جمعه 15/نوامبر/2024

اناپولس کانفرنس اپنے اہداف پورے کر سکے گی؟

اتوار 25-نومبر-2007

حماس جیسی عوامی قوتوں کو نظر انداز کر کے مشرق وسطی میں امن کاعمل کامیابی سے آگے بڑھایاجا سکے گا

مشرق وسطی میں قیام امن کا مسئلہ گزشتہ چھ دہائیوں سے سلجھنے میں نہیں  رہا- دنیا بھر کے ماہرین اور تھینک ٹینک بار بار سر جوڑ کر بیٹھے لیکن ہر بار تان اس بات پر ٹوٹتی رہی کہ اسرائیل کو فلسطینی عوام کے غصب شدہ بنیادی حقوق فراہم کرنے کے لیے کیسے تیارکیا جائے- اگر عارضی طور پر کوئی معاہدہ طے بھی پایاتواس کی اہمیت خود ہی اس وقت ختم ہو گئی جب فریقین نے اس کی خلاف ورزی کر کے اس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کردی-
 ماضی میں مشرق وسطی میں قیام امن کی عالمی اور علاقائی کوششوں کا تجزیہ کیا جائے تو کوئی سال ایسا نہیں دکھائی دیتا جس میں اس معاملے میں کوئی آواز نہ اٹھائی گئی ہو، لیکن تمام  آوازیں اس وقت دم توڑ جاتیں جب اسرائیل اور امریکہ اس پر حتمی فیصلہ صادر کرتے- فلسطین اور اسرائیل کے درمیان  ج تک ہونے والے معاہدا ت کے پس منظر میں ہمیشہ امریکی کوششیں کار فرما رہی ہیں- اب کی بار رواں ماہ کی 27  تاریخ بروز ہفتہ امریکی شہر اناپولس میں مجوزہ’’مشرق وسطی امن کانفرنس‘‘ بھی امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی دعوت پر بلائی جارہی ہے جواگرچہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد اور اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ اس کانفرنس میں امریکہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے بظاہر سنجیدہ نظر آ رہا ہے-
 زیر بحث لائے جانے والے موضوعات کا ایک خاکہ بھی تیار کر لیا گیا ہے- اس کانفرنس میں بنیادی طور پر فلسطینی اور اسرائیلی قیادت کے متفقہ ایجنڈے کی روشنی میں فیصلے کرے گی- اگرچہ تاحال فریقین میں بہت سے معاملات میں اتفاق رائے کا فقدان ہے-
بنیادی طور پر یہ کانفرنس عراق اور مسئلہ فلسطین کے گردگھوم رہی ہے- تاہم اس کے ضمن میں ایران اور شام کے معاملات بھی موضوع بحث ہیں- اس کانفرنس کا باقاعدہ خاکہ صدر بش نے رواں سال جولائی میں پیش کیا اور اس وقت سے اس پر پیپر ورک شروع کردیا گیا- امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس اس میں رنگ بھرنے کے لیے مسلسل مشرق وسطی کے دوروں پر ہیں اور اہم ممالک سے ان کا تعاون حاصل کرنے کی کوششیں کررہی ہیں-
 اس کانفرنس کا حتمی ایجنڈا جس کے لیے کنڈولیزا رائس کوشش کر رہی ہیں وہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازعات دور کرنا اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے- وہ آزاد فلسطینی ریاست کس قسم کی ہو گی- اسرائیل صدر محمود عباس کے کون کون سے مطالبات تسلیم کرے گا؟ حماس کو اس کانفرنس سے باہر رکھ کر صرف فتح کو فلسطینیوں کی نمائندہ جماعت قرار دے کر اس سے بات چیت کے نتائج کس قدر دیر پا اور ٹھوس ہوں گے؟ ان تمام سوالات پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے-
