فریقین کا باہم دست و گریباں رہنا اور شہروں کے بجائے قبرستان آباد کرنا ان کا مشغلہ رہا ہے- اسی صلح و جنگ کا ایک نیا باب مارچ 2006 ء میں فلسطین میں اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) کے بر سر اقتدار نے کے بعد شروع ہوا- اسرائیل نے شروع دن سے حماس حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، لیکن کچھ ضامنوں نے درمیان میں کر فریقین میں صلح کرادی- چنانچہ دوسال قبل بھی فریقین صلح کے معاہدے میں بندھ گئے، لیکن عملی طور پر یہ صلح صرف فلسطینیوں کی طرف سے تھی اسرائیل اس کا پابند نہیں تھا، نتیجہ ظاہر تھا چھ ماہ کے اندر اندر یہ جنگ بندی میدان جنگ میں تبدیل ہو گئی-
اسکے بعدد سے اب تک اسرائیل نے غرب اردن اور غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کر کے انتقام کی ایک نئی ریت انتقام کی طرح ڈالی-فلسطینی بھی اسرائیلی جارحیت اور معاشی ناکہ بندی کا بھوک، غربت، افلاس اور صبر سے مقابلہ کرتے رہے- تا نکہ رواں سال مارچ میں مصر نے ایک بار پھر حماس اسرائیل کے درمیان صلح کی کوششیں شروع کیں-حماس اس پر آمادہ تھی تاہم اسرائیل کو آمادہ کرنے میں تین ماہ کا عرصہ لگا-
اب فریقین ایک تحریری معاہدے کے تحت سیز فائر کے نئے صلح نامے کا حصہ بن گئے ہیں- انیس جون سے شروع ہونے والے اس معاہدے کو چھ ماہ کے لیے عارضی صلح نامہ قرار دیاگیا ہے- معاہدے کو دو حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے- پہلے مرحلے میں اسرائیل غزہ کی معاشی ناکہ بندی اٹھالے گا اور غرب اردن سے بھی ناکے ہٹائے گا- اسرائیل نے یہ کام معاہدے کے بعد بہتر گھنٹوں کے اندر کرنا تھاجب کہ اس کے بدلے میں فلسطینی اسرائیل پر راکٹ حملے روکنے کے پابند ہیں-
پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد فریقین کے قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت شروع ہو گی- معاہدے کی رو سے حماس اسرائیلی جنگ قیدی جلعاد شالط کو جبکہ اسرائیل فلسطینی اراکین مجلس قانون سازکے چالیس کے قریب اسیر راہنماؤں سمیت ساڑھے چار سو قیدی رہا کر ے گا -ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع نے اپنے طورپر فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی فہرست پر دستخط کردیے ہیں تاہم تا دم تحریر اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی اور نہ اسرائیلی حکومت نے اس کا اعتراف کیا ہے-
معاہدے کا طے پانا اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے تاہم اس کی صحیح اہمیت کا اندازہ اس وقت ہو گا جب طے شدہ شرائط کے تحت فریقین معاملات کریں گے- اس معاہدے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ ماضی کے بر عکس یہ برابری کی بنیاد پر طے پایا ہے- ماضی میں طے پانے والے صلح نامے یک طرفہ ہوتے تھے- مزید یہ کہ یہ معاہدہ تمام فلسطینی عسکری تنظیموں کے باہمی اتفاق سے کیاگیا ہے-
اسے صرف ’’حماس اسرائیل معاہدے‘‘ کے بجائے’’ فلسطین اسرائیل معاہدہ‘‘ کہنا بہتر رہے گا -معاہ صلح سے قبل فلسطینی جماعتوں نے اسرائیل پر واضح کر دیاتھا کہ اب کی بار جنگ بندی اسی صورت میں قبول کی جائے گی جب یہ برابری کی بنیاد پر ہو گی- اگر اسرائیل نے اپنی من مانی شرائط پر جنگ بندی کرنا چاہی تو جنگ بندی قبول نہیں ہو گی-
