچنےاور بس سے اتارے جانے پر ایک جیلر نے کہا کہ "جہنم میں خوش آمدید”۔اسرائیلی جلاد کے انہی نفرت انگیز الفاظ کو اسرائیلی ادارے نےاپنی رپورٹ کے عنوانکے لیے منتخب کیا۔ تنظیم کے مطابق یہالفاظ اسرائیلی جیلوں اور وہاں ہونے والے تشدد کی کارروائیوں کے لیے بیان کیے جاتےہیں۔
انسانی استحصال کے لیے کیمپوں کا جال
رپورٹ کے مطابققیدیوں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک درجن سے زائد اسرائیلی حراستی مراکز، شہریاور فوجی دونوں، کیمپوں کے نیٹ ورک میں تبدیل ہو چکے ہیں جن کا بنیادی مقصد اپنےاندر قید لوگوں کے ساتھ بدسلوکی کرنا ہے۔
رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ "جو کوئی بھی اس جگہ کے دروازوں میں داخل ہوتا ہے اسے انتہائی شدید،جان بوجھ کر اور نہ رکنے والے درد اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ قید خانے ایکایسی جگہ بن چکے ہیں جو عملی طور پر ایک ٹارچر کیمپ کے طور پر کام کرتی ہے”۔
یہ رپورٹ 90صفحات پر مشتمل ہے اور اسے تین زبانوں (عربی، انگریزی اور عبرانی) میں جاری کیا گیاہے۔ یہ ان المناک حالات سے متعلق ہے جن میں قیدی 7 اکتوبر 2023ء سے زندگی گذار رہےہیں۔
رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ 55 قیدیوں کی دستاویزی شہادتوں کی اکثریت پر مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ یہکہ 7 اکتوبر 2023 کو آپریشن طوفان الاقصیٰ کے بعد گرفتار ہونے والے تمام افراد کو ان کے خلاف الزامات کے بارے میںمطلع نہیں کیا گیا اور انہیں اپنے دفاع کا حق نہیں دیا گیا۔
انسانی حقوق کیرپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قابض حکام نے اپنی جیلوں کو فلسطینی آبادی پر جبراور ان کے حوصلے توڑنے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا، ان کیمپوں میں قیدیوںکےساتھ غیر انسانی برتاأ کیا جاتا ہے اور یہ سلوک سرخ لکیر سے تجاوز کرجاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیاہے کہ غزہ پر نسل کشی کی جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک جیلوں کے اندر 60 قیدی شہیدہو چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ کیسز تشدد اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے ہوئے۔
تشدد کے لرزہ خیز واقعات
ایک قیدی نے اپنیگواہی میں کہا کہ قابض فوج اسے دیگر قیدیوں کے ساتھ ایک کمرے میں لے گئی جس میںبہت سے کپڑے، جوتے، انگوٹھیاں اور گھڑیاں بکھری پڑی تھیں۔
اس نے مزید کہاکہ "ہمیں مکمل طور پر برہنہ کر دیا گیا، انہوں نے ہمیں اپنے زیر جامہ اتارنےپر مجبور کیا۔ انہوں نے دستی میٹل ڈیٹیکٹر سے ہمارے جسموں کی تلاشی لی”۔انہوں نے ہمیں اپنی ٹانگیں کھولنے پر مجبور کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ہمیں ہمارےحساس حصوں پر ڈیوائس کے ذریعے تیزی ساتھ بغیر رکے مارنا شروع کر دیا۔ اس کے بعدانہوں نے ہمیں دیوار پر لٹکائے ہوئے اسرائیلی پرچم کو سلامی دینے کا حکم دیا۔
ایک اور چونکا دینےوالی گواہی میں ایک قیدی نے بتایا کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد جیل انتظامیہ مسلسل قیدیوںکو اجتماعی سزائیں دے رہی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ”پہلا حکم یہ تھا کہ ہر سیل میں قیدیوں کی تعداد چھ سے بڑھا کر 14 کر دی جائے”۔اس کا مطلب ہماری پرائیویسی کی خلاف ورزی ہے اور سیل میں ٹوائلٹ استعمال کرنے کے لیےزیادہ وقت انتظار کرنا ہے”۔
وہ بتاتے ہیں کہسیل میں لائے گئے نئے قیدیوں کو فرش پر سونا پڑتا کیونکہ اس میں صرف تین بنک بیڈتھے۔
B’Tselem کے سامنے اپنی گواہی میں ایک قیدی نے بتایا کہ کس طرح جیل انتظامیہنے 11 قیدیوں کو ایک کوٹھڑی میں بند کر دیا جہاں چار قیدیوں کو نہیں رکھا جا سکتاتھا۔ ان تمام کو ہیٹنگ پیڈ، چینی، کافی، سگریٹ جیسی بنیادی سہولیات سے محروم کر دیاگیا تھا۔ صفائی کا سامان نہیں دیا گیا۔
اس نے کہا کہ”انہوں نے کینٹین کو بند کر دیا اور ہمیں کپڑے دھونے کا کمرہ اور کھانے کاکمرہ بھی بند کر دیا۔ اس لیے ایک ہفتے کے بعد وہ ہمارے لیے شیمپو لے کر آئے، لیکنصرف آدھا کپ ہر سیل کے لیے تھا۔
اس نے مزید کہاکہ "کھڑکیاں شیشے کے بغیر تھیں، جس کی وجہ سے سردی اتنی شدید تھی کہ میں نےپہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ میری انگلیاں جم گئیں اور پھٹ گئیں اور مڑ گئیں۔