اب تک امریکی وزیر خارجہ فلسطینی اور اسرائیلی حکام سے ملاقاتوں میں فریقین سے اس کانفرنس میں پیش کرنے کے لیے کوئی متفقہ حتمی ایجنڈا تیار کرنے پر زور دیتی رہی ہیں- ان کی تاکید پر فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیلی حکام سے مذاکرات کے سات دور پور ے کر دیے ہیں- مذاکرات میں بہت سے امور خفیہ رکھے گئے ہیں تاہم اسرائیلی ذرائع یہ بات بار بار نشر کر رہے ہیں کہ ان مذاکرات میں اسرائیل نے صدر عباس کو ساڑھے چارملین فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی اور مقبوضہ بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا حصہ بنانے، اسرائیل کی1967 ء کی حدود تک واپسی جیسے مطالبات سے دستبرداری پر راضی کر لیا ہے- اکتوبر میں عباس اولمرٹ کے درمیان یروشلم میں ہونے والے مذاکرات  میں اسرائیل کی جانب سے ایک ایسی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے جس میں القدس کا بھی کچھ حصہ شامل ہے- مشرقی بیت المقدس کے وہ میدانی علاقے جن پر پہلے سے اسرائیل نے یہودی کالونیاں تعمیر کررکھی ہیں،وہ اسرائیل کا دارلحکومت ہوگا جبکہ اس کا کچھ پہاڑی حصہ فلسطینی ریاست کے دارلخلافے کے طور پر رکھا جائے گا- امریکہ کی جانب سے اسرائیل پر بھی یہ دباؤ موجود ہے کہ وہ القدس کا کچھ حصہ فلسطینی ریاست کے لیے آزاد کر دے اورغرب اردن سے بھی کچھ کالونیاں ختم کر کے انہیں فلسطینی ریاست میں شامل کرے- البتہ1967 ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے تمام علاقوں سے دستبرار نہ ہونے کے اسرائیلی موقف میں امریکہ بھی اسرائیل کے ساتھ ہے-
دوسری جانب امریکہ اور اسرائیل کا فلسطینی صدر سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ اگر اسرائیل اورامریکہ کی امداد کا خواہاں ہے تو فلسطین میں موجود تمام عسکری گروپوں بشمول حماس کو غیر مسلح کردے اور ان پر پابندیاں عائد کر کے ان کے نیٹ ورک کا مکمل خاتمہ کردے- اس سلسلے میں صدر عباس نے بعض اقدامات اٹھائے بھی ہیں تاہم انہیں اس میدان میں اس لئے ناکامی کا سامنا ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک غم وغصہ کی فضاء پائی جاتی ہے- اسرائیل سے مذاکرات کرنے والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے- رہیں عسکری اور مزاحمتی جماعتیں ان کی جڑیں عوام میں ہیں اور انہیں عوام کی مکمل تائید اور حمایت حاصل ہے-
فلسطین اور اسرائیل کے عوام اس کانفرنس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں- اس سلسلے میں ایک اسرائیلی اخبار کی سروے رپورٹ کے اعدادو شمار الگ سے ایک نقشہ پیش کرتے ہیں- عبرانی روزنامے’’معاریف‘‘ میں کیے گئے سروے کے مطابق اسرائیل کی 70 فیصد عوام ایسی کانفرنس کے خلاف ہیں جس میں غرب اردن اور مقبوضہ بیت المقدس کے ایک حصے سے دستبرداری شامل ہو- مڈل ایسٹ اسٹڈی سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں مقیم یہودیوں نے بھی اس کانفرنس کی سخت مخالفت کرتے ہوئے امریکہ اور اسرائیل سے اس کانفرنس میں القدس کے معاملے کو چھیڑنے پر احتجاج کیا ہے- رپورٹ کے مطابق امریکہ میں قائم مذہبی یہودیوں کے اتحاد نے یہودی علماء کے دستخطوں پر مشتمل ایک دستاویز بھی پورے ملک میں تقسیم کی ہے جس میں امریکہ اور اسرائیل سے یہودیوں کو نقصان پہنچانے والی اس کانفرنس کے انعقاد سے باز رہنے کا مطالبہ شامل ہے- علاوہ ازیں اس کانفرنس میں امریکی اور اسرائیلی عوام سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے وہ اس نام نہاد امن کانفرنس کی مخالفت کریں اور حکام کے خلاف احتجاج کریں-