اس معاہدے کے اغراض و مقاصد پر نظر ڈالی جائے تو کئی اہم سوالات سر اٹھاتے دکھائی دتے ہیں- غیر جانب دار مبصرین کا کہنا ہے اسرائیل کی جانب سے حماس سے معاہدہ جنگ بندی ایران کے جوہری پروگرام پر حملے کی تناظرمیں کی ہے- گو کہ اسرائیل غزہ میں حماس کا تختہ الٹنے کے لیے فوجی تیاری بھی کر چکا ہے لیکن وہ ایران پر حملے کی صورت میں حماس اور حزب اللہ سے پنجہ آزمائی سے گریز کر رہا ہے-
یونان اور بحیرہ روم میں ایران پر حملے کی تیاری کے حوالے سے اسرائیلی فوجی مشقوں نے اس تاثر کو مزید تقویت دی ہے-کیونکہ بظاہر اسرائیل حماس سے اب تک کسی قسم کے مذاکرات سے انکار کرتا رہا ہے- مذاکرات کا امکان آئندہ بھی معدوم نظر آتا ہے، لیکن جنگ بندی کی طرف میلان یہ تاثر دے رہاہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے-
اس کے علاوہ بعض ماہرین سیاسیات کا خیال ہے کہ اس معاہدے کے پس پردہ ایران کے جوہری پروگرام کے علاوہ اور بھی مقاصد ہیں- ایک اہم مقصد اس وقفہ جنگ بندی میں اسرائیل فلسطین سے باہر حماس اور جہاد اسلامی سمیت مزاحمتی گروپوں کی سرکردہ شخصیات کو نشانہ بنانا چاہتا ہے- تاہم اسرائیل کی جانب سے اس قسم کا کوئی اشارہ سامنے نہیں آیا-یہ تجزیہ ماضی میں ہونے والے بعض معاہدات کی روشنی کیا جا رہاہے- کیونکہ ماضی میں اسرائیل فلسطین میں جنگ بندی کر کے بیرون فلسطینی جنگجوؤں کی تلاش میں سرگرداں رہا ہے-
اسرائیل فلسطین معاہدہ گو کہ دو برابر کی طاقتوں کا معاہدہ نہیں بلکہ ایک ایٹمی پاور اور بندوق بر دار کے درمیان ہے، اس لیے بعض حلقے اسے حماس کی کامیابی سے تعبیر کر رہے ہیں- سوڈان نے اس معاہدے کو اسرائیلی شکست قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل طاقت کے ذریعے فلسطینیوں کو ختم کرنے کی پالیسی کے نتائج سمجھ چکا ہے اور اسے اب پورا احساس ہے کہ جلد یا بدیر حماس سمیت تمام شدت پسند جماعتوں سے مذاکرات کے لیے تیار ہو نا ہوگا –
اس کے علاوہ بھی یہ امر اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اسرائیل اب فلسطین سے تحریک مزاحمت کو طاقت کے بل بوتے پر ختم نہیں کر سکتا- اسے لامحالہ کہیں نہ کہیں مذاکرات کرنا ہوں گے اور کسی مرحلے پر پلٹ کر ان ہی جنگ جوؤں سے بات کرنا ہوگی جسے وہ اپنا دشمن گردانتا ہے-
اسرائیل کے لیے بھی یہ ایک اچھا موقع ہے کہ حماس اسے دس سال تک جنگ بندی کرنا چاہتی ہے- حماس کی قیادت اب بھی اور اس سے قبل بھی یہ کہہ چکی ہے وہ اسرائیل کے ساتھ طویل جنگ بندی کے لیے تیار ہیں- اگر اسرائیل حماس کی اس تجویز پر جواسے بعد میں بھی تسلیم کرنا ہوگی بر وقت عمل درآمد کر لیتا ہے تومشرق وسطی کے مسائل حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے- عین ممکن ہے یہی طویل جنگ بندی ہی فریقین کے تمام تنازعات کے خاتمے کا باعث بنے-
اسرائیل فلسطین معاہد جنگ بندی کی کامیابی کس حد تک یقینی ہے، دونوں ممالک کے سیاست دان اور عوام کیا رائے رکھتے ہیں اور عالمی سطح پر اسے کس نظر سے دیکھا جار ہا ہے، یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات اس معاہدے کی حیثیت کی صحیح پیش بینی کر سکتے ہیں-
