روس اور جمہوریہ مصر کے درمیان باقاعد ہ تعلقات کا آغاز26 اگست1947 ء سے ہوتا ہے، لیکن انہیں ساٹھ سالہ تاریخ میں مثالی تعلقات نہیں قرارد یاجاسکتا-
اس کی بنیادی وجہ دونوں ممالک کی ترجیحات رہیں- افغانستان روس جنگ کے دوران مصرنے امریکہ کی سرد جنگ میں واشنگٹن کی حمایت کی- جس سے روس کومایوسی ہوئی- اگرچہ دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات ہمیشہ قائم رہے لیکن معاملات اس سے آگے نہ بڑھ سکے- دونوں ممالک کے سربراہان مختلف مواقع پر ایک دوسرے سے ملاقاتیں بھی کرتے رہے ، تاہم یہ ملاقاتیں ہمیشہ سر د مہری کا شکار ہو کر رہ جاتیں- وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی سرد مہری میں نہ صر ف کمی آنا شروع ہوئی بلکہ دونوں ملکوں میں باہمی تعاون کے کئی سمجھوتے بھی طے پانے لگے- سابق مصری صدر جمال عبدالناصر اور سابق سوویت یونین کے سربراہ بوری سے ایلسن دوستانہ تعلقات رہے ہیں-
1970 ء کے بعد مصر امریکہ کے لیے ایک ’’اسٹریٹیجک پارٹنر‘‘ کا کردار ادا کرتا رہا ہے- نوے کی دہائی کے آخر میں قاہرہ مصر سر د مہری کم ہونے کا نقطہ آغاز روسی زائرین کی بڑی تعداد کے مصر اور مشرق وسطی آمد سے ہوتا ہے- تاہم باقاعدہ معاہدات کا سلسلہ اکیسوی صدی کے آغاز سے ہوتا ہے-
اکتوبر2001 ء میں پہلی مرتبہ دونوں ممالک کے وزراء خارجہ نے ماسکو میں ملاقات میں بر آمدات و در آمدات کے تبادلے اور تجارت کے فروغ کے لیے دستاویزات کا تبادلہ کیا- اسی طرح کا ایک معاہدہ 2004 ء میں بھی عمل میں آیا، اس میں باہمی اعتماد سازی کے لیے کی جانے والی کوششیں پہلے سے زیادہ حوصلہ افزاء رہیں- 2006 ء میں پہلی مرتبہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے مصر میں قدم رکھا- یہ کسی بھی روسی سربراہ مملکت کا چالیس سال کے طویل عرصے میں پہلا دورہ قاہرہ تھا- مسٹر پیوٹن کے دورہ مصر کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ہوتاہے –
پیوٹن کے دورے کے بعد روس اور مصر کے درمیان سفارتی تعلقات مزید مضبوط ہوئے- دسمبر2007 ء میں روسی وزیر خارجہ سیرگی لافروف مصر کے خصوصی دورے پر آئے- اس موقع پر انہوں نے اپنے مصری ہم منصب احمد ابو الغیط سے طویل مذاکرات کیے- بالا آخر دونوں ممالک نے تجارت سمیت باہمی تعاون کے متعدد منصوبوں پر دستخط کیے جس کی لاگت ایک بلین ڈالر تھی- معاہدے میں تجارتی، سائنسی، تعلیمی، ذرعی اور خلائی میدانوں میں تعاون شامل تھا- دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے سفارتی تعلقات کے علاوہ دونوں ممالک کے عوام بھی ایک دوسرے ممالک میں سیر و سیاحت میں دلچسپی لے رہے ہیں-2007 ء کے دوران ڈیڑھ ملین روسی سیاح مصر آئے، جس سے سیاحت کے شعبے میں مصری حکومت کو خاطر خواہ آمدنی ہوئی- یہی وجہ ہے ایک مصری اخبار’’ الجمہوریہ‘‘ نے اس عوامی رحجان کو دونو ں ممالک کے درمیان مثبت تعلقات کے لیے ’’ کلید ‘‘ قرار دیا –
گزشتہ پانچ برس سے جاری تعلقات کا سفر بالا آخر دونوں ممالک کو جوہری تعاون تک لے آیا ہے، جو یقینا ہر اعتبار سے خطے کی سیاست میں تبدیلی کا واضح پتہ دیتا ہے- 25 مارچ2008 ء کو ماسکو میں ہونے والے قاہرہ ماسکو معاہدے میں روس مصر کو ساحل روم کے قریب 1.8 ملین ڈالر کے جوہری پلانٹ کی تنصیب میں مدد فراہم کرے گا- یہ پلانٹ دس سال تک مکمل ہوگا ، جس میں ایک ہزار میگاواٹ تک بجلی حاصل کی جاسکے گی-
