جمعه 15/نوامبر/2024

ناروے نے یہودی بستیوں کی ساختہ چیزوں پر وہی لیبل لگانے کا فیصلہ کر لیا

اتوار 12-جون-2022

اسرائیل اور ناروے میں مصنوعات کی لیبلنگ کے ایشو پر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ اسرائیل یورپی یونین اور یورپی کورٹ کے فیصلے پر ناروے کی طرف سے عمل کرنے پر ناراض ہو گیا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کی طرف سے ہفتے کے روز ناروے کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے دو طرفہ تعلقات بری طرح خراب ہوں گے۔

ناروے کا فیصلہ یہ ہے کہ اسرائیلی زیر قبضہ علاقوں کی تیار کردہ مصنوعات اور متنازعہ علاقوں پر قائم یہودی بستیوں میں تیار کی گئی مصنوعات پر انہی جگہوں کی لیبلنگ کی جائے گی۔ تاکہ نشاندہی ہو سکے کہ یہ اشیا کسی متنازعہ علاقے کی تیار کردہ ہیں۔

اسرائیل نے اس پر سخت رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ دو طرفہ تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس سلسلے میں ناروے کے اس سابقہ کرادار کا حوالہ بھی دیا ہے جو اس نے اسرائیل اور فلسطین تنازعے کو طے کرانے کے لیے ادا کیا تھا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کا 1993 کے معاہدہ اوسلو کی طرف اشارہ تھا۔

ادھر ناروے کی سوشل ڈیموکریٹ پارٹی نے جمعہ کے روز ناروے کی اس نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ”مقبوضہ علاقوں کی مصنوعات پر اسرائیلی ساختہ لکھا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ ان پر متعلقہ مقبوضہ علاقوں کا نام لکھنا ضروری ہے۔

ناروے کے وزیر نے کہا ”یہ بطور خاص جن مصنوعات پر لکھا جائے گا ان میں شراب، زیتون کا تیل، پھل اور سبزیاں شامل ہوں گی اور ان پر جلی طور پر لکھا ہونا چاہیے کہ یہ اشیاء مقبوضہ مغربی کنارے سے آئی ہیں، مقبوضہ مشرقی یروشلم سے آئی ہیں یا گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں سے آئی ہیں۔ ”

ناروے کے وزیر خارجہ نے اس بارے میں ایک انٹرویو میں کہا ”یہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں ہے، ہمارے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ جو لازمی طور پر جاری رہنے چاہییں۔” مگر یہ یورپی یونین نے اپنے ممبر ممالک سے دو ہزار پندرہ میں کہا تھا کہ اس طریقے کو اختیار کیا جائے یورپی یونین کے اس فیصلے کی بعد ازاں 2019 میں یورپین کورٹ نے بھی اس کی توثیق کر دی تھی۔

انہوں نے مزید کہا ”اس فیصلے کی روح یہ ہے کہ صارفین کو درست طورپر بتایا جائے کہ اشیاء کہاں کی تیار کردہ ہیں یا کس علاقے سے آئی ہیں۔ اس وجہ سے ہم یہ کر رہے ہیں۔”

واضح رہے ناروے کے وزیر نے جن علاقوں کا نام لیا ہے سارے کے سارے مقبوضہ علاقے ہیں۔ جن پر اسرائیل نے 1967میں ناجائز قبضہ کیا تھا اور ابھی تک جاری ہے۔ اسرائیل نہیں چاہتا کہ ان علاقوں کی مصنوعات پر انہی علاقوں کی ساختہ ہونے کا لیبل لگایا جائے بلکہ کاروباری دنیا میں بالواسطہ طور پر اسرائیل ان مقبوضہ علاقوں کو اپنا حصہ تسلیم کرا لے۔

مختصر لنک:

کاپی