بلا شبہ فلسطینی ریاست کا قیام فی الوقت دنیا کی اولین ترجیح ہونی چاہیے لیکن امریکہ کی وزیر خارجہ کونڈولیزارائس جھوٹ بول رہی ہیں اور منافقت سے کام لے رہی ہیں- امریکہ اور اسرائیل ہرگز ایک پوری طرح آزاد خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام نہیں چاہتے- یہ کام ان کے ایجنڈے پر نہ اب ہے نہ پہلے کبھی تھا نہ آئندہ کبھی ہوسکتا ہے-
یہ ایسی ہی بات ہے جیسے بھیڑیا یہ کہے کہ وہ بھیڑ سے بڑی محبت کرتا ہے اور ہرگز اسے اپنا لقمہ تر نہیں سمجھتا- صہیونی مقتدرہ نے برطانیہ اور امریکہ وغیرہ کی مدد سے قلب فلسطین میں اسرائیل کا خنجر اس لیے نہیں پیوست کیا تھا کہ 60 سال بعد وہاں ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کردیں- کونڈالیزارائس کہتی ہیں کہ مسئلہ فلسطین کا حل صرف یہ ہے کہ وہاں دو ریاستوں کا قیام عمل میں آجائے- ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے مسلم ممالک بھی امریکہ کے اس فریب میں آچکے ہیں کہ ارض مقدس فلسطین میں بیک وقت دو ریاستیں قائم کی جاسکتی ہیں ایک صہیونی اور دوسری فلسطینی- لیکن یہ محض ایک صہیونی دجالی ابلیسی فریب ہے جو بن بھی جائے تو اس کی حیثیت سامری کے عجل اور دجل سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتی- اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کی یہ بات بھی ناقابل اعتبار ہے کہ وہ امن سمجھوتے کے عوض مشرقی یروشلم (بیت المقدس) میں قائم یہودی بستیاں خالی کردیں گے- اسرائیل نے کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو امن معاہدوں کی پابندی کی ہوتی تو تھوڑی دیر کے لیے یہ امید کی جاسکتی تھی کہ شاید وہ اپنا یہ وعدہ بھی پورا کردیں-
بنی اسرائیل اپنی وعدہ خلافی اور عہد شکنی ہی کے لیے مشہور ہیں ان کے وعدے پر اعتبار کرنے والوں کا حشر بھی شاید ان ہی کے ساتھ ہو- بنیادی بات یہ ہے کہ 1948ء میں فلسطین کے بڑے حصے کو اسرائیل بنانے کا کام ہی غلط تھا جبر تھا اور ظلم تھا- 60 سال کیا 6 سو سال اور 6 ہزار سال بھی گزر جائیں تو اس غلطی کو جائز اور قابل قبول نہیں ٹھہرایا جاسکتا- فلسطین بس فلسطین سے اور وہاں صرف ایک جائز ریاست ہی قائم ہوسکتی ہے اور وہ فلسطین اس صہیونی پھوڑے سے جسم فلسطین کو پاک کیے جانے کا دن اب بہت دور نہیں- نومبر 2007ء میں ہونے والی نام نہاد مشرق وسطی امن کانفرنس دجالی فتنے کا ایک حصہ ہے- پوری مسلم دنیا کو بیک زبان مغرب سے وہی کہنا چاہیے جو احمدی نژاد نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے دور اقتدار میں کبھی یہودیوں پر ظلم نہیں ہوئے- 60 لاکھ یہودیوں کے قتل یا ہولوکاسٹ کا افسانہ تو خیر محض ایک تزویری صہیونی پروپیگنڈہ ہے لیکن جو پانچ 6 سات لاکھ یہودی جرمنی آسٹریا اور مغرب یورپ کے دیگر علاقوں میں ہٹلری فاشزم کے شکار ہوئے بھی تو اس میں نہ مسلمانوں کا کوئی قصور تھا نہ کوئی مسلم حکمراں اس میں ملوث تھا- اگر مغرب اپنے گناہوں کا کفارہ ادا ہی کرنا چاہتا تھا تو ملک خدا تنگ کبھی نہیں تھا- اسرائیل کا قیام بہت آسانی سے یورپ ہی کے کسی حصے میں کیا جاسکتا تھا- ورنہ گرین لینڈ امریکہ (الاسکا) اور کناڈا وغیرہ میں تو آج بھی وافر زمین خالی غیر آباد پڑی ہوئی ہے-
مسئلہ فلسطین کا صرف ایک ہی علاج ہے- غاصب مملکت اسرائیل کو فلسطین سے ہٹا کر مغربی دنیا کے کسی بھی خالی پڑے ہوئے علاقے میں قائم کردیا جائے اور ان تمام یہودیوں کو جنہیں بیسویں صدی کی ابتدائی اور درمیانی دہائیوں میں پوری دنیا اور بالخصوص یورپ اور امریکہ سے لا کر بسایا گیا تھا انہیں وہاں سے ہٹا کر گرین لینڈ الاسکا میں قائم آزاد مملکت اسرائیل میں بسادیا جائے- ورنہ اجتماعی تباہی بنی اسرائیل کا مقدر ہے- کم از کم قرآن سے یہی ثابت ہے- اس کے علاوہ مسلم دنیا جو کچھ کررہی ہے وہ خلاف قرآن ہے- صہیونی مغرب کے حواریوں کا انجام شاید لعنت زدہ بنی اسرائیل سے زیادہ ہولناک ہو کیونکہ اسرائیل اور بنی اسرائیل کے حامی و مدد گار مسلمان منافقت کے مرتکب ہو رہے ہیں اور منافقت کی سزا ازروئے قرآن زیادہ سخت اور زیادہ سنگین ہے- فاعتبر وایااولی الابصار-
