اسرائیل کی جانب سے اقتصادی پابندیوں اور غزہ کی پٹی میں تیل اور ایندھن کی فراہمی میں کمی کے بعد غزہ کے رہنے والے خچروں پر سفر کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں –
اب ان کے پاس اس کے سواکوئی حل نہیں ہے کہ وہ اپنی گاڑیاں گھروں میں کھڑی کردیں اور خچروں پر سفر کرنا شروع کردیں ، برطانوی روزنامے ’’انڈی پینڈنٹ ‘‘نے 8دسمبر کی اشاعت میں تحریر کیا ہے کہ غزہ میں گدھا گاڑیوں اور خچر ریڑھیوں پر سفر میں کافی اضافہ ہوچکاہے – پٹرول کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگ یہ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں کہ گدھا خرید لیں –
جون کے وسط میں غزہ پر حماس کے کنٹرول کے بعد افراد اور اشیاء کی نقل وحمل میں شدید مشکلات پیدا ہوچکی ہیں- ستمبر میں اسرائیلی وزیراعظم ایہوداولمرٹ کی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ غزہ کو دشمن علاقہ قرار دیا جائے اور اس کے ایک مہینے کے بعد غزہ کی پٹی میں پٹرول کی فراہمی میں خاطر خواہ کمی کردی ، اس اقدام کی اسرائیلی سپریم کورٹ نے بھی تائید کی تھی ، اس وقت سے غزہ کے تقریباً تمام پٹرول سٹیشن بند ہوچکے ہیں – اس غربت زدہ علاقے میں بے روزگاری کی شرح بے انتہا بڑھ چکی ہے اور گھروں میں سبزیاں فروخت کرنے کے لئے لوگ گدھا گاڑیاں استعمال کررہے ہیں-
غزہ کی پٹی کی شجاعیہ مارکیٹ کے حال ہی میں گدھا خریدنے والے پچیس سالہ صابردابور کا کہناہے کہ میں اپنا کام خود کروں گا – اقوام متحدہ کے ادارے برائے تعمیرات و سماجی بہبود ’’انروا‘‘کے مطابق اسرائیل کی جانب سے اقتصادی ناکہ بندی کے بعد غزہ کے پندرہ لاکھ فلسطینیوں میں سے دس لاکھ کی حالت ناگفتہ بہ ہوچکی ہے اور وہ اپیلیں کررہے ہیں اگر یہی حالت رہی تو غزہ تباہ ہوجائے گا-
ایندھن کے بحران نے سینکڑوں بے روزگار شہریوں کو مجبور کردیا ہے کہ مویشی مارکیٹ میں جائیں اور رزق کے حصول کی کوشش کریں ، چونتیس سالہ فتحی ابو عمرہ کا کہناہے کہ میں نے طے کیا ہے کہ شجاعیہ مارکیٹ سے گدھے خریدوں گا اور دیگر مارکیٹوں میں اضافہ قیمت پر فروخت کروں گا –
غزہ کے اقتصادی بائیکاٹ کی وجہ سے اپنی ملازمت سے محروم ہونے والے باسٹھ سالہ عبدشہادہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گدھے کو 250دینار میں فروخت کردےگا جسے اس نے خود پالا ہے اور اپنا خرچا چلائےگا – اب غزہ کے شہریوں نے اپنے گدھوں کی اس طرح دیکھ بھال شروع کردی ہے جس طرح وہ اپنی کاروں کی کرتے تھے – جمعہ کے روز لگنے والی آٹو مارکیٹ ، اب گدھا مارکیٹ میں تبدیل ہوچکی ہے اور اس عمل کے بارے میں ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ یہ ’’ترقی معکوس ‘‘ہے –
اب لوگ ’’مویشی مارکیٹ ‘‘میں آتے ہیں گدھوں کا منہ کھول کر ان کے دانت دیکھتے ہیں ،پھر انہیں گدھا گاڑی میں جوت کر دیکھتے ہیں کہ یا ، یہ گدھا گاڑی وہ چلا سکیں گے یا نہیں – دابور کا کہناہے کہ اس گدھا گاڑی کا گیئر بکس ،ٹائر یا کئی سلنڈروں والی موٹر نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لئے پٹرول کی ضرورت ہے – دابور کامزید کہناہے کہ گدھا گاڑی چلاتے ہوئے اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں یہ دولتی نہ ماردے ،نیز یہ کہ آپ کے کوٹ کا رنگ خراب تو نہیں ہوگیا-