فریقین بذات خود بھی معاہدے کی کامیابی سے دعووں سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں اور خیال یہ ہے کہ چھ ماہ کے بجائے چھ ہفتوں کے اندر اندر معاہدے کے ختم ہونے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو جائیں گی- فریقین کا لب ولہجہ اس امر کا بین ثبوت ہے یہ معاہدہ دیر پاثابت نہیں ہوگا، بلکہ خون خرابے کی سیاست ایک بار پھر برگ وبار لانا شروع کردے گی- حماس اور دیگر فلسطینی جماعتوں کی جانب سے یہ یقین دہانی ضرور کرائی گئی ہے کہ وہ معاہدے کی پاسداری کریں گی، معاہدے کی کامیابی کا تمام تر دارو مدار اسرائیل پر ہے- فلسطینی جماعتیں یہ دیکھیں گی کہ اسرائیل کب تک اس معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد کرتا ہے-
حماس کے راہنما عزت رشق نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جنگ بندی محض’’وقفہ رام‘‘ ہے، کیونکہ اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ ان کی اتنی طویل ہو سکتی ہے جتنی اب تک ہو چکی ہے-انہوں نے کہا کہ سیز فائر کا وقفہ چھریاں تیز کرنے کے مترادف ہے- اسرائیل کی جانب سے ذرا سی خلاف ورزی پر یہ معاہدہ آپ سے آپ ٹوٹ جائے گا اور فلسطینی مجاہدین اس جوابی کارروائی میں اپنا کام شروع کردیں گے-
دوسری جانب اسرائیلی ارباب اختیار معاہدے کے حوالے سے دو حصوں میں تقسیم ہیں- وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے معاہدہ صلح پر دستخط کر دیے ہیں تاہم اسرائیل کے حکمراں اتحاد میں شامل کئی انتہا پسند مذہبی سیاسی جماعتوں اور اسرائیلی اپوزیشن نے بھی اسے کو مسترد کردیا ہے-اسرائیلی اپوزیشن لیڈر بنیامین نیتن یاھو نے معاہدے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اسرائیلی عوام اور دیگر سیاسی جماعتوں کا معاہدے کی پاسداری سے کوئی تعلق نہیں، حکومت کو حماس سے صلح کے بجائے اسے حملہ کر کے ختم کر دینا چاہیے- اس سے قبل اسرائیلی خفیہ ادارے ،فوج اور سیاسی جماعتیں جنگ بندی کو ناکام بنانے کے لیے یہ بہانہ بناتے رہے ہیں کہ فائر بندی کے نتیجے میں حماس مضبوط ہو گی- اس کے علاوہ یگر مزاحمت کار بھی اسرائیل پر حملے کے لیے مزید تیاری کر لیں گے، لہذا حکومت جنگ بندی کی حماقت نہ کرے-
معاہد ے سے متعلق اسرائیلی قیادت میں اختلافات اس حد تک گہرے ہیں کہ نائب وزیر اعظم شائول موفاز جن کے پاس وزارت مواصلا ت کا اضافی چارج بھی ہے نے بھی اولمرٹ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے حماس کی کامیابی قرار دیا – ان کا کہناتھا کہ اولمرٹ اور وزیر دفاع ایہود باراک نے اسرائیلی آبادیوں کو فلسطینیوں کے راکٹوں سے محفوظ کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا ہے یہ سرا سر غلط ہے اسے چند دنوں تک تو شائد یہودی آباد فائدہ اٹھا لیں لیکن جب جنگ بندی ختم ہوگی تو مزاحمت کار پوری قوت سے دوبارہ حملہ آور ہو جائیں گے- لہذا یہ جنگ بندی نہیں بلکہ حماس کو مزید تیاری کے لیے موقع فراہم کرنا ہے-
دوسری جانب ایک کثیر الاشاعتی اخبار’’یدیعوت احرونوت‘‘ کے تحت کیے گئے عوامی سروے کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا- عوامی سروے میں79 فیصداسرائیلی شہریوں نے جنگ بندی معاہدے کی کامیابی پر عدم اعتمادکا اظہارکیا – بیشتر کا کہناتھا کہ فریقین بعض مجبوریوں کے تحت جنگ بندی کے جزوی معاہدے پر متفق ہوئے ہیں، اس لیے اس معاہدے کی کامیابی اور طوالت کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا- اسرائیلی شہریوں کا خیال تھا فریقین اس وقت تک کوئی کامیاب معاہدہ نہیں کر سکتے جب تک براہ راست مذاکرات کے ذریعے وہ ایک دوسرے کو سمجھ نہیں لیتے –
