سنہ 1948ء کی جنگ میں اسرائیلی ریاست کے زیر تسلط آنے والے فلسطینی علاقوں میں گذشتہ کئی سال سے مقامی عرب اقلیت کے خلاف قتل عام کا بازار گرم ہے۔
فلسطینی قومی کمیٹی برائے عوامی تحفظ کی طرف سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اندرون فلسطین کےعلاقوں میں فلسطینیوں کے قتل کے واقعات میں اضافہ ہونے کے ساتھ قتل کےواقعات کی تحقیقات داخل دفترکی جا رہی ہیں۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ گذشتہ مئی میں الکرامہ تحریک کے دوران ایک فلسطینی شہری موسیٰ حسونہ کو یہودی آباد کاروں نے شہید کردیا تھا۔
اسرائیلی حکومت نے اس مجرمانہ قتل کی تحقیقات کا اعلان کیا مگر جلد ہی اس کیس کو داخل دفتر کردیا گیا۔ کیس کی تحقیقات کے بجائے ٹال مٹول سےکام لیا جانے گا اور آخر کار اس واقعے کو داخل دفتر کردیا گیا۔
فلسطینی کمیٹی برائے تحفظ عوام نے اتوار کے روز جاری ایک رپورٹ میں عالمی برادری، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور عالمی اداروں پرزور دیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے قتل کے واقعات کی دوبارہ تحقیقات شروع کرنے اور حسونہ کی موت کا سبب بننے والے مجرموں کے خلاف کارروائی کے لیے اسرائیل پردباؤ ڈالیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق گروپ مرکز العدالہ نے انکشاف کیا ہے کہ داخلی سلامتی کے سابق وزیر اس مجرمانہ کیس کی تحقیقات میں رکاوٹ رہے ہیں، جس نے صہیونی ریاست کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے آیا۔ آزاد دنیا کی ذمہ داری ہےکہ وہ قابض ریاست کے مجرموں کے جرائم کا محاسبہ کرے۔
انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ اس وقت موسیٰ حسونہ شہید کے خاندان کے ساتھ یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔ان کی شہادت کو ایک سال ہوگیا ہے مگر ان کے قتل کی تحقیقات کا معاملہ بند کردیا گیا ہے۔
مرکز عدالہ نے مواد، تحقیق کاروں کی تحقیقات کی گواہی، اور اسرائیلی حکام کا کیس کی تحقیقات کے معاملے میں چشم پوشی کا مظاہرہ کرنا عربوں کے قتل کے سرٹیفکیٹ دینے کے مترادف ہے۔
مرکزعدالہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسیٰ حوسنہ شہید کے اہل خانہ نے قتل کی دوبارہ تحقیقات کی اپیل کی ہے۔
انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ حسونہ کے قتل کی تحقیقات شروع کرنے کے لیے در کار مواد، ٹھوس ثبوت اور دلائل کافی ہیں۔ یہاں تک کہ قاتلوں پر قتل عام کی فرد جرم بھی عاید کی گئی ہے مگر سیاسی بنیادوں پر اس کیس کو داخل دفتر کردیا گیا اور مجرموں کو آزاد چھوڑ دیا گیا۔
موسیٰ حسونہ کو اللد شہر میں 10 مئی 2021ء کو الکرامہ تحریک کے دوران مسلح یہودی آباد کاروں کے ایک گروپ نے کھلے عام گولیاں مار کر شہید کردیا تھا۔ موسیٰ کسی کے لیے خطرہ نہیں تھے مگر انہیں قریب سے ان کے سینے میں گولیاں ماری گئیں جس کے نتیجے میں وہ موقعے پر ہی دم توڑ گئے۔
پولیس نے قاتلوں کا علم ہونے کے باوجود ان کے خلاف کئی ہفتے تک کارروائی نہیں کی جس پر انسانی حقوق کے حلقوں اور فلسطینی عرب کمیونٹی کی طرف سے احتجاج کیا گیا۔ احتجاج کے بعد اسرائیلی پولیس نے اس کیس کی تحقیقات شروع کیں مگر چند ماہ بعد تحقیقات کا سلسلہ روک دیا گیا۔ اسرائیل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد اس کیس کی تحقیقات کے دوبارہ شروع ہونے کی امید تھی مگر نئی حکومت نے بھی سابق حکومت کی پالیسی برقرار رکھی۔