 فلسطینی عوام کا کی اکثریت اس کانفرنس کو اس لحاظ سے غیر اہم قراردیتی ہے کہ اس کانفرنس میں بھی ان کے بنیادی مطالبات، مثلا 67 حدود تک اسرائیل کی واپسی، فلسطینی پناہ گزینوں کی دوبارہ اپنے وطن بحالی اور گیارہ ہزار قیدیوں کی رہائی کا معاملہ کھٹائی میں ڈال دیا گیا ہے- فلسطینیوں کی ناراضگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک طرف اس امن کانفرنس کے سلسلے میں اسرائیل مذاکرات کر رہا ہے اور دوسری جانب ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ بھی برابر جاری رکھے ہوئے ہے، ایسے میں امن عمل کے آگے بڑھنے کے امکانات مزید مخدوش ہوتے جارہے ہیں-
خود فلسطینی صدر کی جماعت الفتح بھی اس کانفرنس سے کوئی زیادہ پر امید دکھائی نہیں دیتی- فتح میں پی ایل او کے جنرل سیکرٹری فاروق قدومی کا کہنا ہے یہ کانفرنس محض بیان بازی تک محدود ہوگی اور فلسطینی عوام کو کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا-
اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) اور اس کی حامی جماعتوں کا اناپولس کانفرنس کے بارے میں شروع سے واضح طور پر یہی موقف رہا ہے کہ یہ فلسطینی عوام کے ساتھ اوسلواور کیمپ ڈیوڈ جیسے معاہدات کے طرز کا معاہدہ ہوگا جس میں فلسطینی عوام کو اور بے بس کرنے اور اس کے مقابلے میں اسرائیل کو مزید قوت فراہم کرنے کی جائے گی- حماس کے اہم راہنماؤں خالد مشعل اور محمود زہار نے اپنے حالیہ انٹرویوز میں دو ٹوک انداز میں اسے فلسطینی عوام کے خلاف امریکہ اور اسرائیلی کی ملی بھگت پر مشتمل سازش قراردیا-خالد مشعل نے بجا طور پر کہا ہے کہ اگر صدربش اس کانفرنس کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں توانہیں فلسطینی عوام کی حقیقی آوازوں کو سننا ہوگا اوران کے جوہری مطالبات کو نظر انداز کرکے امن عمل کی کوشش ماضی کی ناکام امن کوششوں میں محض ایک کوشش کا اضافہ ہوگا- عرب خبر رساں ادارے ’’قدس پریس‘‘ کو انٹر ویوکے دوران محمود زہار نے کہا کہ ماضی میں بھی بعض قوتوں کی جانب سے فلسطین پر من مانے حل ٹھونسنے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوئی اور اس کانفرنس کی ناکامی اس کے انعقاد سے قبل ہی نوشتہ دیوار بن چکی ہے- انہوں نے کہا کہ صدر عباس اور ایہود اولمرٹ کے درمیان مذاکرات بھی کچھ لو اور دو کی پالیسی پر ہو رہے ہیں، فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق پہلے ہی سلب کر لیے گئے ہیں ان سے مزید اور کیا چیز لینے کا مطالبہ کیا جارہاہے -حماس راہنما نے مزید کہا کہ’’ مشرق وسطی میں امن کا خواب ا س وقت تک شرمندہ تعبیر نہ ہوگا جب تک بنیادی معاملات کے حل پر بات نہ ہو گی- یہ کیسے ہو سکتا ہے 1967 ء کی حدود تک اسرائیل کی واپسی کا مسئلہ بھی اپنی جگہ قائم رہے ، ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا نہ کیا جائے، لاکھوں فلسطینیوں کوان کے  بائی وطن میں  نے اجازت نہ دی جائے اور قبلہ اول جس کے لیے ہماری جنگ ہے وہ اسرائیل کے قبضے میں رہے اور اس سب کے باوجود امن قائم ہوجائے- انہوں نے کہا کہ اگر مذکورہ مطالبات تسلیم کر لیے جاتے ہیں توخطے میں قیام امن کی ہم گارنٹی دینے کو تیار ہیں، بصورت دیگر امن عمل کی فائلیں گولیوں اور خون میں ڈوب جائیں گی‘‘-
 فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے سوال کے جواب میں زہار نے کہا کہ حماس اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتی تاہم اسے کئی سال کی مہلت ضرور دی جاسکتی ہے-
فلسطین اور اسرائیل سے باہر مشرق وسطی کے دیگر ممالک اس کانفرنس سے کس قدر پرامید ہیں- اس بارے میں متعدد ممالک کا ردعمل بھی سامنے  چکا ہے- سعودی عرب اگر اچہ امن عمل کا خواہاں ہے تاہم اس کا کہنا ہے کہ امن عمل میں فلسطین کے تمام دھڑوں کو شریک کیا جائے اور ان کے بنیادی مطالبات کو تسلیم کیا جائے- شام اور ایران جیسے خطے کے اسرائیل مخالف ممالک اناپولیس کانفرنس کو امریکہ اور اسرائیل کا نیا فریب قرار دیتے ہیں- ایران نے باضابطہ طور پر مشرق وسطی کے مختلف ممالک سے اس کانفرنس کے بائیکاٹ کا بھی مطالبہ کر رکھا ہے- بعض ممالک جن میں مصر اور اردن کے نام  تے ہیں مشرق وسطی کانفرنس کے حامی ہیں- ان کی جانب سے حماس جیسی جماعتوں کو بھی کانفرنس کے حوالے سے نرم رویہ اپنے کی تاکید کی گئی ہے- عربی روزنامے’’الشرق الاوسط‘‘ کی رپورٹ کے مطابق مصر کی کوشش ہے کہ اس کانفرنس میں طے پانے والے امور میں حماس کو راضی کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ وہ غزہ میں قائم حماس کی حکومت کی بھی سپورٹ کر رہا ہے- کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لیے مصر نے ہمسایہ ممالک سعودی عرب اورترکی سربراہان سے ملاقاتیں بھی کی ہیں- اس کے علاوہ فلسطینی صدر محمود عباس سے بھی مذاکرات ہوئے- قاہرہ میں صدر عباس سے ہونے والی حالیہ ملاقات میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری مذاکرات اور کانفرنس میں پیش کرنے کے لیے حتمی ایجنڈے پر بھی بحث کی گئی ہے- کانفرنس کامیاب بنانے کے لیے امریکی مندوب برائے مشرق وسطی ٹونی بلیئر اور یورپی یونین کے مندوب ہاویر سولانا بھی سرگرم ہیں اور مسلسل مشرق وسطی کے راہنمائوں سے رابطہ رکھے ہوئے ہیں-
 بش کانفرنس کو ماضی کی امن کوششوں کے پیمانے میں رکھ کر دیکھا جائے تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ کانفرنس بھی ماضی میں ہونے والی  کوششوں میں ایک کا اضافہ ہو گا، اس کے مثبت نتائج کی توقع اس وقت تک نہیں کی جا سکتی جب تک خطے کی اصل نزاعی قوتوں کو اس عمل میں شامل نہ کیا جائے- سعودی عرب اور مصر وغیرہ کا بھی یہی مطالبہ ہے- اس کانفرنس میں پیش کرنے کے لیے جس ایجنڈے پر بحث جاری ہے،  اس حوالے سے صدر عباس پر دباؤ ہے کہ وہ فلسطین کے تمام ملٹری ونگ ختم کریں اور حماس جیسی شدت پسند جماعتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا وعدہ کریں-اسی طرح کا ایجنڈا1993 ء میں اوسلو معاہدے کی صورت میں سابق صدر یاسر عرفات کے دور میں بھی پیش کیا گیا تھا- اوسلو معاہدے میں بھی صدر یاسر عرفات مرحوم سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حماس کے خلاف مسلح کارروائی کرے- صدر عرفات نے معاہدے کے مطابق حماس اور دیگر ملٹری تنظیموں کے ایک درجن کے قریب چوٹی کے راہنما قتل کرا دیے تھے، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اسرائیل ان سے ان ہی کی قوم کشی کرا رہا ہے  اور معاہدے میں طے شدہ امور کو بھول گیا ہے تو انہوں نے عسکری تنظیموں کے خلاف جاری کارروائی روک دی، جس پر اسرائیل سیخ پا ہوگیا اور انہیں ان ہی کے ہیڈ کوارٹر میں نظر بند کر دیا گیا- صدر عباس بھی اسی منظر کو سامنے رکھے ہوئے ہیں کہ اگر اسرائیل کسی معاہدے پر پہنچ کر بھی فلسطین کے ساتھ طے شدہ امور میں تعاون نہ کرے اور انہیں اپنی قوم سے لڑا بھی دے تو ایسی صورت میں وہ کیا کریں گے-
