جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیلی بجٹ برائے سال 2008ء کا تجزیہ

جمعہ 23-نومبر-2007

اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ اور وزیر خزانہ رونی بار اون نے 2008ء کے بجٹ کو غریب طبقے کا بجٹ قرار دیا ہے- اسرائیلی بجٹ برائے سال 2008ء 76 ارب ڈالر کا ہے- اسرائیلی پارلیمنٹ نے چند دن قبل پہلی ریڈنگ کے بعد ابتدائی طور پر بجٹ کی منظوری دی ہے- حتمی منظوری آئندہ ڈیڑھ ماہ کے دوران بحث مکمل کرنے کے بعد دی جائے گی-
بجٹ کو غریب طبقے کے لیے خوشخبری قرار دیے جانے کو اقتصادی ماہرین نے غلط ٹھہرایا ہے اور اسے اعداد و شمار کا ہیر پھیر قرار دیا ہے- ان کے مطابق بجٹ میں غریب طبقے کے لیے کوئی خوش خبری نہیں ہے اور نہ ہی ملکی خوشحالی یا آسودگی ہے- سماجی اقتصادی نشریہ ’’سینات‘‘ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے ان بیانات میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ سماجی امور اور تعلیمی بجٹ میں 12 ارب ڈالر کا اضافہ کیا گیا ہے- تعلیمی مسائل کے متعلق بجٹ میں 80 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ بجٹ کی مکمل طور پر منظوری کے بعد انہی شقوں میں متوقع کمی ایک ارب ڈالر ہے-
 جس کا مطلب ہے کہ تعلیمی اور فلاحی بجٹ میں اضافہ نہیں بلکہ 20 کروڑ ڈالر کی کمی کی گئی ہے- خوشحالی اور سماجی خدمت کے متعلق مدات میں ’’کمر باندھنے‘‘ کی پالیسی نظر آتی ہے غریب طبقے کے کندھوں سے بوجھ کی کمی نظر نہیں آتی- حکومت جو غریب طبقے کے لیے خوشخبری کی بات کررہی ہے وہ صرف بازار عمل میں وسعت ہے معاشی حالات میں کوئی بہتری نہیں ہے- سینات کے نشریہ کے مطابق بجٹ میں صرف ایک ایسی شق ہے جس میں مزدوروں کے کندھوں سے بوجھ میں کمی کی گئی ہے اور وہ پرائمری سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ ہے- پرائمری سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہوں کے بجٹ میں 30 کروڑ ڈالر کا اضافہ کیا گیا ہے- لیکن یہ اضافہ ملک کی تمام سماجی مشکلات کا حل نہیں ہے- حکومت کا اولین ہدف بجٹ کے خسارے پر قابو پانا ہے-
بجٹ کی کل مالیت 76 ارب ڈالر ہے- اسرائیلی ارکان پارلیمنٹ بجٹ پر ووٹنگ کے ساتھ ’’قانون تصفیہ‘‘ کے متعلق بھی ووٹ دیں گے- قانون تصفیہ سے اخراجات کے متعلق پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کردہ قوانین معطل ہو جائیں گے- مزید برآں حکومت کو بجٹ میں ڈیڑھ ارب ڈالر کمی کرنے کا اختیار بھی حاصل ہو جائے گا- الخلیل اور النقب کے علاقوں کے ترقیاتی پروگراموں میں ایک کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی کمی کی جائے گی- وزارت تعمیر و آبادی کے بجٹ میں 16 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی کمی ہوگی جس کا اثر غریب طبقے پر پڑے گا- سماجی انشورنس ادارے کے فنڈ میں چار فیصد کمی کے اثرات بوڑھوں، معذوروں اور کم آمدنی والے خاندانوں پر پڑیں گے-
سیاسی حلقوں کے سخت احتجاج کے باوجود ’’قانون تصفیہ‘‘ کی منظوری کا عمل تقریباً چوبیس سال سے جاری ہے- اس قانون تصفیہ پر پہلی دفعہ عمل 1989ء میں کیا گیا تھا- اسرائیلی سپریم کورٹ نے متعدد بار قانون تصفیہ کو جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، کیونکہ قانون تصفیہ کی منظوری کے بعد منتخب پارلیمنٹ کے قوانین معطل ہو جاتے ہیں- گزشتہ برس 2007ء کے مالی بجٹ کی منظوری کے وقت بھی پارلیمنٹ میں کافی شور اٹھا تھا اور پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی تحریکوں کے بعد وزارت خزانہ نے قانون تصفیہ پر عمل میں کمی کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن قانونی تصفیہ کی موجودہ شکل اس وعدے کے بالکل برعکس ہے، جس کے باعث پارلیمنٹ کی سپیکر دالیا ایتسیک کو براہ راست مداخلت کرنا پڑی اور وزارت خزانہ سے قانون میں ترمیم کا مطالبہ کرنا پڑا-