مارچ کے آخری عشرے میں مصری صدر حسنی مبارک نے نو منتخب روسی صدر ڈمٹری میڈو ویڈف سے بھی ملاقات کی- میڈوف مئی میں صدر پیوٹن کی جگہ سنبھالیں گے- انہوں نے اس معاہدے کو دونوں ممالک کے لیے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ مستقبل میں مصر کے ساتھ مثالی اور دوستانہ تعلقات کے خواہش مند ہیں-
دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات کا اندازہ اور مستقبل میں دونوں ممالک کا مشترکہ سفر کا عزم حالات کی تبدیلی کے ساتھ کئی اہم سوالات کو بھی جنم دے رہا ہے اور خطے کی سیاست پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے نظر آرہے ہیں-
مصری صدر حسنی مبارک نے ایک روسی اخبار کو انٹر ویودیتے ہوئے کہا کہ ’’انہیں اب روس جیسے شاطر اور چالاک دوست کی ضرورت ہے، جو ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھ سکے‘‘- انہوں نے صدر پیوٹن کو اپنا ذاتی دوست قرار دیتے ہوئے خواہش ظاہر کی وہ تیسری مرتبہ عہدہ صدارت سنبھالیں- حالانکہ روسی قانون کے تحت کسی ایک شخص کو صرف دو مرتبہ صدر بننے کی اجازت ہے-
روس اور مصر کے درمیان باہمی تعلقات ایک ایسے وقت میں برگ و بارلا رہے ہیں جبکہ روس نے خطے کے دیگر ممالک جن میں ایران خاص طور پرشامل ہے سے مزید جوہری معاہدات کیے ہیں- روس ا س سے قبل ایران کا پہلا متنازعہ ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنے میں مدد فراہم کر چکا ہے – اب مصر سے جوہری تعاون اور ایٹمی ری ایکٹر کی تعمیر کے معاہدے سے بھی کئی ابہام پیدا ہو رہے ہیں-
روس اور مصر کے درمیان بڑھتے تعلقات نہ صرف مشرق وسطی اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی سیاست پر اثرات مرتب کریں گے بلکہ اس کے نتیجے میں پوری بین الاقوامی سیاست کو بڑا دھچکا لگے گا – بالخصوص مشرق وسطی میں امریکی مفادات کے تناظر میں اس مفاہمت کو دیکھاجائے تو نتائج امریکہ کے لیے حوصلہ شکن دکھائی دیتے ہیں- ماسکو قاہرہ ایٹمی ڈیل کے بعد امریکی حکومتی ذرائع مصر کے حوالے سے مختلف قسم کی چہ میگوئیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں- امریکی وزارت دفاع کے اعلی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اسرائیلی اخبار کو تبایا کہ ایک طرف روس مشرق وسطی میں اپنے دوستانہ تعلقات کو فروغ دے رہا ہے جبکہ دوسری طرف مشرق وسطی میں سابق امریکی دوست اپنی وفاداریاں بھی تبدیل کر رہے ہیں- مصر کی جانب سے سول مقاصد کے لیے روس سے معاہدہ اس کا حصہ ہے- اس کے علاوہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے بھی اب تک کے روسی نکتہ نظر کو مہمل سمجھاجاتا رہا ہے-
مصر اور امریکہ کے ماضی میں مثالی تعلقات رہے ہیں- امریکہ نے 1979 ء سے 2003 ء تک مصر کو تیس بلین ڈالر کی امداد دی- امداد میں معاشی شعبوں کی ترقی کے علاوہ فوجی مقاصد کے حصول کے لیے حصہ بھی شامل تھا- دونوں ممالک میں سر د مہری کی فضاء اس وقت دیکھنے میں آئی جب2006 ء میں فلسطین میں اسرائیل مخالف اور اسلام پسند جماعت حماس بر سر اقتدار آئی ، تو مصر نے حماس حکومت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کے بعد کئی پہلوؤں سے اس کی مدد بھی کرتا رہا –
مصر کے اسرائیل سے تعلقات ہونے کے باوجودحماس کی مدد کی وجہ سے اسرائیل بھی مصر سے ناراض رہا – اسرائیل نے حماس کی حمایت سے مصر کو دستکش کرنے کے لیے کئی بار امریکہ سے دباؤ ڈالنے کی بھی کوشش کی، کولن پاول اور اس کے بعد وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس نے مصر پر حماس کے معاملے میں دباؤ ڈالنے کی پالیسی اپنائی، لیکن وہ ناکام رہی – ایسے میں قاہرہ اور واشنگٹن کے درمیان سر دمہری میں اضافہ ہوا، جس کا فائدہ روس نے اٹھایا-
