القدس (مرکز اطلاعات فلسطین)
غربت کی شرح خطرناک حدتک بڑھ گئی
رواں سال، اکتوبر کا دن انسداد غربت کے عالمی دن کی حیثیت سے اس وقت اہمیت اختیار کرگیا جب ایک ادارے نے فلسطین میں بھوک اور افلاس کی بڑھتی ہوئی شرح کا تحقیقاتی موازنہ پیش کیا- رپورٹ میں کہا گیا کہ فلسطین کے وہ علاقے جو 1967ء میں اسرائیل کے زیر تسلط آگئے تھے اس وقت دگرگوں حالات سے گزر رہے ہیں-
غرب اردن اور غزہ کی پٹی کے علاقہ میں انسانی حقوق کے علمبردار کی حیثیت سے اقوام متحدہ کے دفتر نے ایک تخمینہ پیش کیا کہ اس وقت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں غربت 23 فیصد سے بڑھ کر 57 فیصد ہوچکی ہے اور غزہ کی پٹی میں حالیہ اعداد و شمار کے مطابق یہ شرح 79فیصد کی خطرناک حدتک پہنچ چکی ہے-
اسی قسم کی ایک رپورٹ فلسطینی مہاجرین کی فلاح اور تعاون کے لیے قائم ادارے ’’اونروا‘‘ نے بھی جاری کی ہے، جس میں بتا گیا ہے کہ فلسطین کے لاکھوں بچے جو روزانہ سکول جاتے ہیں، جب ان کا طبی معائنہ کیا گیا تو ان میں سے بیشتر غذائی قلت کا شکار تھے- بالخصوص غزہ کی پٹی میں قائم مہاجر بستیوں کے مقیم 80 فیصد فلسطینی شہری غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں-
ایک اور رپورٹ جو ’’غربت کے خاتمے کے لیے قائم عالمی اتحاد‘‘ کے ترجمان نے پیش کی، جس میں فی کس شرح آمدن میں انحطاط کا جائزہ پیش کیا گیا تھا- رپورٹ کے مطابق فلسطین میں فی کس شرح آمدن ملکی پیداواری زوال کے باعث 2006ء میں 97فیصد رہی ہے- جبکہ غریب طبقہ کی تعداد 1998ء میں 6 لاکھ 72 ہزار تھی جو 2006ء کے اعداد و شمار کے مطابق 20 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور دس لاکھ سے زائد فلسطینی 50 سینٹس یومیہ کے حساب سے اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے پر مجبور ہیں-
یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان غیر یقینی حالات میں 44 فیصد فلسطینی مالی امداد کے منتظر ہیں اور خطے کے 46 فیصد افراد اس سے بھی بدتر حالات سے گزر رہے ہیں، جن کے لیے مالی امداد کے بغیر زندگی گزارنا ناممکن ہے- اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فلسطین کی کل آبادی کا 34 فیصد حصہ غذائی قلت کا شکار ہے- جبکہ 12 فیصد فلسطینی گھرانوں کو روزانہ کی دال روٹی بھی میسر نہیں- ’’ILO‘‘ کے جنیوا میں واقع مرکزی دفتر کی چیئرپرسن کا کہنا ہے کہ غربت کی شرح میں اضافے کا ایک سبب فلسطین میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری ہے-
فلسطینی علاقوں میں کام کے مواقع صرف 24 فیصد افراد کو میسر ہیں- سال 2007ء کے آغاز میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 2 لاکھ 6 ہزار فلسطینی بیروزگار ہیں-
محققین کا کہنا ہے کہ فلسطین میں فی کس شرح آمدن 1999ء سے سال 2006ء کے درمیان 40 فیصد تک گر گئی ہے-
غیر انسانی جکڑ بندیاں
اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ انسانی کسمپرسی کی کیفیت کی اصل ذمہ دار یہودی طاقتیں ہیں اور ان کے اس گھنائونے فعل میں امریکہ نے بھی اسرائیل کے ساتھ بوجھ بانٹ لیا ہے- غزہ اور غرب اردن کے علاقے میں معاشی بائیکاٹ ظالمانہ کارروائیوں کی ایک بھیانک مثال ہے جو سال 2006ء کے عام انتخابات میں حماس کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے جاری ہے- ان کارروائیوں میں تعاون اور اشتراک کے لیے چار رکنی یورپی اتحاد اور کچھ عالمی رفاہی تنظیمیں بھی شامل ہوگئی ہیں- انہی اسباب کی بناء پر (ILO) انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے قابض طاقتوں پر سخت تنقید کی اور کہا کہ غزہ کراسنگ بند کر کے فلسطینیوں کو معاشی اور معاشرتی طور پر لاچار کرنے کی سازش کی گئی ہے-
یہ بات بعید ازقیاس نہیں کہ اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطین میں انسانی المیہ کے حل پر مامور دو رکنی کمیٹی (ٹونی بلیئر ) پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صہیونیوں کی طرف سے قائم کی جانے والی حفاظتی توسیعی دیوار سے پیدا ہونے والے مسائل کا تدارک کریں- اس دیوار کی وجہ سے فلسطینی شہریوں کو نقل و حمل میں شدید دشواری کا سامنا ہے اور انہیں اپنے کئی ایکڑ زرعی علاقوں سے محروم ہونا پڑا ہے اور غزہ کے کئی علاقے غرب اردن سے کٹ کر رہ گئے ہیں-
