یہ خباثت یہودیوں میں تاریخ کے ہر دور میں رہی ہے – یہودیوں نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا- اسمگلنگ ‘ ایس ایس ڈی ‘ شراب ‘ لالچ ‘ رشوت ‘پراپیگنڈ‘ عورت اور اس قبیل کے یہودی ہتھیار ہر جگہ استعمال کرتے ہیں- قدیم تاریخ میں بھی ایسے واقعات یہودیوں کے ملتے ہیں- لیکن صرف بیسویں صدی کے چند واقعات کا ذکر کیا جاتاہے-
یہودیوں کی نظر یں فلسطین پر کافی مدت سے لگی ہوئی تھیں کہ اس پر قبضہ کیا جائے- اس سلسلے میں برطانیہ اور امریکہ کے بڑے سرمایہ داروں جوکہ یہودی تھے اور سیاسی لیڈروں کی حمایت سے تھیوڈورہرزل نے سلطنت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید سے ملاقاتیں کیں اور انہیں اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ سلطان عبدالحمید فلسطینیوں میں یہودیوں کے وطن کے قیام کے سلسلے میں انہیں کچھ مراعات دیں-
جس کے بدلے میں اس نے سلطان کو کئی ایک ترغیبات و لالچ دیئے مثلاً سلطان کے تمام قرضہ جات کی یہودی سرمایہ داروں کی طرف سے ادائیگی ‘ ترکی کے لئے ایک بحری بیڑے کی تیاری میں مدد ‘ فلسطین میں ایک اعلی یونیورسٹی کا قیام جہاں ترک طلباء یورپ جانے کی بجائے تعلیم حاصل کرسکیں اور اس کے علاوہ دوسری مالی امداد لیکن سلطان راضی نہ ہوئے-
یہودیوں نے سلطان کے دوست جرمنی کے قیصر ولیم دوم کو مختلف قسم کی ترغیبات دے کر اپنا ہمنوا بنایا چنانچہ 1898ء میں قیصر ولیم دوم نے اپنے دورہ عثمانیہ سلطنت کے دوران سلطان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن جب اسے اشارتاً آگاہ کیا گیا کہ اگر اس نے اصرار کیا تو جرمنی مجوزہ برلن بغداد ریلوے منصوبہ سے محروم ہوجائے گا- تووہ خاموش ہوگیا- اس کے بعد ہرزل نے ترک یہودی ماخام قرضو آفندی کی وساطت سے پیغام بھیجا تو سلطان نے کہاوہ اگر یہودی اپنی ساری دولت بھی میرے قدموں میں لاڈالیں تب بھی میں فلسطین میں مسلمانوں کی ایک انچ زمین یہودیوں کو دینے کا روادار نہیں – 1902
ء میں سلطان عبدالحمید نے ہرزل کو کہلا بھیجا کہ فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرنے کی مزید کوشش نہ کرے- جب تک میں زندہ ہوں اور سلطنت عثمانیہ قائم ہے فلسطین میں یہودی ریاست کا خواب پورا نہیں ہوسکتا- اس طرح یہودی سلطان کو تو رشوت دینے میں ناکام ہوگئے لیکن بین الاقوامی یہودیوں نے خلافت عثمانیہ کو سازشوں کے ذریعے ختم کردیا-
پہلی جنگ عظیم عروج پر تھی اور لارنس آف عربیہ جس کا اصلی نام تھامس لارنس تھا جو کہ پیدائشی حرامی تھا- مسلمانوں کی جاسوسی بھی کررہاتھااور ترکوں اور عربوں میں نفاق کے بیج بو رہاتھا – اس دور میں لارنس کی ایک یہودن جاسوسہ سے عرب خطے میں ملاقات ہوئی- یہ بھی امت مسلمہ کے خلاف جاسوسی کا کام کررہی تھی – یہ عربی روانی سے بولتی تھی یہ عربوں سے ملتی تو عربوں کی ہمدرد بن جاتی اور جب ترکوں سے ملتی تو ترکوں کی حمایتی بن جاتی-