روس کے بارے میں یہ تاثر عالمی طور پر مزید مضبوط ہو رہا ہے کہ روس ہتھیاروں کی برآمدات اور ایٹمی شعبے میں مشرق وسطی کے ممالک سے تعان کر کے مشرق وسطی میں اپنا اثر ورسوخ بڑا رہا ہے- یہ روس ہی ہے جس نے ایران کے سب سے پہلے متنازعہ ایٹمی بجلی گھر کی تعمیرکو حتمی شکل دینے کے علاوہ بلغاریہ میں بھی ایک ایٹمی ری ایکٹر تعمیر کرنے کے معاہدے پر دستخط کر چکا ہے- روس کو یہ اقدامات مشرق وسطی میں اپنے پاؤں مضبوط کرنے اور ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور تجارت کو بڑھانے کے علاوہ خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو بھی کم کرنے میں مدد دیں گے-
دوسری جانب اسرائیل نے بھی روس مصر تعلقات پر بے چینی کا اظہا رکیا ہے- اس کا اندازہ حکومتی بیانات سے ہوتا ہے- اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک نے ماسکو قاہرہ معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے بظاہر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس معاہدے سے اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں،لیکن اندر خانہ اسرائیل نے اسے اپنے حوالے سے کوئی مثبت پیش رفت قرار نہیں دیا-
باراک نے کہا کہ مصر روس کی قربت سے خطے میں قیام امن کی فضاء کو آگے بڑھا نے میں مدد ملے گی تاہم انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اچھا ہوتا کہ مصر اس معاہدے سے قبل اسرائیل اور امریکہ کو اعتماد میں لے لیتا- باراک کے بیان سے قطع نظراسرائیلی عسکری تجزیہ کار مارٹین یچائی نے عبرانی اخبار’’یدیعوت احرونوت‘‘ میں مطبوعہ اپنے مضمون میں کہا کہ مصر کا جوہری میدان میں روس کے اشتراک اور تعاون سے کام شروع کرنا مشرق وسطی میں بہت بڑی تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے-
ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ عرصہ بعد مصر بھی ایران کی طرح ممنوعہ جوہری توانائی کے حصول میں آگے جائےگا- انہوں نے ایران کی مثال دی اور کہا کہ ایران نے بھی جوہری توانائی کے حصول کی ابتداء ’’سول مقاصد ‘‘ کے بہانے سے کی تھی اور اس کا آغاز بھی روس نے کیاتھا، لیکن اب پوری دنیا میں اس کا جوہری پروگرام متنازعہ اور خطرناک سمجھاجاتا ہے- یچائی نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ مصری جوہری پرگرام کے حقائق جاننے کی کوشش کرے تاکہ بعد کی تباہ کاریوں اور مسائل سے ابھی سے نمٹا جا سکے-
روس نے مصر کو اقوام متحدہ، یورپی یونین ، امریکہ اور روس پر مشتمل بین الاقوامی چار رکنی’’ کواٹریٹ‘‘میں شمولیت کی بھی پیش کش کی ہے-گو کہ اس پیش کش پر عمل درآمد اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اس کے چاروں اراکین اس پر متفق ہوں ، جبکہ فی الحال یہ پیش کش محض روس کی جانب سے کی گئی ہے- اب سوال یہ ہے کہ اگر مصر ’’انٹر نیشنل کواٹریٹ‘‘ میں شامل ہو جاتا ہے(تاحال جس کے امکانات نہیں) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مصر کو مذکورہ تمام طاقتوں کے برابر تجارتی، صنعتی اور ایٹمی و انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ترقی کرنے مساوی حقوق حاصل ہو جائیں گے- لیکن یہ امر اپنی جگہ اہم ہے کہ امریکہ کیسے ایک عرب ملک کو جس کے اس کے ساتھ تعلقات میں سر د مہری بھی رہی ہے اس گروپ میں شامل ہونے کی حمایت کرے گا- امریکہ کی جانب مصر کی کواٹریٹ میں شمولیت کے حوالے سے ردعمل بھی آچکا ہے کہ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس پر کئی پہلوؤں سے غور کرنے کی ضرورت ہے-
