جمعه 15/نوامبر/2024

سربکف لڑتے السنوار اپنی شہادت کے بعد دشمن کو رسوا کرگئے

جمعہ 18-اکتوبر-2024

’طوفان الاقصیٰ‘ معرکے کے ایک سال کے دوران قابض صہیونی فوج نے نسلکشی کے تمام ریکارڈ توڑےاور مزاحمت کو کچلنے کے لیے ہرحربہ استعمال کیا۔ اس المناکجنگ کے دوران یحییٰ السنوار شہید صہیونی دشمن کا سب سے بڑا ہدف تھے۔ دوسری طرفبہادر مجاھد یحییٰ السنوار سربکفن لڑتے، دشمن کو پسپا کرتے اور انہیں ہلاک اور زخمیکرتے میدان جنگ میں موجود رہے۔ اس معرکے کے دوران آخر کاروہ جنوبی غزہ میں تلالسلطان میں دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔

 

جدید ترین جاسوسیکے آلات اورامریکی و مغربی فوجی مدد کے باوجود قابض فوج ایک سال تک السنوار تکپہنچنے میں ناکام رہی۔ دشمن فوج ہمیشہ یہ پروپیگنڈہ کرتی تھی کہ السنوار سرنگوںمیں یا قیدیوں کے درمیان چھپا ہاو ہے اور اس نے انہیں ڈھال بنا رکھا ہے مگر دشمنکے ساتھ دو بہ دو لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرکے انہوں نے دشمن کے اس پروپیگنڈے کاپردہ چاک کردیا اور یہ ثابت کیا کہ ان کی جنگ میں کسی کو ڈھال بنا کر لڑنے کا کوئیتصو نہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان دانیا ہاگاری نے اعتراف کیا کہ السنوار کےقریبکسی یرغمالی کا کوئی وجود نہیں ملا ہے۔

 

ہاگاری نے کہا کہ”ہمیں نہیں معلوم تھا کہ السنوار وہاں موجود ہیں۔ ہم نے اسے عمارتوں میں سے ایکمسلح شخص سمجھا اور اس کی مزید چھان بین کے لیے ڈرون کوبھیجا۔ انہیں  ڈرون پر لکڑی پھینکتے ہوئے دیکھا گیا”۔ شہادتقابض نے السنوارکے آخری لمحات کی ایک ویڈیو شائع کی اور یہ دعویٰ کیا وہ مزاحمت کو اخلاقی طور پردھچکا لگا رہا ہے۔

 

دشمن سے لڑنے والے مجاھد ہوئے

 

طوفان الاقصیٰ کےمنصوبہ ساز، حماس کے سربراہ یحییٰ السنوارکی لیک ہونے والی تصویر نے انہیں اپنےآخری لمحات میں فوجی جیکٹ پہنے، آخری سانس تک غاصب قابضوں سے لڑتے ہوئے دکھایا، حتیٰکہ ان کا خون بہہ رہا تھا۔ انہوں نے کٹے ہوئے پاؤں کے ساتھ بھی کھڑے ہونے کی کوششکی۔ یہ وہ بہادر انسان تھا  جو پیچھے نہیںہٹا، دشمن کے ساتھ نہیں جھکا اور بزدلوں کی طرح چھپ کر وار نہیں کیا بلکہ صہیونیدشمن کے مکروہ پروپیگنڈے کے برعکس میدان جنگ میں لڑتے ہوئے شہادت کی منزل پرپہنچا۔

 

اسرائیل اپنے سیاہپروپیگنڈے کے آلات کے ساتھ ہمیشہ یہ دعوی کرتا رہا کہ اس کا اولین مطلوب شخص عامشہریوں کے درمیان چھپا ہوا ہے۔اس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس نے آخری لمحوں میںبھی اس کا مقابلہ کیا۔ اسی نے ڈرون کو ایک ٹکڑے سے مار گرانے کی کوشش کی۔ اس تاریخیلمحے میں بھی وہ مزاحمت کررہا تھا۔

 

جنگی مقامات میں منتقلی

 

حماس نے اپنے بیانمیں اس بات کی تصدیق کی کہ کمانڈر السنوار تمام جنگی پوزیشنوں کے درمیان آگے بڑھرہے ہیں، ثابت قدم ہیں اور غزہ کی قابل فخر سرزمین پر تعینات ہیں۔ وہ سرزمین فلسطیناور اس کے مقدسات کا دفاع کر رہے ہیں اور استقامت، صبر، اتحاد اور مزاحمت کے جذبےکو ابھار رہے ہیں۔

 

قائد کا انجامشہادت کے ساتھ متوقع تھا، لیکن جنگ میں اس کی شہادت کا انداز بہت سے لوگوں کے لیےحیران کن تھا۔ اس نے اپنے ارادے اور عزم کے ساتھ اس کا انتخاب کیا۔ اللہ تعالیٰ نےاسے عزت بخشی۔