اخلاقی ذمہ داریاں
فلسطین میں ’’اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام‘‘ کی رپورٹ کے مطابق فلسطین میں بڑھتی ہوئی غربت کے پس پردہ عوامل کا جائزہ لینے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ خطے میں اسباب فقر کی ذمہ دار اسرائیلی حکومت ہے- فلسطین میں غربت کی جڑوں کو مضبوطی دینے والے اسرائیلی اقدامات کا ایک جائزہ بھی اس رپورٹ میں شامل تھا- جس کے مطابق:-
گزشتہ 6 برس سے فلسطین کے اندر بہت سے علاقے مقفل پڑے ہیں-
1948ء میں اسرائیل کے زیر تسلط آنیوالے علاقوں میں فلسطینیوں کو ملازمت اور محنت و مزدوری سے روک دیا گیا ہے- اس اقدام سے ایک لاکھ محنت کش طبقہ متاثر ہوا ہے-
زندگی کے تمام شعبوں میں انفراسٹرکچر کو تباہ کردیا گیا ہے-
غاصب اسرائیل کی طرف سے حفاظتی دیوار کی تعمیر کا نقشہ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ فلسطینیوں کی ملکیتی اڑھائی لاکھ اراضی بھی نسل پرستی کی اس دیوار کی بھینٹ چڑھ گئی-
آٹھ ہزار ایکڑ زرعی اراضی کو بلڈوز کردیا گیا جس سے 16500 کھیت برباد ہوئے-
فلسطین کے تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار تین سو پھلدار درخت جڑ سے اکھاڑ دیئے گئے یا انہیں جلا دیا گیا-
70 ہزار گھر کلی یا جزوی طور پر کھنڈر بنا دیئے گئے-
فلسطین میں خون کی ندیاں بہا دی گئیں جن میں چار لاکھ 5 ہزار فلسطینی شہداء اور 5 لاکھ زخمی فلسطینیوں کا پاک لہو شامل ہے-
فلسطینی معیشت کو 16.5 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے-
عالمی صدائے احتجاج
اگرچہ فلسطین میں ابتلائے انسانیت کا فتنہ اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے لیکن عالمی برادری میں اس مسئلہ پر سردمہری پائی جاتی ہے- بالخصوص غزہ کی پٹی میں ان دنوں حالات کی ابتری اور پیدا شدہ کرائسس، بجلی کی بندش، کراسنگ کے راستے مقفل کرنا، طبی سہولیات کی عدم فراہمی، تنخواہیں نہ ملنا جیسے مسائل میں بھی سوائے چند ممالک کے باقی سب نے چپ سادھے رکھی-
البتہ اقوام متحدہ کی جانب سے دی گئی وارننگز نے معاملے کو مزید پیچیدہ ہونے سے بچا رکھا ہے- جن میں قابل ذکر انتباہ اقوام متحدہ کی جانب سے مقبوضہ علاقوں میں نمائندہ جان ڈیوگارڈ کی طرف سے تھا- ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کو مشرق وسطی میں قیام امن کے لیے قائم چار رکنی کمیٹی کی پشت پناہی ترک کردینی چاہیے- انہوں نے کہا کہ امریکہ، روس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ پر مشتمل یہ قیام امن کمیٹی غزہ کی پٹی اور غرب اردن کے علاقوں میں فراہمئ امن میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے-
اقوام متحدہ کے نمائندہ کا کہنا تھا کہ جب میں نے گزشتہ ماہ (اکتوبر) میں غزہ کی پٹی اور غرب اردن کے علاقوں کا دورہ کیا تو یہاں انسانیت کو معاشی گرداب میں پھنسا دیکھ کر مجھے سخت صدمہ ہوا- ان کی پریشانیوں اور تکلیفوں کا سدباب ہونا چاہیے-
برطانوی حکومت نے برسلز کے مقام پر غزہ کی پٹی میں بارڈر کراسنگ کے سیل ہونے سے پیدا ہونیوالی صورتحال بالخصوص معاشی مشکلات کا جائزہ لیا گیا-
لیکن یہ سب مذاکرات کے دعوت نامے اس ’’المیہ‘‘ میں اخلاقی مدد‘‘ سے زیادہ کوئی تعاون نہ دے سکے اور خطے کی عملاً صورتحال بدستور خراب رہی-
زکوة کمیٹیوں کا کردار
فلسطین محمود عباس اور ان کے قائم کردہ غیر آئینی حکومتی ڈھانچے نے فلسطین میں کام کرنے والے ہر ادارے اور مخیر افراد پر پابندی لگادی جن کے تعاون سے فلسطینی اپنی معاشی مشکلات پر قابو پاتے تھے-
اس سلسلہ میں سب سے خطرناک اقدام اس وقت عمل میں آیا جب رام اللہ میں کام کرنیوالی زکوة کمیٹیوں پر حکومت کی طرف سے پابندی لگادی گئی- اس اقدام سے ہزاروں فلسطینی بنیادی مالی تعاون سے محروم کردیئے گئے-