روس کی جانب سے مصر کو ’’کواٹریٹ‘‘ شامل کرنے کی تجویز بھی باہمی تعلقات کے اور تجارت کو مزید فروغ دینے کی ایک کوشش ہے – اگرچہ مذکورہ چاروں طاقتیں محض تجارتی بنیادوں پر متحد نہیں بلکہ عالمی سیاست کے حوالے سے بھی ان کا کردار اہم ہے-
اب رہا یہ سوال کہ اس معاہدے کے پس پردہ روس کے مقاصد کیا ہیں؟ کیاروس مشرق وسطی میں امریکی سیاست کا اثر و رسوخ کم کرنا چاہتا ہے یا وہ محض تجارتی اغراض سے یہ کام کر رہا ہے – اب تک کے شواہد کے مطابق روس کی کوشش ہے کہ وہ مصر سے تعلقات کو محض تجارتی سطح تک ثابت کرنے کی کوشش کرتا ر ہا-گزشتہ برس روس کی تیل اور گیس کی تلاش سے متعلق دو فرموں’’لوک آئل‘‘ اور رشین گیس کمپنی نے مصر میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے مختلف منصوبوں پر کام کرنے کی خواہش ظاہر کی- چنانچہ دونوں روسی کمپنیوں کو مصر میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے –
تاہم معاہدے کے بین السطور یہ بات موجود ہے کہ روس مشرق وسطی کے تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے-
برخلاف امریکہ کے روس کے پہلے بھی مشرق وسطی کے تمام ممالک حتی کہ حماس جیسی تنظیموں سے بھی خوشگوار تعلقات ہیں- اس کے علاوہ شام اور ایران سے بھی مصر کے نہ صرف تعلقات قائم ہیں بلکہ ان سے تجارتی اور دیگر معاہدات بھی ہور ہے ہیں- ایسے میں یہ ثابت ہورہا ہے کہ امریکہ کو مشرق وسطی میں وہ مقام حاصل نہیں جو اس وقت روس کو حاصل ہے- روس اس وقت مشرق وسطی خصوصا مسئلہ فلسطین کے حل کے حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے، کیونکہ اس کے فلسطینی قیادت اور اسرائیل سبھی سے یکساں تعلقات قائم ہیں- روس مصر دوستی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ عرب ممالک خطے میں امریکی کردار سے مایوس ہیں- اس کی اہم وجووہات میں امریکہ کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے حل میں عدم دلچسپی ، اسرائیل کی بلا جواز حمایت اور مدد اور تیل کے حصول کے لیے عراق پر قبضہ ہے-
روس مشرق وسطی کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے اور اس سلسلے میں وہ ایک کانفرنس بھی منعقد کرنے کا فیصلہ کیے ہوئے ہے تاہم اب تک اسرائیلی تحفظات کے باعث اس کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکا-
روس کے مشرق وسطی کے ممالک میں دلچسپی دو دیگر وجوہات بھی ہیں- ایک توخطے کے تیل اور گیس کے وسائل سے استفادہ کرنا اور دوسرا اپنی مصنوعات کو مڈل ایسٹ کی مارکیٹ تک لانا ہے- مصر سے تعلقات بڑھانے کے ضمن خود روسی حکام کہہ چکے ہیں کہ وہ مصر کو مشرق وسطی میں روسی اسلحہ کے ڈیلر کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں- سوال یہ ہے کہ روس یہ دونوں مقاصد آسانی سے حاصل کر پائے گا یانہیں،اس کافیصلہ وقت ہی کرے گا ، تاہم اس امر میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ روس اب مشرق وسطی میں امریکہ کے مقابل کھڑا ہونے کی کوششیں کر رہا ہے-
مصر کی جانب سے دوستی کی سمت کی تبدیلی خطے میں امریکہ کے لیے دوہری پریشانی کا باعث بن سکتی ہے -عربی ذرائع ابلاغ کے مطابق مصر اور روس کے باہمی تعاون سے ایک تو امریکہ مشرق وسطی میں مصر جیسے دوست سے محروم ہو سکتا ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل ایران کے حوالے سے بھی امریکی مقدمہ کمزور پڑ جائےگا- کیونکہ امریکہ اس کوشش میں ہے کہ عرب ممالک کو ایران کے خلاف متحدکیا جائے- دوسری جانب ایران بھی عرب دنیا سے روابط بڑھا رہاہے، جس سے لگتا امریکہ کی خطے میں دال گلتی نظر نہیں رہی-
