جمعه 15/نوامبر/2024

حماس کو ووٹ دینے کی سزا

بدھ 12-مارچ-2008

اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی کئی ماہ سے جاری ہے جس کی وجہ سے وہاں موجود فلسطینی پانی، بجلی اور خوردنی اشیاء سے محروم ہیں- جب فلسطینی اپنے وجود کی بقاء کے لیے لاکھوں کی تعداد میں مصر کی جانب کوچ کرنے لگے تو مصر کی فوج نے ان کی آمد روک دی- دریں اثناء یہ معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پہنچا- اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی کے بعد وہاں پیدا ہونے والی صورتحال اور انسانی المیہ پر 8 روز تک مذاکرات ہوتے رہے-
آخر میں اسرائیل کی سخت الفاظ میں مذمت کرنے کی بجائے سلامتی کونسل کا یہ اجلاس ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا اور اس انسانی المیہ پر متفقہ بیان تک منظور نہیں کیا جاسکا- ادھر جدہ میں تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) کی جانب سے غزہ میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر 3 فروری کو ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا- اس ہنگامی اجلاس میں غزہ میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے لیے اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہرانے کی رسمی خانہ پری کردی گئی اور اقوام متحدہ سے یہ اپیل کی گئی کہ فلسطینیوں کی فاقہ کشی اور زبوں حالی ختم کرنے کے لئے وہ فوری طور پر حرکت میں آئے جب کہ دنیا جانتی ہے کہ گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران فلسطینیوں کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ سے لے کر وہاں توڑے جانے والے مظالم پر اقوام متحدہ کی حیثیت محض تماشائی کی سی رہی ہے- آج تازہ صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف غزہ میں فلسطینی دانے دانے کو محتاج ہیں اور فلسطینی بچے پیاس سے دم توڑ رہے ہیں تو دوسری جانب اسرائیلی فوجی طیارے بمباری کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتاررہے ہیں- غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کا یہ قصور ہے کہ انہوں نے گزشتہ الیکشن کے دوران حماس کو ووٹ دے کر مسند اقتدار تک پہنچایاتھا- یہ بات صرف اسرائیل اور امریکہ کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو پسند نہیں آئی- اس لیے فلسطین میں حماس کی حکومت کے برسراقتدار  آنے کے بعد امداد دینے والے ممالک نے احتجاجاً فلسطین کی امداد بند کردی تھی – جس کا سلسلہ  ج بھی جاری ہے-
گزشتہ ستمبر2007ء میں عائد اقتصادی پابندیوں کے باعث غزہ کی دو تہائی آبادی اس وقت غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے- عالمی ادارہ خوراک کے زیر اہتمام جنیوا میں چند ماہ قبل ہونے والی تجارت اور ترقیات سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس میں یہ خدشہ ظاہر کیاگیاتھاکہ اگر فوری اقدامات نہیں کئے گئے تو فلسطین کی نصف آبادی بے روزگارہوجائے گی- لیکن اس اپیل کے باوجود عالمی برادری اور یہاں تک کہ عالم اسلام کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی – نتیجے کے طور پر آج غزہ میں مفلسی اور بھوک کا راج ہے‘ لیکن اس کے باوجود یہاں کے باشندوں میں عزم وہمت اور استقلال کی کوئی کمی نہیں دکھائی دیتی-
کچھ عرصہ قبل بعض یہودی دانشوروں نے کہاتھاکہ حماس اور فتح باہمی ٹکراؤ میں جس طرح مبتلا ہوگئے ہیں اور جس کے نتیجے میں فلسطین کا علاقہ غزہ اور مغربی کنارہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیاہے- یہ صورت حال وسیع تر اسرائیلی مملکت کے قیام کے لئے آئیڈیل ہے- لہذا اسرائیلی حکمرانوں کو چاہیے کہ اس موقع سے جلد ازجلد فائدہ اٹھاکر وہ اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کرلیں – یہودی دانشوروں کے اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل نے فلسطین کے حوالے سے اپنی کوششیں تیز کردیں – امریکی صدر بش کو اچانک مسئلہ فلسطین کے حل کا خیال آیا اور انہوں نے آناً فاناً امریکہ میں مسئلہ فلسطین کے تعلق سے ایک ’’امن کانفرنس‘‘کا اعلان کردیا-
