جمعه 15/نوامبر/2024

پندرہ لاکھ انسان موت کی دہلیز پر

ہفتہ 12-اپریل-2008

15لاکھ انسانوں کو اب بھی پوری دنیا کے سامنے روزانہ موت کے گھاٹ اتارا جارہاہے- ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ فلسطینی ہیں- اپنے نبی کے قبلہ اول اور مقام اسراء و معراج پر صہیونی قبضہ تسلیم کرنے سے انکاری ہیں- لاکھوں افراد کے سامنے جب کوئی راستہ نہ بچا تو 22جنوری کی شام سینکڑوں خواتین رفح کے سرحدی پھاٹک پر جمع ہوگئیں-
 انہوں نے زبردستی پھاٹک کھولنے کی کوشش کی لیکن مصری انتظامیہ نے ان پر آنسو گیس اور گولیاں چلادیں – اگلے روز یعنی 23جنوری کو ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی نوجوان اکٹھے ہوئے اور انہوں نے بلڈورزکے ذریعے غزہ اور مصر کے مابین حائل جنگلے اور آہنی دیوار مسمار کردی – پھر وہاں سے لاکھوں فلسطینیوں کے قافلے مصری شہر عریض اور رفح کی جانب چل دیئے- سب کا ہدف صرف یہ تھاکہ تیل کھانے پینے کا سامان اور لالٹنیں ،موم بتیاں خرید کر واپس جاسکیں-
جب اتنی بڑی تعداد کو روکنا مصر کے لئے ممکن نہ رہا تو صدرحسنی مبارک نے اعلان کیا کہ ہم نے سرحد کھوول دی ہے- فلسطینی سامان خوردو نوش خریدنے کے لئے آسکتے ہیں- مصری دکاندار اور تاجر ایک انوکھی سرشاری کا مظاہرہ کررہے تھے- معمولی سے بھی کم قیمت پر جو کچھ تھا اپنے محصور بھائیوں کو پیش کردیتے ، بعض اوقات قیمت خریدسے بھی کم پر-
یہ منظر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی ہے – ایک ہی قوم ، ایک زبان ، ایک ہی علاقے کے ساجھی ایک ہی نبی کے امتی چند فٹ کی دیوار اور خاردار تاروں سے یوں تقسیم کردیئے گئے کہ ایک طرف 15لاکھ انسانی جانیں موت کی دہلیز پر کھڑی ہیں اور دوسری جانب کے حکمرں صرف امریکہ اور اسرائیل کے خوف سے انہیں روٹی ، پانی ، دوا یا تیل دینے سے انکاری ہیں-
 سرحدی دیوار روند دیئے جانے پر امریکہ بہادر نے خبرد ارکیا ہے کہ یہاں سے دہشت گرد اسلحہ اور مجاہدین غزہ جاسکتے ہیں- اسرائیل نے بھی دھمکی دی ہے کہ مصر یہ راستہ بندکردے وگرنہ براہ راست کارروائی کریں گے اور مصر نے آمیناً وصدقتاً کہتے ہوئے یہ سرحدی شگاف بند کردیا – اب غزہ سے کسی کو مصر جانے کی اجازت نہیں البتہ فی الحال مصر کی طرف آئے ہوئے فلسطینیوں کی واپس غزہ کی سب سے بڑی انسانی جیل میں جانے کی آزادی ہے – سرحدی شگاف بند کردیاگیا لیکن اس اقدام سے امت کے جسد میں جو شگاف ڈالا جا رہاہے اس کی کسی کو پروا نہیں – یہ الگ بات ہے کہ مظلوم کے سامنے جب سب راستے بند کردیئے جائیں تو پھر وہ کسی طرح سرحد یں مسمار کردیتاہے –
 دنیا نے اس کا عملی مظاہرہ دیکھ لیا – اہل غزہ پر توڑی جانے والی اس قیامت پر امت نے بیداری و زندگی کا ثبوت دیتے ہوئے پورے عالم اسلام میں اس پر احتجاج کیا ہے- موریطانیہ سے لے انڈونیشیا تک ہر جگہ مظاہرے اور مذمتی بیانات جاری ہوئے ہیں- سب سے بڑے مظاہرے مصر اور اردن میں الاخوان المسلمون نے کئے ہیں ، ایران اور لبنان میں بھی بڑے مظاہرہے ہوئے ہیں-
موریطانیہ میں خواتین کے مظاہرے میں ایک خاتون رکن پارلیمنٹ وضع حمل کے تیسرے روزبیماری کے باوجود مظاہرے کی قیادت کے لئے نکل آئی- خلیجی ریاستوں بحرین ، قطراور متحدہ عرب امارات کے شہر شارقہ میں بھی مظاہرے ہوئے ،حالانکہ وہاں کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے- دمشق میں ایک بڑی قومی کانفرنس ہوئی ہے – کئی عرب ممالک میں مظاہرین نعرے لگا رہے تھے – ولا یھمک فلسطین کلنا صلاح الدین فلسطین فکر نہ کروہم سب صلاح الدین ہیں- اہل غزہ نے بھی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بینر بلند کئے- غزہ کے باسی کھی شکست خوردہ نہیں ہوں گے – عالمی سروے بتا رہے ہیں کہ اہل غزہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ حماس کا ساتھ دے رہے ہیں-
جب رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تمام ساتھیوں کو اہل خانہ سمیت شعب ابی طالب میں محبوس کردیاگیا اور وہ خشک چمڑا اور درختوں کی چھال تک کھانے پر مجبور کردیئے گئے تو ایک روززہیر بن امیہ تڑپ اٹھا- اپنا شاندار جبہ زیب تن کرکے حرم میں آیا – بیت اللہ کا طواف کیا اور کہا ’’ہم تو انواع اقسام کے کھانے کھائیں- طرح طرح کے کپڑے پہنیں اور بنو ہاشم ہلاک ہوتے رہیں –
 ان سے ہر طرح کی خریدو فروخت بند ہو ؟نہیں خدا کی قسم انہیں میں تب تک چین سے نہیں بیٹھو ں گا جب تک بنو ہاشم سے بائیکاٹ کی ظالمانہ دستاویز پھاڑ نہیں دی جاتی – ‘‘آج خود ہاشم بن عبدمناف کے میزبانوں کے لئے غزہ کو شعب ابی طالب بنادیاگیاہے- غزہ اور دیگر فلسطینی آبادیوں کے گرد 650 کلو میٹر لمبی اور 25 فٹ اونچی جدید ہتھیاروں سے آراستہ آہنی دیوار کھڑی کی جا رہی ہے- (دیوار برلن 155 کلومیٹر لمبی اور 11 فٹ 8 انچ اونچی تھی) تمام راستے مسدود کردیئے گئے ہیں- رسول مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد کا میزبان غزہ دہائی دے رہاہے کہ کیا دنیا بھر میں پھیلے اربوں انسانوں میں سے کوئی بھی زہیر بن امیہ نہیں ہے –

لینک کوتاه:

کپی شد