اس کی بنیادی وجہ دونوں ممالک کی ترجیحات رہیں- افغانستان روس جنگ کے دوران مصرنے امریکہ کی سرد جنگ میں واشنگٹن کی حمایت کی- جس سے روس کومایوسی ہوئی- اگرچہ دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات ہمیشہ قائم رہے لیکن معاملات اس سے آگے نہ بڑھ سکے- دونوں ممالک کے سربراہان مختلف مواقع پر ایک دوسرے سے ملاقاتیں بھی کرتے رہے ، تاہم یہ ملاقاتیں ہمیشہ سر د مہری کا شکار ہو کر رہ جاتیں- وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی سرد مہری میں نہ صر ف کمی آنا شروع ہوئی بلکہ دونوں ملکوں میں باہمی تعاون کے کئی سمجھوتے بھی طے پانے لگے- سابق مصری صدر جمال عبدالناصر اور سابق سوویت یونین کے سربراہ بوری سے ایلسن دوستانہ تعلقات رہے ہیں-
1970 ء کے بعد مصر امریکہ کے لیے ایک ’’اسٹریٹیجک پارٹنر‘‘ کا کردار ادا کرتا رہا ہے- نوے کی دہائی کے آخر میں قاہرہ مصر سر د مہری کم ہونے کا نقطہ آغاز روسی زائرین کی بڑی تعداد کے مصر اور مشرق وسطی آمد سے ہوتا ہے- تاہم باقاعدہ معاہدات کا سلسلہ اکیسوی صدی کے آغاز سے ہوتا ہے-
اکتوبر2001 ء میں پہلی مرتبہ دونوں ممالک کے وزراء خارجہ نے ماسکو میں ملاقات میں بر آمدات و در آمدات کے تبادلے اور تجارت کے فروغ کے لیے دستاویزات کا تبادلہ کیا- اسی طرح کا ایک معاہدہ 2004 ء میں بھی عمل میں آیا، اس میں باہمی اعتماد سازی کے لیے کی جانے والی کوششیں پہلے سے زیادہ حوصلہ افزاء رہیں- 2006 ء میں پہلی مرتبہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے مصر میں قدم رکھا- یہ کسی بھی روسی سربراہ مملکت کا چالیس سال کے طویل عرصے میں پہلا دورہ قاہرہ تھا- مسٹر پیوٹن کے دورہ مصر کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ہوتاہے –
پیوٹن کے دورے کے بعد روس اور مصر کے درمیان سفارتی تعلقات مزید مضبوط ہوئے- دسمبر2007 ء میں روسی وزیر خارجہ سیرگی لافروف مصر کے خصوصی دورے پر آئے- اس موقع پر انہوں نے اپنے مصری ہم منصب احمد ابو الغیط سے طویل مذاکرات کیے- بالا آخر دونوں ممالک نے تجارت سمیت باہمی تعاون کے متعدد منصوبوں پر دستخط کیے جس کی لاگت ایک بلین ڈالر تھی- معاہدے میں تجارتی، سائنسی، تعلیمی، ذرعی اور خلائی میدانوں میں تعاون شامل تھا- دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے سفارتی تعلقات کے علاوہ دونوں ممالک کے عوام بھی ایک دوسرے ممالک میں سیر و سیاحت میں دلچسپی لے رہے ہیں-2007 ء کے دوران ڈیڑھ ملین روسی سیاح مصر آئے، جس سے سیاحت کے شعبے میں مصری حکومت کو خاطر خواہ آمدنی ہوئی- یہی وجہ ہے ایک مصری اخبار’’ الجمہوریہ‘‘ نے اس عوامی رحجان کو دونو ں ممالک کے درمیان مثبت تعلقات کے لیے ’’ کلید ‘‘ قرار دیا –
گزشتہ پانچ برس سے جاری تعلقات کا سفر بالا آخر دونوں ممالک کو جوہری تعاون تک لے آیا ہے، جو یقینا ہر اعتبار سے خطے کی سیاست میں تبدیلی کا واضح پتہ دیتا ہے- 25 مارچ2008 ء کو ماسکو میں ہونے والے قاہرہ ماسکو معاہدے میں روس مصر کو ساحل روم کے قریب 1.8 ملین ڈالر کے جوہری پلانٹ کی تنصیب میں مدد فراہم کرے گا- یہ پلانٹ دس سال تک مکمل ہوگا ، جس میں ایک ہزار میگاواٹ تک بجلی حاصل کی جاسکے گی-
مارچ کے آخری عشرے میں مصری صدر حسنی مبارک نے نو منتخب روسی صدر ڈمٹری میڈو ویڈف سے بھی ملاقات کی- میڈوف مئی میں صدر پیوٹن کی جگہ سنبھالیں گے- انہوں نے اس معاہدے کو دونوں ممالک کے لیے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ مستقبل میں مصر کے ساتھ مثالی اور دوستانہ تعلقات کے خواہش مند ہیں-
دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات کا اندازہ اور مستقبل میں دونوں ممالک کا مشترکہ سفر کا عزم حالات کی تبدیلی کے ساتھ کئی اہم سوالات کو بھی جنم دے رہا ہے اور خطے کی سیاست پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے نظر آرہے ہیں-
مصری صدر حسنی مبارک نے ایک روسی اخبار کو انٹر ویودیتے ہوئے کہا کہ ’’انہیں اب روس جیسے شاطر اور چالاک دوست کی ضرورت ہے، جو ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھ سکے‘‘- انہوں نے صدر پیوٹن کو اپنا ذاتی دوست قرار دیتے ہوئے خواہش ظاہر کی وہ تیسری مرتبہ عہدہ صدارت سنبھالیں- حالانکہ روسی قانون کے تحت کسی ایک شخص کو صرف دو مرتبہ صدر بننے کی اجازت ہے-
روس اور مصر کے درمیان باہمی تعلقات ایک ایسے وقت میں برگ و بارلا رہے ہیں جبکہ روس نے خطے کے دیگر ممالک جن میں ایران خاص طور پرشامل ہے سے مزید جوہری معاہدات کیے ہیں- روس ا س سے قبل ایران کا پہلا متنازعہ ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنے میں مدد فراہم کر چکا ہے – اب مصر سے جوہری تعاون اور ایٹمی ری ایکٹر کی تعمیر کے معاہدے سے بھی کئی ابہام پیدا ہو رہے ہیں-
روس اور مصر کے درمیان بڑھتے تعلقات نہ صرف مشرق وسطی اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی سیاست پر اثرات مرتب کریں گے بلکہ اس کے نتیجے میں پوری بین الاقوامی سیاست کو بڑا دھچکا لگے گا – بالخصوص مشرق وسطی میں امریکی مفادات کے تناظر میں اس مفاہمت کو دیکھاجائے تو نتائج امریکہ کے لیے حوصلہ شکن دکھائی دیتے ہیں- ماسکو قاہرہ ایٹمی ڈیل کے بعد امریکی حکومتی ذرائع مصر کے حوالے سے مختلف قسم کی چہ میگوئیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں- امریکی وزارت دفاع کے اعلی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اسرائیلی اخبار کو تبایا کہ ایک طرف روس مشرق وسطی میں اپنے دوستانہ تعلقات کو فروغ دے رہا ہے جبکہ دوسری طرف مشرق وسطی میں سابق امریکی دوست اپنی وفاداریاں بھی تبدیل کر رہے ہیں- مصر کی جانب سے سول مقاصد کے لیے روس سے معاہدہ اس کا حصہ ہے- اس کے علاوہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے بھی اب تک کے روسی نکتہ نظر کو مہمل سمجھاجاتا رہا ہے-
مصر اور امریکہ کے ماضی میں مثالی تعلقات رہے ہیں- امریکہ نے 1979 ء سے 2003 ء تک مصر کو تیس بلین ڈالر کی امداد دی- امداد میں معاشی شعبوں کی ترقی کے علاوہ فوجی مقاصد کے حصول کے لیے حصہ بھی شامل تھا- دونوں ممالک میں سر د مہری کی فضاء اس وقت دیکھنے میں آئی جب2006 ء میں فلسطین میں اسرائیل مخالف اور اسلام پسند جماعت حماس بر سر اقتدار آئی ، تو مصر نے حماس حکومت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کے بعد کئی پہلوؤں سے اس کی مدد بھی کرتا رہا –
مصر کے اسرائیل سے تعلقات ہونے کے باوجودحماس کی مدد کی وجہ سے اسرائیل بھی مصر سے ناراض رہا – اسرائیل نے حماس کی حمایت سے مصر کو دستکش کرنے کے لیے کئی بار امریکہ سے دباؤ ڈالنے کی بھی کوشش کی، کولن پاول اور اس کے بعد وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس نے مصر پر حماس کے معاملے میں دباؤ ڈالنے کی پالیسی اپنائی، لیکن وہ ناکام رہی – ایسے میں قاہرہ اور واشنگٹن کے درمیان سر دمہری میں اضافہ ہوا، جس کا فائدہ روس نے اٹھایا-
