برطانوی اخبار’گارڈین‘نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کا فلسطینی پناہ گزینوں کےلیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ’انروا‘ کو غزہ میں داخل ہونے اور کامکرنے سے روکنے کا منصوبہ بین الاقوامی تنظیم کے ساتھ تعلقات میں ایک نئی کمی کوظاہر کرتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیاہے کہ صرف امریکہ ہی متبادل وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو اس منصوبے کو ترک کرنےکے لیے قائل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 123 رکنممالک نے مذمت کی تھی۔
ڈپلومیٹک ایڈیٹرپیٹرک ونٹور نے کہا کہ اقوام متحدہ اور اسرائیل کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات بہ ظاہراپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ پیش رفت فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقواممتحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ’انروا‘ کو فلسطینی علاقوں میں کام کرنے سے روکنےکے نئے اقدامات کے دوران سامنے آئی ہے۔
ونٹور کا کہنا ہےکہ ’یو این آر ڈبلیو اے‘ کو ان الزامات سے قبل اسرائیلی تنقید کا نشانہ بنایا گیاتھا کہ اس کے 12 ملازمین نے سات اکتوبر2023ء کو طوفان الاقصیٰ آپریشن میں حصہ لیا تھا۔
سابق قابض فوج کےوزیر بینی گینٹز کی طرف سے کنیسٹ کے آئندہ فیصلوں کی حمایت کے حوالے سے ونٹور نے کہاکہ ’اونروا‘ نے خود کو حماس سے الگ کرنے کا راستہ چنا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمخود کو اس سے مکمل طور پر الگ کر لیں”۔
ونٹور نے اپنیرپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ مغرب کو UNRWA کیغیر جانبداری کے بارے میں شکوک و شبہات تھے، لیکن انہوں نے اسے امداد، تعلیم اورصحت فراہم کرنے کے لیے دستیاب واحد ادارے کے طور پر مدد جاری رکھی ہوئی ہے۔
مصنف کا خیال ہےکہ بحران ناگزیر ہو چکا ہے، کیونکہ دو قراردادیں منظور کی گئی ہیں جو 6 اکتوبر کوکنیسیٹ خارجہ امور اور دفاعی کمیٹی کے ذریعے منظور کی گئی تھیں۔ ان پر 28 اکتوبرکو کنیسٹ میں ووٹنگ ہو گی۔ ان کے تحت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ’انروا‘ کو کامکرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