یہ امر اپنی جگہ امر واقعہ ہے کہ سیز فائر سے دونوں طرف کے عوام کو کسی حد تک ریلیف ملا ہے، اور عوام کو سکون کا سانس لینے کو موقع مل رہا ہے- لیکن اسرائیلی شہریوں کی طرح فلسطینی بھی اس جنگ بندی سے مطمئن دکھائی نہیں دیتے-معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد بی بی سی کو سے گفتگو کرتے ہوئے غزہ اور غرب اردن کے شہریوں نے کہا کہ انہوں نے ایسی بے شمار جنگ بندیاں دیکھیں ہیں، جن کے حقیقت کی دنیا میں کوئی اثرات مرتب نہیں ہو سکے- فلسطینی جماعتیں اسرائیل سے سیز فائر کا اعلان کرتیں لیکن ہم اس کے باوجود بھی محفوظ نہیں تھے – ہمیں یہودیوں بد عہدیوں پر یقین ہے اور یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ یہودی اس معاہدے پر عمل درآمد بھی کریں گے-ہم پہلے بھی حالت جنگ میں تھے اور معاہدے کے بعد بھی اسی حالت میں ہیں- اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرحدی علاقوں میں اسرائیلی فوج ہمہ وقت موجود ہے اور گاہے وہ فائرنگ بھی کرتی ہے- لڑا طیارے بھی مسلسل فضاء میں گردش کرتے رہتے ہیں، جس سے عام لوگوں کے دلوں میں بیٹھاخوف ختم نہیں ہو پا رہا-
دوسری جانب صدر محمود عباس اس جنگ بندی میں غیر جانب دار رکھائی دیتے ہیں- گو کہ انہوں نے سیز فائر معاہدے کی تعریف کی تاہم انہوں نے فریقین سے طے شدہ شرائط کے مطابق معاہدے کے پر عمل درآمد کی اپیل کی- جہاں تک خطے کی سیاست پر اس معاہدے کے اثرات کا تعلق ہے تو یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ کوئی بھی عرب ملک اسرائیل سے جنگ بندی کا مخالف نہیں- اس کا اندازہ حالیہ عارضی معاہدے سے لگایا جا سکتا ہے-سعودی عرب، شام، سوڈان نے اسے ایک خوش ئند اقدام قرار دیا-
ابھی معاہدے کی فائلوں پر دستخط ہونے چلے تھے کہ اسرائیلی صدر نے اردن میں عالمی نوبل کانفرنس میں بیشتر عرب مندوبین سے ملاقات کی – اس ملاقات میں بھی جہاں عرب لیگ نے القدس میں متنازعہ یہودی آباد کاری پر اسرائیل پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا وہیں فلسطین میں جنگ بندی کو خوش آئند اقدام بھی قرار دیا
جنگ بندی کی ناکامی کے حوالے سے ایک امکان یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے بعض خفیہ عناصر اس معاہدے کو ناکام بنا رہے ہیں-ممکن ہے کہ فریقین تو جنگ بندی پر قائم رہیں لیکن ایسے خفیہ ہاتھ جنہیں یہ سیز فائر برداشت نہیں وہ درمیان شکوک وشبہات پیدا کر کے معاہدہ ختم کر اسکتے ہیں-
حماس نے بطور ایک فریق کے اس تاثر کو کسی حد تک درست قرار دیا کہ بعض خفیہ ہاتھ جنگ بندی کو آگے بڑھنے سے روک سکتے ہیں- یہ خفیہ ہاتھ فتح پارٹی کے وہ عناصر ہیں جو حماس کے ایسے ہی دشمن ہیں جیسا اسرائیل، اس لیے دحلان گروپ کے دوبارہ منظم ہونے اور جنگ بندی میں خلل ڈالنے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا-دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں تل ابیب کے خلاف کسی قسم کی جارحانہ سر گرمی پر شک بھی گزرا تو فوج کوفیصلہ کن حملے ہدایت کردی جائے گی-
وزیر اعظم اولمرٹ نے کہا کہ حماس کے ساتھ بالواسطہ طور پر طے پانے والی جنگ بندی ایک باریک اور کمزور دھاگے سے بندھی ہوئی ہے، اسرائیل کے خلاف معمولی سی حرکت بھی اسے توڑ سکتی ہے اور اس کے بعد اگلا کام فوج کا ہوگا- اسی طرح کا لب و لہجہ وزیر خارجہ ٹسیبی لیفنی نے بھی اختیار کیا ہے-دیکھنا یہ ہے کہ یہ کچا دھاکہ کتنے دن برقرار رہ سکتا ہے اور فلسطینی عوام کے لیے یہ کب زیتون کی شاخ ثابت ہو سکتا ہے-