روس کے بارے میں یہ تاثر عالمی طور پر مزید مضبوط ہو رہا ہے کہ روس ہتھیاروں کی برآمدات اور ایٹمی شعبے میں مشرق وسطی کے ممالک سے تعان کر کے مشرق وسطی میں اپنا اثر ورسوخ بڑا رہا ہے- یہ روس ہی ہے جس نے ایران کے سب سے پہلے متنازعہ ایٹمی بجلی گھر کی تعمیرکو حتمی شکل دینے کے علاوہ بلغاریہ میں بھی ایک ایٹمی ری ایکٹر تعمیر کرنے کے معاہدے پر دستخط کر چکا ہے- روس کو یہ اقدامات مشرق وسطی میں اپنے پاؤں مضبوط کرنے اور ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور تجارت کو بڑھانے کے علاوہ خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو بھی کم کرنے میں مدد دیں گے-
دوسری جانب اسرائیل نے بھی روس مصر تعلقات پر بے چینی کا اظہا رکیا ہے- اس کا اندازہ حکومتی بیانات سے ہوتا ہے- اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک نے ماسکو قاہرہ معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے بظاہر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس معاہدے سے اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں،لیکن اندر خانہ اسرائیل نے اسے اپنے حوالے سے کوئی مثبت پیش رفت قرار نہیں دیا-
باراک نے کہا کہ مصر روس کی قربت سے خطے میں قیام امن کی فضاء کو آگے بڑھا نے میں مدد ملے گی تاہم انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اچھا ہوتا کہ مصر اس معاہدے سے قبل اسرائیل اور امریکہ کو اعتماد میں لے لیتا- باراک کے بیان سے قطع نظراسرائیلی عسکری تجزیہ کار مارٹین یچائی نے عبرانی اخبار’’یدیعوت احرونوت‘‘ میں مطبوعہ اپنے مضمون میں کہا کہ مصر کا جوہری میدان میں روس کے اشتراک اور تعاون سے کام شروع کرنا مشرق وسطی میں بہت بڑی تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے-
ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ عرصہ بعد مصر بھی ایران کی طرح ممنوعہ جوہری توانائی کے حصول میں آگے جائےگا- انہوں نے ایران کی مثال دی اور کہا کہ ایران نے بھی جوہری توانائی کے حصول کی ابتداء ’’سول مقاصد ‘‘ کے بہانے سے کی تھی اور اس کا آغاز بھی روس نے کیاتھا، لیکن اب پوری دنیا میں اس کا جوہری پروگرام متنازعہ اور خطرناک سمجھاجاتا ہے- یچائی نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ مصری جوہری پرگرام کے حقائق جاننے کی کوشش کرے تاکہ بعد کی تباہ کاریوں اور مسائل سے ابھی سے نمٹا جا سکے-
روس نے مصر کو اقوام متحدہ، یورپی یونین ، امریکہ اور روس پر مشتمل بین الاقوامی چار رکنی’’ کواٹریٹ‘‘میں شمولیت کی بھی پیش کش کی ہے-گو کہ اس پیش کش پر عمل درآمد اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اس کے چاروں اراکین اس پر متفق ہوں ، جبکہ فی الحال یہ پیش کش محض روس کی جانب سے کی گئی ہے- اب سوال یہ ہے کہ اگر مصر ’’انٹر نیشنل کواٹریٹ‘‘ میں شامل ہو جاتا ہے(تاحال جس کے امکانات نہیں) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مصر کو مذکورہ تمام طاقتوں کے برابر تجارتی، صنعتی اور ایٹمی و انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ترقی کرنے مساوی حقوق حاصل ہو جائیں گے- لیکن یہ امر اپنی جگہ اہم ہے کہ امریکہ کیسے ایک عرب ملک کو جس کے اس کے ساتھ تعلقات میں سر د مہری بھی رہی ہے اس گروپ میں شامل ہونے کی حمایت کرے گا- امریکہ کی جانب مصر کی کواٹریٹ میں شمولیت کے حوالے سے ردعمل بھی آچکا ہے کہ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس پر کئی پہلوؤں سے غور کرنے کی ضرورت ہے-