(بشکریہ: اردو ٹائمز)
یہ ایسی ہی بات ہے جیسے بھیڑیا یہ کہے کہ وہ بھیڑ سے بڑی محبت کرتا ہے اور ہرگز اسے اپنا لقمہ تر نہیں سمجھتا- صہیونی مقتدرہ نے برطانیہ اور امریکہ وغیرہ کی مدد سے قلب فلسطین میں اسرائیل کا خنجر اس لیے نہیں پیوست کیا تھا کہ 60 سال بعد وہاں ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کردیں- کونڈالیزارائس کہتی ہیں کہ مسئلہ فلسطین کا حل صرف یہ ہے کہ وہاں دو ریاستوں کا قیام عمل میں آجائے- ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے مسلم ممالک بھی امریکہ کے اس فریب میں آچکے ہیں کہ ارض مقدس فلسطین میں بیک وقت دو ریاستیں قائم کی جاسکتی ہیں ایک صہیونی اور دوسری فلسطینی- لیکن یہ محض ایک صہیونی دجالی ابلیسی فریب ہے جو بن بھی جائے تو اس کی حیثیت سامری کے عجل اور دجل سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتی- اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کی یہ بات بھی ناقابل اعتبار ہے کہ وہ امن سمجھوتے کے عوض مشرقی یروشلم (بیت المقدس) میں قائم یہودی بستیاں خالی کردیں گے- اسرائیل نے کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو امن معاہدوں کی پابندی کی ہوتی تو تھوڑی دیر کے لیے یہ امید کی جاسکتی تھی کہ شاید وہ اپنا یہ وعدہ بھی پورا کردیں-
بنی اسرائیل اپنی وعدہ خلافی اور عہد شکنی ہی کے لیے مشہور ہیں ان کے وعدے پر اعتبار کرنے والوں کا حشر بھی شاید ان ہی کے ساتھ ہو- بنیادی بات یہ ہے کہ 1948ء میں فلسطین کے بڑے حصے کو اسرائیل بنانے کا کام ہی غلط تھا جبر تھا اور ظلم تھا- 60 سال کیا 6 سو سال اور 6 ہزار سال بھی گزر جائیں تو اس غلطی کو جائز اور قابل قبول نہیں ٹھہرایا جاسکتا- فلسطین بس فلسطین سے اور وہاں صرف ایک جائز ریاست ہی قائم ہوسکتی ہے اور وہ فلسطین اس صہیونی پھوڑے سے جسم فلسطین کو پاک کیے جانے کا دن اب بہت دور نہیں- نومبر 2007ء میں ہونے والی نام نہاد مشرق وسطی امن کانفرنس دجالی فتنے کا ایک حصہ ہے- پوری مسلم دنیا کو بیک زبان مغرب سے وہی کہنا چاہیے جو احمدی نژاد نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے دور اقتدار میں کبھی یہودیوں پر ظلم نہیں ہوئے- 60 لاکھ یہودیوں کے قتل یا ہولوکاسٹ کا افسانہ تو خیر محض ایک تزویری صہیونی پروپیگنڈہ ہے لیکن جو پانچ 6 سات لاکھ یہودی جرمنی آسٹریا اور مغرب یورپ کے دیگر علاقوں میں ہٹلری فاشزم کے شکار ہوئے بھی تو اس میں نہ مسلمانوں کا کوئی قصور تھا نہ کوئی مسلم حکمراں اس میں ملوث تھا- اگر مغرب اپنے گناہوں کا کفارہ ادا ہی کرنا چاہتا تھا تو ملک خدا تنگ کبھی نہیں تھا- اسرائیل کا قیام بہت آسانی سے یورپ ہی کے کسی حصے میں کیا جاسکتا تھا- ورنہ گرین لینڈ امریکہ (الاسکا) اور کناڈا وغیرہ میں تو آج بھی وافر زمین خالی غیر آباد پڑی ہوئی ہے-
مسئلہ فلسطین کا صرف ایک ہی علاج ہے- غاصب مملکت اسرائیل کو فلسطین سے ہٹا کر مغربی دنیا کے کسی بھی خالی پڑے ہوئے علاقے میں قائم کردیا جائے اور ان تمام یہودیوں کو جنہیں بیسویں صدی کی ابتدائی اور درمیانی دہائیوں میں پوری دنیا اور بالخصوص یورپ اور امریکہ سے لا کر بسایا گیا تھا انہیں وہاں سے ہٹا کر گرین لینڈ الاسکا میں قائم آزاد مملکت اسرائیل میں بسادیا جائے- ورنہ اجتماعی تباہی بنی اسرائیل کا مقدر ہے- کم از کم قرآن سے یہی ثابت ہے- اس کے علاوہ مسلم دنیا جو کچھ کررہی ہے وہ خلاف قرآن ہے- صہیونی مغرب کے حواریوں کا انجام شاید لعنت زدہ بنی اسرائیل سے زیادہ ہولناک ہو کیونکہ اسرائیل اور بنی اسرائیل کے حامی و مدد گار مسلمان منافقت کے مرتکب ہو رہے ہیں اور منافقت کی سزا ازروئے قرآن زیادہ سخت اور زیادہ سنگین ہے- فاعتبر وایااولی الابصار-
(بشکریہ: اردو ٹائمز)