اس امن کانفرنس میں شرکت کے لئے تمام عرب ممالک کو مدعو کیاگیا- اس امن کانفرنس کے بنیادی مقاصد یہی تھی کہ ایک طرف فلسطین کی منتخب نمائندہ جماعت حماس کو کنارے کرکے اپنے حاشیہ بردار محمود عباس کو فلسطینی راہنما کے طور پر تسلیم کرایا جائے- دوسری جانب امن کانفرنس میں دوسرے عرب ممالک کو شامل کرکے فلسطین کے حوالے سے اپنے ناپاک منصوبوں کو عملی جامنہ پہنانے کے لیے عرب ممالک کی رضا مندی حاصل کرلی جائے- جس سے فلسطینیوں کے حق میں اٹھنے والی آواز دب جائے- اس امن کانفرنس میں محمود عباس اور اسرائیل کے درمیان مسئلہ فلسطین پر مذاکرات شروع کرنے کا معاہدہ ہوا- ظاہر ہے کہ ان مذاکرات سے کیا نتائج کی امید کی جاسکتی ہے اور فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق کہاں تک حاصل ہوسکتے ہیں- جب فلسطین کی نمائندگی کرنے والے محمود عباس خود امریکہ اور اسرائیل کے حاشیہ بردارہوں- یہ عین فطری تھا کہ حماس کو ایسے کسی قسم کے مذاکرات جس میں فلسطینیوں کے جائز حقوق کی بات نہ اٹھائی جائے پر سخت اعتراض ہے- غزہ کی ناکہ بندی اور وہاں توڑے جانے والے اسرائیلی مظالم کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ اس علاقہ پر حماس کا کنٹرول ہے- عالمی میڈیا بش سے منسوب اس بیان کا ڈھنڈورا پیٹتا رہاکہ ان کی خواہش ہے کہ اسرائیل 1967ء کی جنگ سے پہلے کی سرحدوں پر واپس چلا جائے- حالانکہ بش کاکہناکچھ یوں تھاکہ اسرائیل کو مزید فلسطینی زمینوں پر یہودی بستیاں نہیں بسانی چاہئیں بلکہ یہ بھی واضح کردیاکہ 1967ء کی جنگ سے پہلے کی سرحدوں پر اسرائیل کی واپسی نہیں ہوگی- بش نے فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضہ برقرار رکھنے کا اشارہ دے کر یہ واضح کردیا کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں نہیں وہاں وہ ایک ایسی فلسطینی ریاست کے حق میں ضرور ہیں- جو اسرائیل کی دست نگر ہو اور جو لوگ اسرائیل کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج بلند کریں ان کو امن دشمن قرار دے کر نیست ونابود کرنے کی کھلی چھوٹ دی جائے- غزہ میں اس وقت اسرائیل کی جانب سے جو کارروائی ہو رہی ہے‘ وہ صدر بش کے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے منصوبے کا ہی حصہ ہے-
دراصل فلسطین کے حوالے سے صدر بش کی تازہ کوشش ایک طرح سے ایران کے معاملے میں عرب ممالک کو بھی ٹٹولنا ہے- صدر بش نے اپنے دورہ مشرق وسطی کے دوران ابوظہبی میں پریس کانفرنس کے دوران یہ واضح بھی کردیا کہ ایران دنیا کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں کو اس خطرے کامقابلہ کرنا چاہیے- انہوں نے یہ بھی انکشاف کردیا کہ ایران دہشت گردی کی سب سے بڑی معاونت ریاست بن چکی ہے جو دنیا بھر میں انتہا پسندوں پر لاکھوں ڈالر خرچ کرکے اپنے پڑوسیوں کو خوفزدہ کرنا چاہتی ہے – جس طرح صدر بش نے جھوٹ اور پروپیگنڈے کا سہارا لے کر افغانستان اور عراق کو نشانہ بنایاتھا- آج اسی طرح ایران کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہاہے-
امریکہ اور اسرائیل گزشتہ کئی برسوں سے ایران کے ایٹم بم کا اسی طرح پروپیگنڈا کررہے ہیں جس طرح صدام حسین کے خطرناک اسلحہ جمع کرنے اور اسامہ بن لادن کے نائن الیون میں ملوث ہونے کا پروپیگنڈا کیاگیا – اب جب کہ خود امریکہ کی تمام ترایجنسیوں نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ایران 2003ء میں ہی ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا پروگرام بند کرچکاہے – لیکن امریکی صدر اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں- دراصل ایران اس خطہ میں امریکی مفادات اور اسرائیل کے ناپاک توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ اسی لیے اسے متعوب ٹھہرایا جا رہاہے- ایران کو نشانہ بنانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ جس شدت کے ساتھ فلسطین کا معاملہ اٹھاتا رہاہے – اتنا شدید کوئی دوسرا عرب ملک فلسطینیوں کی حمایت میں کھل کر سامنے نہیں آیا –
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں حماس کی طاقت کو کچلنے کی جو کارروائیاں ہو رہی ہیں اس کے پس منظر میں اسرائیل کا وہ خوف ہے جو کچھ عرصہ قبل لبنان میں حزب اللہ کے ہاتھوں شکست کی صورت میں سامنے آیا – امریکہ اور اسرائیل کو یہ خوف ستا رہاہے کہ اگر ایران‘ لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں حماس کا اس خطہ میں دائرہ اثر وسیع ہوا تو وہ اپنی من مانی کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے-

(بشکریہ: ’’اسلام‘‘)

لینک کوتاه:

کپی شد

مطالب بیشتر از ڈاکٹر صالح عبد اللہ