روس کی جانب سے مصر کو ’’کواٹریٹ‘‘ شامل کرنے کی تجویز بھی باہمی تعلقات کے اور تجارت کو مزید فروغ دینے کی ایک کوشش ہے – اگرچہ مذکورہ چاروں طاقتیں محض تجارتی بنیادوں پر متحد نہیں بلکہ عالمی سیاست کے حوالے سے بھی ان کا کردار اہم ہے-
اب رہا یہ سوال کہ اس معاہدے کے پس پردہ روس کے مقاصد کیا ہیں؟ کیاروس مشرق وسطی میں امریکی سیاست کا اثر و رسوخ کم کرنا چاہتا ہے یا وہ محض تجارتی اغراض سے یہ کام کر رہا ہے – اب تک کے شواہد کے مطابق روس کی کوشش ہے کہ وہ مصر سے تعلقات کو محض تجارتی سطح تک ثابت کرنے کی کوشش کرتا ر ہا-گزشتہ برس روس کی تیل اور گیس کی تلاش سے متعلق دو فرموں’’لوک آئل‘‘ اور رشین گیس کمپنی نے مصر میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے مختلف منصوبوں پر کام کرنے کی خواہش ظاہر کی- چنانچہ دونوں روسی کمپنیوں کو مصر میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے –
تاہم معاہدے کے بین السطور یہ بات موجود ہے کہ روس مشرق وسطی کے تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے-
برخلاف امریکہ کے روس کے پہلے بھی مشرق وسطی کے تمام ممالک حتی کہ حماس جیسی تنظیموں سے بھی خوشگوار تعلقات ہیں- اس کے علاوہ شام اور ایران سے بھی مصر کے نہ صرف تعلقات قائم ہیں بلکہ ان سے تجارتی اور دیگر معاہدات بھی ہور ہے ہیں- ایسے میں یہ ثابت ہورہا ہے کہ امریکہ کو مشرق وسطی میں وہ مقام حاصل نہیں جو اس وقت روس کو حاصل ہے- روس اس وقت مشرق وسطی خصوصا مسئلہ فلسطین کے حل کے حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے، کیونکہ اس کے فلسطینی قیادت اور اسرائیل سبھی سے یکساں تعلقات قائم ہیں- روس مصر دوستی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ عرب ممالک خطے میں امریکی کردار سے مایوس ہیں- اس کی اہم وجووہات میں امریکہ کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے حل میں عدم دلچسپی ، اسرائیل کی بلا جواز حمایت اور مدد اور تیل کے حصول کے لیے عراق پر قبضہ ہے-
روس مشرق وسطی کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے اور اس سلسلے میں وہ ایک کانفرنس بھی منعقد کرنے کا فیصلہ کیے ہوئے ہے تاہم اب تک اسرائیلی تحفظات کے باعث اس کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکا-
روس کے مشرق وسطی کے ممالک میں دلچسپی دو دیگر وجوہات بھی ہیں- ایک توخطے کے تیل اور گیس کے وسائل سے استفادہ کرنا اور دوسرا اپنی مصنوعات کو مڈل ایسٹ کی مارکیٹ تک لانا ہے- مصر سے تعلقات بڑھانے کے ضمن خود روسی حکام کہہ چکے ہیں کہ وہ مصر کو مشرق وسطی میں روسی اسلحہ کے ڈیلر کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں- سوال یہ ہے کہ روس یہ دونوں مقاصد آسانی سے حاصل کر پائے گا یانہیں،اس کافیصلہ وقت ہی کرے گا ، تاہم اس امر میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ روس اب مشرق وسطی میں امریکہ کے مقابل کھڑا ہونے کی کوششیں کر رہا ہے-
مصر کی جانب سے دوستی کی سمت کی تبدیلی خطے میں امریکہ کے لیے دوہری پریشانی کا باعث بن سکتی ہے -عربی ذرائع ابلاغ کے مطابق مصر اور روس کے باہمی تعاون سے ایک تو امریکہ مشرق وسطی میں مصر جیسے دوست سے محروم ہو سکتا ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل ایران کے حوالے سے بھی امریکی مقدمہ کمزور پڑ جائےگا- کیونکہ امریکہ اس کوشش میں ہے کہ عرب ممالک کو ایران کے خلاف متحدکیا جائے- دوسری جانب ایران بھی عرب دنیا سے روابط بڑھا رہاہے، جس سے لگتا امریکہ کی خطے میں دال گلتی نظر نہیں رہی-