قیام امن کے لیے ماضی میں کی جانے والی کوششیں
 تنازع فلسطین کے حل اور خطے میں قیام امن کے لیے گزشتہ دو دہائیوں سے معاہدات، کانفرنسیں، امن فارمولے اور روڈ میپ پیش کیے جاتے رہے ہیں-
    13 ستمبر1993ء کوناروے کے دارلحکومت اوسلو میں فلسطینی صدر یاسر عرفات اور اضحاق رابین نے ایک معاہدے پر دستخط کیے- فلسطین میں قیام امن کے لیے  بین الاقوامی سطح پر یہ پہلی بڑی کوشش تھی- جس میں شمعون پیریز، امریکی صدر بل کلنٹن، سابق صدور جارج بش سنیئر، جمی کارٹر، اور روس کے مندوبین نے ایک معاہدے پر دستخط کیے- سمجھوتے کو ’’اوسلو معاہدے‘‘ کا نام دیا گیا- معاہدے کی رو سے فلسطین کو نیم خود مختاری دی گئی، جس میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کی قیام کی تجویز شامل تھی-
    28 ستمبر1995 ء کو کیمپ ڈیوڈ میں ایک فلسطینی راہنما یاسر عرفات اوراضحاق رابین کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا- اس معاہدے کا اسرائیلی سیاست پر منفی اثر پڑا- کچھ ہی عرصے کے بعد معاہدے کی پاداش میں صدر رابین کو ایک جلسے میں گولی مار کر ہلا ک کردیاگیا-
    15 جولائی1997 ء کو فلسطین کے تاریخی شہرالخلیل میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان’’الخلیل معاہدے‘‘ کے نام سے ایک سمجھوتے پر دستخط ہوئے- اس معاہدے کے تحت الخلیل شہر کا80 فیصد رقبہ فلسطینیوں کو لوٹا دیا گیا –
    23 اکتوبر1998 ء کو امریکی صدر بل کلنٹن کی کوشش پر’’ کیمپ ڈیوڈ‘‘ میں نو دن تک جاری رہنے والی بات چیت کے دوران’’ زمین برائے امن‘‘ کے نام سے ایک معاہدہ ہوا، جس میں فلسطینی صدر یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاھو نے ایک امن معاہدے کی دستاویزات کا تبادلہ کیا-
    4 ستمبر1999 ء کو مصر کے پر فضاء مقام’’ شرم الشیخ‘‘ میں دونوں ممالک نے  پس میں ایک معاہدہ کیا- یہ معاہدہ مصر اور امریکہ کی کوشش سے عمل میں لایا گیا- اس میں ایہود باراک اور یاسر عرفات نے دستخط کیے جبکہ مصری صدر حسنی مبارک، اردن کے شاہ عبداللہ، امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ میڈیلن البرائٹ بطور ثالث شامل تھیں- گیارہ دفعات پر مشتمل اس معاہدے کو’’شرم الشیخ معاہدے ‘‘کا نام دیا گیا-
    5 اکتوبر1999 ء کو اسرائیلی حکام اور فلسطینی مذاکرات کاروں کے درمیان غزہ اور غرب اردن کے درمیان کوریڈور کھولنے کا ایک معاہدہ طے پایا-
    مارچ 2005 ء کو فلسطینی صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم ارئیل شیرون کے درمیان مصر کے شہر شرم الشیخ میں ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے- اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے متعدد یہودی کالونیوں سے یہودیوں کا انخلاء کیا تاہم معاہدے پر کلی طور پر عمل درآمد نہ کیا جا سکا-

لینک کوتاه:

کپی شد

مطالب بیشتر از عبدالقیوم فہمید