فلسطین کے گورنمنٹانفارمیشن آفس کے ڈائریکٹر جنرل اسماعیل الثوابتہ نے زوردے کر کہا ہے کہ غزہ کی پٹیمیں 86 فیصد عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں، جس کے نتیجے میں 5 ایٹمی بموں کےبرابر دسیوں ٹن دھماکہ خیز مواد گرا ہے۔ اس وحشیانہ جارحیت کے نتیجے میں 150000 سے زیادہفلسطینی شہید اور زخمی ہویے ہیں جب کہ ہزاروں لاپتا ہیں۔
الثوابتہ نے ایکپریس کانفرنس میں کہا کہ غزہ کی پٹی میں ہمارے فلسطینی عوام کے خلاف قابض”اسرائیلی” فوج کی طرف سے نسل کشی کے جرائم اور جنگ کے تسلسل کا ایکپورا سال گذر چکا ہے۔ اس جنگ میں قتل و غارت، تباہی اور جبری نقل مکانی جرائم کئےگئے جن میں صہیونی نازی ریاست کو امریکہ اور مغرب کی مکمل حمایت حاصل رہی۔
انہوں نے مزیدکہا کہ غزہ میں ایک سال سے منظم نسل کشی جاری ہے۔ بڑی تعداد میں خواتین اور بچوںکو شہید کردیا گیا۔ شہدا اور زخمیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔
۔ 51800 سے زیادہ شہداء اور لاپتہ افراد شامل ہیںجن میں سے 41800 سے زیادہ شہید ہوئے۔
انہوں نے نشاندہیکی کہ غاصب فوج نے 16000 سے زائد فلسطینی بچوں کو شہید کیا، جن میں 171 شیر خواربچے بھی شامل ہیں جن میں نسل کشی کی جنگ کے دوران پیدا ہونے والے بچے بھی ہیں۔ اسدوران لاوہ 11400 سے زائد خواتین کو شہید کیا گیا۔
قابض فوج نےانسانیت کو شرمندہ کرنے والے جرائم کئے جن میں 902 فلسطینی خاندانوں کو مکمل طورپر ختم کردیا گیا۔ ان کے تمام افراد کو شہید کردیا گیا۔
انہوں نے کہاکہپورے ایک سال تک امریکی انتظامیہ کی مدد سے ہر قسم کے مہلک ہتھیاروں، بموں، میزائلوںاور طیاروں کے ذریعے رہائشی آبادی میں 3600 سے زیادہ وحشیانہ اور بھیانک قتل عام کئے گئے۔
انہوں نے نشاندہیکی کہ 20 لاکھ سے زائد بے گھر افراد سخت مشکل اور غیر انسانی حالات میں زندگی گذاررہے ہیں اور انتہائی مشکل حالات میں ہیں۔
انہوں نے کہاکہغزہ کی پٹی میں فی صد عمارتیںملبے کا ڈھیر بناد دی گئی ہیں اور تباہی کا اندازہ پانچ ایٹم بموں کے برابر لگایاجا سکتا ہے۔