پارلیمنٹ کی قانونی مشیر نوریت الیشتائن نے وزارت خزانہ کو سرکاری طور پر خط ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قانون تصفیہ واضح طور پر عوام کے منتخب نمائندوں کے حقوق اور آئینی اتھارٹی کے حق پر ڈاکہ ہے- جس سے عوام کا مقننہ اور حکام پر سے اعتماد اٹھ جائے گا- قانون تصفیہ غریب طبقوں کے معاشی حالات کے لیے زبردست جھٹکا ہے- اس قانون کے باعث غریب خاندان ماہانہ 100 کلو واٹ مفت بجلی سے محروم ہو جائیں گے- حکومت کی طرف سے ملنے والے رہائشی قرضے پندرہ فیصد کم ہو جائیں گے- پانی کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا-
قانون کی جس شق پر سب سے زیادہ اعتراض اور احتجاج کیا گیا ہے وہ خواتین خانہ کے لیے صحت کی انشورنس کو ضروری قرار دیے جانے کے حوالے سے ہے- اس قانون کے باعث جو خواتین خانہ 22 ڈالر ماہانہ سے کم کماتی ہیں ان کے لیے صحت کی انشورنس کی فیس ادا کرنا ضروری ہوگا- اس شق سے سب سے زیادہ کم آمدنی والے خاندان، مذہبی یہودی النسل گھرانے اور عرب خواتین متاثر ہوں گی- مذہبی یہودی النسل گھرانوں کی خواتین بہت کم ملازمت کرتی ہیں اور عرب خواتین کے لیے کام کرنے کے مواقع بہت کم ہیں- حکومت نے دو سال قبل اس قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن شدید مخالفت کے باعث حکومت کو یہ قانون واپسی لینا پڑا-
اقتصادی ترقی کے حوالے سے حکومتی دعوی ہے کہ اقتصادی شرح ترقی گزشتہ تین سالوں سے قائم ہے- لیکن غربت کے اعداد و شمار تاحال اسی طرح ہیں بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے- اسرائیل کے مرکزی اعداد و شمار کے ادارے کے اعلان کے مطابق 2007ء میں اقتصادی شرح ترقی کا تناسب 5.2 فیصد متوقع ہے- یہ تناسب 2006ء اور 2005ء کے مشابہ ہے- 2005ء میں اقتصادی شرح ترقی کا تناسب 5.3 تھا- وزارت خزانہ کے محتاط اندازے کے مطابق آئندہ سال 2008ء میں اقتصادی ترقی کی شرح 4.2 رہے گی-
مرکزی ادارے کے مطابق رواں سال میں اسرائیل میں معاشی سطح 4.2 فیصد کے تناسب سے بلند ہوئی ہے جبکہ یہ تناسب 2006ء میں 2.7 فیصد اور 2005ء میں 2.2 فیصد تھا- یومیہ ضروریات زندگی کی اشیاء کی خریداری میں اضافہ ہوا ہے مثال کے طور پر گاڑیوں کی خریداری میں 29 فیصد اور گھریلوں اشیاء کی خریداری میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے-
ان تمام اعداد و شمار کے باوجود اسرائیل میں سوال کیا جاتا ہے کہ کیا غربت ختم ہوئی ہے- سماجی انشورنس ادارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اقتصادی ترقی کی شرح میں گزشتہ تین سالوں میں مسلسل اضافے کے باوجود 2006ء میں اسرائیل میں غریبوں کی تعداد 16 لاکھ 70 ہزار افراد تک پہنچ چکی ہے- جس کا مطلب ہے ترقی کا فائدہ صرف امیر طبقے کو پہنچ رہا ہے غریب طبقے کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو رہا ہے- اسرائیلی پارلیمنٹ میں بجٹ کے حوالے سے اگلے چند ہفتے گرما گرم بحث پر مشتمل ہوں گے- حکومتی اتحاد میں شامل بعض افراد کے اپنی پارٹیوں کے خلاف جانے کی توقع ہے-

مختصر لنک:

کاپی