اب ان کے پاس اس کے سواکوئی حل نہیں ہے کہ وہ اپنی گاڑیاں گھروں میں کھڑی کردیں اور خچروں پر سفر کرنا شروع کردیں ، برطانوی روزنامے ’’انڈی پینڈنٹ ‘‘نے 8دسمبر کی اشاعت میں تحریر کیا ہے کہ غزہ میں گدھا گاڑیوں اور خچر ریڑھیوں پر سفر میں کافی اضافہ ہوچکاہے – پٹرول کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگ یہ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں کہ گدھا خرید لیں –
جون کے وسط میں غزہ پر حماس کے کنٹرول کے بعد افراد اور اشیاء کی نقل وحمل میں شدید مشکلات پیدا ہوچکی ہیں- ستمبر میں اسرائیلی وزیراعظم ایہوداولمرٹ کی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ غزہ کو دشمن علاقہ قرار دیا جائے اور اس کے ایک مہینے کے بعد غزہ کی پٹی میں پٹرول کی فراہمی میں خاطر خواہ کمی کردی ، اس اقدام کی اسرائیلی سپریم کورٹ نے بھی تائید کی تھی ، اس وقت سے غزہ کے تقریباً تمام پٹرول سٹیشن بند ہوچکے ہیں – اس غربت زدہ علاقے میں بے روزگاری کی شرح بے انتہا بڑھ چکی ہے اور گھروں میں سبزیاں فروخت کرنے کے لئے لوگ گدھا گاڑیاں استعمال کررہے ہیں-
غزہ کی پٹی کی شجاعیہ مارکیٹ کے حال ہی میں گدھا خریدنے والے پچیس سالہ صابردابور کا کہناہے کہ میں اپنا کام خود کروں گا – اقوام متحدہ کے ادارے برائے تعمیرات و سماجی بہبود ’’انروا‘‘کے مطابق اسرائیل کی جانب سے اقتصادی ناکہ بندی کے بعد غزہ کے پندرہ لاکھ فلسطینیوں میں سے دس لاکھ کی حالت ناگفتہ بہ ہوچکی ہے اور وہ اپیلیں کررہے ہیں اگر یہی حالت رہی تو غزہ تباہ ہوجائے گا-
ایندھن کے بحران نے سینکڑوں بے روزگار شہریوں کو مجبور کردیا ہے کہ مویشی مارکیٹ میں جائیں اور رزق کے حصول کی کوشش کریں ، چونتیس سالہ فتحی ابو عمرہ کا کہناہے کہ میں نے طے کیا ہے کہ شجاعیہ مارکیٹ سے گدھے خریدوں گا اور دیگر مارکیٹوں میں اضافہ قیمت پر فروخت کروں گا –
غزہ کے اقتصادی بائیکاٹ کی وجہ سے اپنی ملازمت سے محروم ہونے والے باسٹھ سالہ عبدشہادہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گدھے کو 250دینار میں فروخت کردےگا جسے اس نے خود پالا ہے اور اپنا خرچا چلائےگا – اب غزہ کے شہریوں نے اپنے گدھوں کی اس طرح دیکھ بھال شروع کردی ہے جس طرح وہ اپنی کاروں کی کرتے تھے – جمعہ کے روز لگنے والی آٹو مارکیٹ ، اب گدھا مارکیٹ میں تبدیل ہوچکی ہے اور اس عمل کے بارے میں ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ یہ ’’ترقی معکوس ‘‘ہے –
اب لوگ ’’مویشی مارکیٹ ‘‘میں آتے ہیں گدھوں کا منہ کھول کر ان کے دانت دیکھتے ہیں ،پھر انہیں گدھا گاڑی میں جوت کر دیکھتے ہیں کہ یا ، یہ گدھا گاڑی وہ چلا سکیں گے یا نہیں – دابور کا کہناہے کہ اس گدھا گاڑی کا گیئر بکس ،ٹائر یا کئی سلنڈروں والی موٹر نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لئے پٹرول کی ضرورت ہے – دابور کامزید کہناہے کہ گدھا گاڑی چلاتے ہوئے اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں یہ دولتی نہ ماردے ،نیز یہ کہ آپ کے کوٹ کا رنگ خراب تو نہیں ہوگیا-