 

شہید رہنما یحییٰالسنوار ایک مجاہد کے طور پر رہتے تھے۔ انہوں نے نوجوانی سے جہادی سرگرمیوں میں شمولیتاختیار کی۔ انہوں نے "مجد” کے نام سےایک جہادی تنظیم قائم کی اور بعدمیں  حماس کے اسلامک بلاک کے پلیٹ فارم سےاسلامی یونیورسٹی میں طلبا سرگرمیوں میں حصہ لیا۔

 

انہوں نے 23 سالاسیری میں گزارے۔ صہیونی جیلر کو زیر کیا۔ معاہدے میں جیل سے رہا ہونے کے بعد اپنیقربانی، منصوبہ بندی اور جہاد جاری رکھا۔ وہ  حماس کی قیادت میں کئی عہدوں پر فائز رہے۔اسماعیلھنیہ کی شہادت کے بعد وہ حماس کےسیاسی شعبے کے سربراہ بن گئے۔

 

طوفان الاقصیٰ کی انجینئرنگ

 

کمانڈر السنوار پرقابض بزدل دشمن نے کئی قاتلانہ حملے کیے مگر وہ اپنی شہادت تک ہر وار سے بچ جاتے۔انپر 11 اپریل 2003ء کو غزہ کے جنوب میں واقع شہر خان یونس میں اپنے گھر کی دیوار میںدھماکہ خیز مواد نصب کرنے کی کوشش اور مئی 2021 میں چوتھی اسرائیلی جنگ کے دوران ایکاور حملہ بھی کیا گیا۔

شاید طوان الاقصیٰآپریشن میں ان کی شراکت اور صہیونی وجود کو ہلا کر رکھ دینے والے آپریشن کے معمارکے طور پر ان کی وضاحت اس شخص کی باعزت زندگی کے سب سے نمایاں مقام تھے۔ وہ یقینیطور پر اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ  حماسمیں قائدانہ عہدہ ایک اہم مقام ہے۔ تفویض اور اعزاز نہیں کیونکہ تحریک کے قائدینجدوجہد کے طویل مراحل میں شہید بن کر ابھرتے ہیں۔ وہ الشیخ احمد یاسین کی راہ پرچلے اور جان سے گذر گئے۔

 

خدا کے نزدیک انکا شہید ہونا محض ایک اتفاق یا توقع نہیں ہے، بلکہ ایک خواہش اور تمنا ہے جس کااعلان ابو ابراہیم نے 3 سال قبل ایک جلسہ عام میں کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ”دشمن اور قابض مجھے سب سے بڑا تحفہ دے سکتے ہیں۔ مجھے قتل کرکے میری شہادتکی تمنا اور آرزو پوری کرسکتے ہیں۔ آج میری عمر 59 سال ہے، میں کورونا، فالج، روڈایکسیڈنٹ سے مرنے کے بجائے ایف-16 سے شہید ہونا پسند کروں گا‘‘۔

 

انہوں نے اپنی اسآرزو کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس عمر میں میں سچے وعدے کے قریب آ گیا ہوںاور میں شہید ہو کرہمیشہ جاوداں ہونا پسند کروں گا۔

 

السنوار کو اسطرح شہید کیا گیا جب وہ اپنی فوجی وردی پہن کر پوری طاقت سے لڑتے ہوئے شہید ہوئےاور وہ کسی سرنگ میں چھپے نہیں تھے جیسا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نےبار بار کہا تھا۔

 

فتح کی تصویر

 

جس طرح سنوار نے طوفانالاقصیٰ کے دوران دشمن کے ناقابل تسخیر ہونے کے گھمنڈ کو پاش پاش کیا۔ اسی طرح انہوںنے ان کو اپنے آخری لمحات میں ان تمام فوجی اور انٹیلی جنس صلاحیتوں کے باوجود فتحکی وہ تصویر دینے سے بھی محروم کردیا۔ علاقائی خاموشی کے بدلے بڑی بین الاقوامیطاقتوں کی حمایت کے باعث یہ بڑی فوج اپنے مزاحمتی دشمن کو محض اتفاقاً اور جھڑپوںکے اگلے دن ہونے والے کومبنگ آپریشن کے دوران قتل کرنے میں ناکام رہی۔ وہ حیرانتھی کی السنوار ان کے سامنے لڑ رہے ہیں۔

 

قابض اسرائیلیفوج نے اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کے سیاسی بیورو کے سربراہ یحییٰ السنوار کےآخری لمحات شائع کیے ہیں، جب وہ رفح شہر کے جنوب میں قابض فوج کے ساتھ جھڑپوں کےبعد شہید ہو ئے۔

 

اسرائیلی کہانیکے مطابق قابض افواج نے ان افراد کی شناخت نہ کرسکی۔ ان سے جھڑپ میں پہل کی۔ بعدمیں معلوم ہوا کہ شہید ہونے والے السنوار ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی