جمعه 15/نوامبر/2024

گریٹر اسرائیل………صدر بش کا فائنل مشن

اتوار 24-فروری-2008

امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جب مشرقی وسطی کے دورے پر تھے جہاں انہوں نے اسرائیلی اور فلسطینی لیڈروں کی تین روزہ مذاکرات میں شرکت کی اور اس کے علاوہ کویت، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر سمیت سعودی عرب کا بھی دورہ کیا- بتایا جاتا ہے کہ صدر بش جو جنوری 2009ء میں اپنے عہدے سے دست بردار ہوں گے اپنی مدت میں کچھ معاہدہ کراکر مسئلہ فلسطین کو حل کردینا چاہتے ہیں- اس کے لیے ان کے پاس محض ایک سال کی مدت ہے-
صدر بش کے اس دورے کے نتائج پر کوئی حتمی رائے دینا تو ابھی قبل ازوقت ہوگا تاہم مسئلہ فلسطین پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس سے کوئی خاص توقع وابستہ نہیں کی جاسکتیں- اس سے پہلے جو کوششیں ہوئی ہیں ان کی ناکامی کے پیش نظر ایسا سوچنا بھی بعید از قیاس بھی نہیں- نومبر 2007ء میں واشنگٹن کے مضافات میں اناپولیس میری لینڈ میں امریکہ کی میزبانی میں ہوئی مغربی ایشیا پر عالمی امن کانفرنس سے بھی ذرا سی برف ہی پگھل سکی- امریکہ کے سفارتی دباؤ کے باعث بالآخراس کانفرنس میں عرب ممالک کے نمائندے خاصی بڑی تعداد میں شریک تو ہوگئے تھے لیکن کوئی خاص نتیجہ کانفرنس کا نہیں نکلا- زیادہ سے زیادہ جو ہوا وہ یہ کہ سات سال بعد فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئے اور ایک دوسرے کے روبرو ہوئے- گفت و شنید ہوئی لیکن معطل شدہ امن روڈ میپ پر کوئی بات آگے نہیں بڑھی- فلسطینی لیڈر محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ ہاتھ ملا کر اور آئندہ مذاکرات جاری رکھنے کے فیصلے پر اتفاق کر کے رخصت ہوگئے- کانفرنس کی قراردادیں امید کی کوئی کرن روشن نہ کرسکیں-
بش نے اپنے دورے کا آغاز اسرائیل سے کیا اور وہاں ان کے پہنچتے ہی غزہ میں راکٹ داغ کر تین فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بش کی اولین حمایت یہودی ملک اسرائیل کو حاصل ہے- بش نے مشرق وسطی کے دورے میں سعودی عرب جاکر شاہ عبد اللہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ایران سے ربط و تعلق کی گرمجوشی میں تخفیف کریں- گرچہ بش نے سعودی عرب کو خصوصی ہتھیار دینے کی بات کہی ہے لیکن انہوں نے اسرائیل سے بھی اس سے کافی زیادہ طاقتور سمارٹ بم فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے- اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بش نے اپنا فائنل مشن واضح کردیا ہے اور وہ ہے ’’گریٹر اسرائیل‘‘
امریکی صدر کے خطہ میں پہنچنے سے پہلے بھی فلسطینی اور اسرائیلی نمائندوں کے مابین گفتگو کے دو رائونڈ مکمل ہو چکے ہیں- 7 جنوری 2008ء کو اسرائیل کے وزیر خارجہ تسیبی لیفنی اور سابق فلسطینی وزیر اعظم احمد قریع کے مابین ہوئی بات چیت بھی یوں تو بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہوگئی لیکن اس نے 8 جنوری کو ایک بار پھر فلسطینی مقتدرہ کے صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کو گفتگو کی میز پر بٹھا دیا- دونوں راہنماؤں کی ملاقات میں فلسطینی مذاکرات کار صائب ارکات نے اپنی زمین پر بڑھتے ہوئے ناجائز یہودی سٹیلائٹ کا مسئلہ اٹھایا جبکہ اسرائیلی فریق نے سیکورٹی کے مسائل رکھے- واضح رہے کہ اناپولیس کانفرنس کے فوراً بعد ہی اسرائیل نے مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی میں نئے سیٹلائٹ کے منصوبے تیار کرنے شروع کردیئے- ساتھ ہی غزہ میں حماس کے حامیوں کی پکڑ دھکڑ اور آبادیوں پر حملے شروع کردیئے جن کے نتیجے میں اب تک متعدد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں-
عید الاضحی کی تعطیلات کے موقع پر اسرائیل کے غزہ کی پٹی کے مغازی کیمپ پر حملہ کیا اور متعدد فلسطینیوں کو ہلاک کردیا- حماس کے جنگجوئوں نے بھی اسرائیل کے خلاف راکٹ فائر کیے لیکن دسمبر 2007ء کے آخر میں مصر کے ذریعہ حماس نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کی تجویز ظاہر کی تھی جس کے جواب میں خود اسرائیلی قیادت کا متضاد مؤقف سامنے آیا- کابینہ کے دو وزراء شاؤل موفاذ اور مواصلات کے ویزر نجامن السیڈر نے کہا کہ ’’اگر حماس کی طرف سے جنگ بندی کی کوئی سنجیدہ پیش کش سامنے آتی ہے تو وہ اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیں گے اور یہ شرط بھی عائد نہیں کریں گے کہ پہلے حماس اسرائیل کو تسلیم کرلے- البتہ بن العنبر نے اسرائیل کے اس مغویہ فوجی کی رہائی کو ضروری قرار دیا جسے غزہ کی سرحد پر نامعلوم فلسطینی چھاپہ ماروں نے اغواء کرلیا تھا-
 اغواء کی یہ واردات 2006ء میں ہوئی اور لبنان پر اسرائیل کی زبردست اور تباہ کن جارحیت کا سبب بن گئی تھی- شائول موفاز کے اس بیان کی خاص اہمیت ہے کیونکہ وہ اسرائیل کے نائب وزراء میں سے ایک ہیں اور موجودہ مخلوط حکومت کی اصل اور بڑی پارٹی کے اہم رکن ہیں- دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے ان اطلاعات کی تردید کی کہ اسرائیل حماس کے ساتھ جنگ بندی پر غور کررہا ہے- اس کا کہنا ہے کہ اسرائیل فتح کی زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی سے گفتگو کررہا ہے- شدت پسندوں سے نہیں- البتہ یہ قابل ذکر ہے کہ یکم جنوری 2008ء کو یروشلم پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے دبے لفظوں میں یروشلم کی تقسیم کی بات کی تھی- دنیا اسرائیل کی دوست اور اسرائیل کی 1967ء کی سرحدوں کی حامی ہے اور دنیا یروشلم کو تقسیم کرنے کی بھی حامی ہے-
اسرائیل نے یروشلم (بیت المقدس) پر 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں ہی قبضہ کیا تھا- بعد میں اسے اسرائیل میں ضم بھی کرلیا- اس اقدام کو ابھی تک عالمی برادری نے تسلیم نہیں کیا ہے- مسئلہ فلسطین کے حل کے سلسلہ میں جہاں پانی اور آب رسانی کے ذخائر کا مسئلہ، مغربی کنارہ اور غزہ میں یہودی آبادی کا مسئلہ اور پانچ ملین آوارہ وطن فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے مسائل اہم ہیں وہیں بیت المقدس کا مسئلہ اس نزاع کا کوراشو ہے کیونکہ اسرائیل اب تک یہ مانتا آیا ہے کہ یروشلم اس کے لیے مقدس ہے وہ اس کا دائمی دارالحکومت ہے اور ناقابل تقسیم ہے جبکہ عرب مؤقف یہ رہا ہے کہ مشرقی یروشلم پرانا بیت المقدس مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہوگا اور یہ مجوزہ مملکت مغربی کنارہ، غزہ کی پٹی اور مشرقی بیت المقدس پر مشتمل ہوگی- اس مقدس شہر کا مستقبل فریقین کے مابین کلیدی وجہ نزاع بنا ہوا ہے-
اب اگر اسرائیلی لیڈر شپ اپنے مؤقف میں تھوڑی بہت بھی لچک پیدا کررہی ہے تو یہ ایک خوش آئند پہلو ہے البتہ دائیں بازو کے اسرائیلی جو سماجی و سیاسی طور پر زیادہ طاقتور ہیں، نے اولمرٹ کے اس بیان پر شدید ناراضگی ظاہر کی- ان کے شدید ردعمل میں تخفیف لانے کے لیے اولمرٹ نے اپنے بیان میں یہ اضافہ بھی کیا کہ اسرائیل 1967ء کی سرحدوں سے مراجعت نہیں کرے گا- دراصل مسئلہ فلسطین کے حل کے سلسلہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فریقین کا بے لچک رویہ ہی رہا ہے- اسرائیلی ’’کچھ دو اور کچھ لو‘‘ کے فطری اصول سے منحرف ہیں- وہ امن و سلامتی تو چاہتے ہیں لیکن فلسطینیوں کو کچھ دینا نہیں چاہتے- فلسطینی اور مسلم عرب دنیا ’’مسئلہ کے منصفانہ حل‘‘ کی بے لچک لکیر کی فقیر بنی ہوئی ہے-
 معروف اسرائیلی صحافی اور تجزیہ نگار یوری اونیری نے امریکہ کی اسپانسرڈ ’’اناپولیس‘‘ کانفرنس کو ایک مذاق قرار دیا تھا- صدر بش کے دورے کو امریکی انتظامیہ دنیا کے سامنے یوں پیش کررہی ہے کہ صدر بش منصب صدارت چھوڑنے سے پہلے پہلے ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کرادینا چاہتے ہیں جبکہ بعض مبصرین اسے یوں تعبیر کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو مزید مستحکم کردینا چاہتے ہیں-
صدر بش کا دورہ سراسر اسرائیل کے مفاد میں ہے- اس بات کو تقویت یوں بھی ملتی ہے کہ فلسطینی و اسرائیلی راہنماؤں سے گفتگو کے علاوہ ان کا ایک اور ایجنڈا مغربی ایشیا کے عرب لیڈروں پر ایران کے نیو کلیئر پروگرام کو لے کر دبائو بنانا بھی ہے- مشکل یہ ہے کہ عرب دنیا یہ تسلیم کرنے کے لیے خطرناک ہے- اسرائیل کے لیے نہیں- ابھی چند دن پہلے جی سی سی کی ایک میٹنگ میں امریکہ کے خصوصی ایلچی نے جب یہ بات کہی تو عرب لیڈران اس مذاق پر بے ساختہ ہنس دیئے- خصوصاً اس صورتحال میں کہا کہ خود امریکہ کی ایک ایجنسی نیشنل انٹیلی جنس اسٹیمیٹ نے ایران کے نیو کلیئر پروگرام کے بارے میں مثبت رپورٹ دی ہے اور اس رپورٹ کا پورا منظر نامہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے- اب روس اور ایران باہم تعلقات میں مزید گرمجوشی لانے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں-
 اس پس منظر میں جبکہ صدر بش کا فوکس ایران ہوگا- مسئلہ فلسطین پر کسی حقیقی پیش رفت کا امکان کم ہی ہے- البتہ بھرم قائم رکھنے کے لیے تو کچھ نہ کچھ کیا ہی جائے گا- صدر بش کا بن گوریان ائیرپورٹ پر اسرائیلی وزیر اعظم اور صدر ایہود اولمرٹ اور شمعون نے پرجوش استقبال کیا- جواب میں صدر بش نے اسرائیل امریکہ اتحاد کو ایک یہودی ریاست کی سلامتی کا ضامن قرار دیا-صدر بش کے اس بیان کو عرب حلقوں میں اس تناظر میں دیکھا گیا کہ ان کا یہ بیان فلسطینی مہاجرین کی واپسی کی اجازت نہ دینے کی اسرائیلی پالیسی کی تائید ہے-
حال ہی میں کنڈولیزارائس نے بھی یہ بیان دیا تھا کہ 1967ء سے اب تک بہت کچھ بدل چکا ہے اور امن معاہدے میں اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا- بیانات کے بین السطور کو دیکھنے سے صدر بش کے دورے کے مقاصد کافی حدتک سمجھ میں آتے ہیں-

لینک کوتاه:

کپی شد