جمعه 15/نوامبر/2024

روز قیامت جب آیسر اور ایسل پوچھیں گی کہ انہیں کس جرم میں قتل کیا گیا؟

بدھ 14-اگست-2024

فلسطین کے علاقے غزہکی پٹی میں پچھلے دس ماہ کے دوران قابض نازی صہیونی فرعون صفت سفاک فوج نے جس بےدردی سے بچوں کا قتل عام کیا ہے اسے اگر تاریخ کے بڑے بڑے فراعنہ اور بچوں کے قاتلبھی دیکھیں تو کانپ اٹھیں گے۔

امریکی اور مغربی بارود ، بموں اور تباہی پھیلانےوالے ہتھیاروں کی مدد سے نہتے اور معصوم فلسطینی بچوں کو انتہائی بے رحمی کےساتھ  ہمیشہ موت کی نیند سلایا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے نام نہاد علم بردار غزہ میں بچوں کو تہہ تیغ کیے جانے کے ہولناک صہیونیجرائم پر زبانیں گنگ کیے بیٹھے ہیں اور غزہ میں بچوں کے بہتے خون نے انسانی حقوق کے عالمیچیمپیئنز کی منافقت اور دوغلی پالیسی کا پردہ چاک کر کے ان کے مکروہ چہروں کو پوریدنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔

 

بچوں کے قتل عامکی جاری اسرائیلی وحشیانہ جنگ کے ہولناک نتائج کی دستانیں غزہ کے ہرگھر اور کنبےکا مقدر بن چکی ہیں جہاں آئے روز معصوم بچوں سمیت عام شہریوں کی شہادتوں میںمسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

 

رواں چھ اگست ایکہفتہ قبل غزہ کے محمد ابو القمصان کی اہلیہ نے دو جڑواں بچوں آسر اور ایسل کو جنمدیا۔ والدین کے لیے ایک ساتھ دو جڑواں بچوں کی پیدائش ایک عطیہ خداوندی تھا۔ آسربچہ اور ایسل بچی تھی۔ غزہ کے جھنم زار میں مسلسل تکلیفیں سہتے ہوئے ابو القمصانکا بچوں کی پیدائش پر خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔

 

وہ خوشی خوشی اپنے دونوں معصوم اور ننھے جگر گوشوں کی ’جنم پرچی‘ بنوانے مقامی دفتر میں گیا تو اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کیخوشی ایک اندوہناک صدمے میں بدلنے والی ہے۔

 

ابو القمصان گھرواپس آیا تو اس کے ہاتھ میں دنوں بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹ تو تھے مگر اس کےدونوں بچے، اہلیہ اور ساس اسرائیلی بمباری میں اس دنیا میں نہیں رہے تھے۔ تباہ شدہمکان کے ملبے کے نیچے ان کے خون اور مٹی میں لت پت لاشے دبے پڑے تھے۔

 

محمد ابو القمصانکے جڑواں بچوں میں ایک بچہ اور ایک بچی تھی۔ بچے کا نام آسر اور بچی کا ایسل رکھاتھا۔ وہ گذشتہ ہفتے کے آخر میں پیدا ہوئے اور ان کی شہادت کے وقت عمر صرف چار دن تھیجب انہیں وسطی غزہ کے علاقے دیر البلح میں ان کے گھر پر بمباری کر کے انہیں قتل کیاگیا۔

 

مصیبت زدہ والد بیوی بچوں کی شہادت پر صدمے سے نڈھال

 

ابو القمصان کیاہلیہ جومانہ عرفہ، اس بمباری میں جاں بحق ہو گئیں، خود ایک فارماسسٹ تھیں۔ انہوںنے دونوں بچوں کو بڑے آپریشن کے بعد جنم دیا۔ فیس بک پر جڑواں بچوں کی آمد کااعلان کیا۔ مگر اس بمباری میں جومانہ کی والدہ حماۃ ابو القمسان بھی ماری گئیں۔

 

