غزہ کی پٹی کے اندر صلیب احمر بین الاقوامی کمیٹی کے صدر دفتر کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ اسرائیلی حکام کی تحویل میں موجود فلسطینیوں کی میتیں واپس کی جائیں۔
مقتولین کے اہل خانہ نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ ان کے شہید بچوں کے جسمانی اعضا چوری کر رہا ہے اور اس وجہ سے میتیوں کی حوالگی میں ٹال مٹول کر رہا ہے۔ احتجاجیوں کے مطابق یہ عمل تمام بین الاقوامی منشوروں کی واضح خلاف ورزی ہے ہے۔
فلسطینی سرکاری اداروں اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے جاری کئی رپورٹوں میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ اسرائیل فلسطینی میتوں کے جسمانی اعضا کی چوری کا مرتکب ہے۔
رپورٹس کے مطابق اسرائیل کی جانب سے حوالے کی جانے والی فلسطینی میتوں میں بعض مرتبہ جسمانی اعضا کو غائب پایا گیا۔ ان میتوں کے جسموں پر ٹانکوں کے نشان بھی ملتے تھے گویا کہ اندرونی اعضا کو نکالنے کے لیے اجسام کو چیرا گیا ہو۔ اسی طرح بعض میتوں کی آنکھوں پر ٹیپ چپکائی گئی تھی تا کہ اس کو کھولا نہ جا سکے۔ ایک میت کے سینے کی جگہ اندر دھنسی ہوئی تھی گویا کہ اس کے اندر اعضا موجود نہیں ہیں۔ ایک میت کی گردن سے لے کر کمر تک ٹانکے لگے ہوئے تھے۔ اسی طرح ایک میت کی آنکھوں کے اندر کی پتلیاں غائب تھیں۔
اسرائیل کے پاس اس وقت تقریبا 305 فلسطینیوں اور عربوں کی میتیں موجود ہیں۔ فلسطینی وزارت اطلاعات کے مطابق اسرائیلی سرد خانوں میں موجود میتوں کی تعداد کا اندازہ 105 لگایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل فلسطینی مقتولین کی میتیں ان کے اہل خانہ کو اس شرط کے ساتھ حوالے کرتا ہے کہ ان کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا جائے گا۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں پر 13 ہزار امریکی ڈالر کا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے جب کہ مین کی تدفین میں تاخیر کرنے پر 5 ہزار ڈالر کا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے مطابق مقتولین کے اہل خانہ میت کے پوسٹ مارٹم پر رضامند نہیں ہوتے جس کی وجہ سے اعضا کی چوری ثابت کرنا دشوار ہے۔ البتہ فلسطینی وزارت صحت اقوام متحدہ سے مطالبہ کر چکی ہے کہ فلسطینی مقتولین کی میتوں کے اندر سے اعضا کی چوری کے حوالے سے بین الاقوامی تحقیقات کرائی جائیں۔
سرکاری طور پر اسرائیل نے صرف ایک بار سال 2000ء میں اعتراف کیا تھا کہ فوج کے ڈاکٹرز فلسطینی مقتولین کی میتوں کے اعضا نکالنے کی کارروائی میں ملوث ہیں۔ یہ اعتراف اسرائیلی فوج کے ترجمان نے امریکی نیوز چینل CNN کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا تھا۔
اس کے بعد اسرائیل ہمیشہ سے اس امر کی تردید کرتا رہا ہے۔ البتہ اسرائیلی انسٹی ٹیوٹ آف فارینزک میڈیسن میں پوسٹ مارٹم کا سابق ذمے دار یہودا ہس یہ انکشاف کر چکا ہے کہ اس نے فلسطینی میتوں کے اعضا نکالے جانے کی کارروائیوں کی خود نگرانی کی ہے۔ اسرائیلی قانون کے مطابق ریاست کو فلسطینی مقتولین کی میتوں کو تحویل میں رکھنے کا حق نہیں ہے۔ بین الاقوامی قانون میں بھی اسی طرح کا معاملہ ہے۔