منگل کے روز ابوالقمصان مقامی حکومت کے دفتر میں دونوں شیر خوار بچوں کی رجسٹریشن کے لیے گئے۔ جبوہ وہاں تھے تو پڑوسیوں نے انہیں فون پر بتایا کہ وہ اور ان کے اہل خانہ جس مکانمیں پناہ لیے ہوئے تھے اسے اسرائیلی فوج نے بمباری سے تباہ کر دیا ہے۔ ابو القمصانکا کہنا ہے کہ یہ سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ میں نہیں جانتا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ مجھےبتایا گیا کہ ایک بم گھر پر گرایا گیا”۔

 

ابو القصان کادکھ وہی جانتے ہیں۔ وہ ہسپتال میں اپنے شہید بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹ لہراتے ہوئےپھوٹ پھوٹ کر رو پڑے کیونکہ انہیں اب ہسپتال سے بچوں کے ’ڈیتھ سرٹیفکیٹ‘ بنوانے پڑگئے تھے۔ لوگ انہیں اس خوفناک صدمے پر تسلی دینے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

 

ابو القمصان اوران کی اہلیہ نے جنگ کے پہلے ہفتوں میں غزہ شہر کو خالی کرنے کے اسرائیلی احکاماتپر عمل کرتے ہوئے جنوب کی طرف نقل مکانی کی جہاں انہوں نے فوج کی ہدایت پر وسطی غزہکے اسی علاقے میں پناہ لی تھی جہاں اس کے خاندان کا قتل عام کیا گیا۔

 

محمد ابو القصانکے دو شیر خوار بچوں سمیت غزہ میں مجموعی طور پر اب تک 115 شیرخوار گذشتہ سات اکتوبر کے بعد اسرائیلی بمباری میں مارے جا چکےہیں۔ حماس کےخلافاسرائیلی جنگ نے غزہ میں ہزاروں خاندانوں کو اجاڑ دیا ہے۔ کئی خاندان کے بچے مارےجا چکے ہیں اور ہزاروں بچے والدین کے قتل ہونے کے بعد یتیم ہیں۔

 

ایسے ہی لاوراثبچوں میں ریم ابو حیا کی عمر صرف تین ماہ ہے۔ وہ اپنے پورے خاندان کی واحد زندہ بچجانے والی اولاد ہے۔ گذشتہ سوموار کو فلسطینی خاندانوں کے اجتماعی قتل عام کے ایکواقعے میں اس کے والدین اور پانچ بہن بھائی اسرائیلی بمباری میں جاں بحق ہوگئے۔ مرنےوالوں میں ابو حیا کے والدین اور پانچ بہن بھائی بھی شامل ہیں جن کی عمریں 5 سے 12سال کے درمیان تھیں۔

 

شیرخوار ریم ابوحیا کی خالہ سعد ابو حیا نے کہا کہ "اس بچی کے سوا کوئی زندہ نہیں بچا ہے۔ ہمصبح سے اسے دودھ پلانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن وہ نہیں مانتی کیونکہ وہ اپنی ماںکے دودھ کی عادی ہے”۔

 

اسرائیلی فوج کاکہنا ہے کہ وہ فلسطینی شہریوں کو نقصان پہنچانے سے بچنے کی کوشش کرتی ہے اور ان کیہلاکتوں کا الزام حماس پر عائد کرتی ہے کیونکہ عسکریت پسند گنجان آباد رہائشیعلاقوں میں کام کرتے ہیں، بعض اوقات چھپ کر گھروں، اسکولوں، مساجد اور دیگر شہریعمارتوں سے حملے کرتے ہیں۔

 

غزہ کی وزارت صحتکا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز سے اب تک تقریباً 40 ہزار فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں۔

 

آیسر اور ایسل سمیت غزہ کے جھنم زارمیں شہیدہونے والے تمام بچے روز حساب خدا کے حضور یہ سوال تو کریں گے کہ انہیں کس جرم میں قتلکیا گیا؟۔

مختصر لنک:

کاپی