یہ 30برس کے پیٹے میں تھی لیکن صحت کی وجہ سے 20سالہ دوشیزہ نظر آتی تھی- اس نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے عربوں ‘ ترکوں میں اپنے جسم فروشی کا سلسلہ شروع کیا – اس جنگ میں دس ہزار برطانوی سپاہی ترکوں کی قیدمیں آگئے تو برطانوی وزیر دفاع لارڈ کچز نے اس شعلہ جوالا دوشیزہ یہودن اور لارنس آف عریبیا کے ذریعے جوکہ یہودی سرمایہ تھا دس لاکھ پونڈ ترک جنرل خلیل پاشا جوکہ وزیر جنگ الور پاشا کا بھانجا تھا کہ رشوت پیش کی لیکن خلیل پاشا نے ہر دس لاکھ پونڈ ٹھکراتے ہوئے کہا کہ ’’بہادر قوموں کا سودا روپوں سے نہیں ہوتا- بہت سے تو فوجی کارروائی کرو اور قیدی چھڑا کر لے جائو -‘‘ یہ یہودن اسرائیلیوں نے بھیجی تھی –
یہودی اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے- جرمنی میں یہودی اتنے موثر تھے جیسے آج کل امریکہ میں موثر ہیں‘ انہوں نے فلسطین حاصل کرنے کے لئے قیصر ولیم سے سودے بازی کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے- جس پر صہیونی تحریک کے صدر ڈاکٹر ویزمین جو کہ اس زمانے میں مانچسٹر یونیورسٹی میں کیمسٹری کا پروفیسر تھا- برطانیہ کو کیمیائی راز مہیا کرنے کے بدلے برطانیہ سے یہ یقین دہانی حاصل کرلی- اس طرح کیمیاوی رازوں کو فروخت کردیا- روتھ شیلڈ خاندان کی سرمایہ کاری نے ایران اور عرب ملکوں کے درمیان اختلافات کی خلیج وسیع کردی اگرچہ شاہ ایرا ن اسرائیل کا قریبی دوست تھا-
تاہم 1950ء تک وہ اسرائیل کی کوئی مدد نہ کرسکا لیکن اس نے 1948ء میں ایرانی یہودیوں کو اسرائیل پہنچانے میں مدد کی تھی – جہاں اسرائیلی ریاست کے قیام میں روتھ شیلڈ خاندان نے کردار ادا کیا وہاں شاہ ایران نے بھی اسرائیلی ریاست کو یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا – محمد رضا پہلوی اور روتھ شیلڈ خاندان کے درمیان دوستانہ تعلقات تھے-
جس کی وجہ سے ایران اور اسرائیل کی دوستی مضبوط بنیادوں پر استوار ہوئی-
1948ء میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ایران میں مقیم لاکھوں یہودیوں کو ایرانی حکومت نے اسرائیل جانے کی اجازت دی تھی تاکہ وہ مستحکم اسرائیل کے لئے کام کریں نیز حکومت نے اسرائیلی خفیہ سروس موساد کو ایران میں دفاتر کھولنے کی اجازت دی تھی تاکہ یہودیوں کی واپسی کے عمل کو تیز کیا جائے- غرض یہ کہ ایران نے عربوں کی مخالفت کی اور اسرائیل کی حمایت کی- دوسری طرف اسرائیل نے ایرانی وزیراعظم محمد ساعد جوکہ فری میسن تھا کو ایک خطیر رقم غالباً پچاس ہزار ڈالر رشوت دے کر ان سے اسرائیل کو تسلیم کروایا بعد میں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے اور مختلف شعبوں میں تعاون جاری رہا-
1950ء میں اسرائیلی حکومت نے شاہ ایران کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے چار لاکھ ملین ڈالرز امداد دی- یہ امداد موساد کے اہلکار آدم کے ذریعے ادا کی گئی اور یوں شاہ ایران نے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے ایران میں اسرائیلی سفارتخانے کو کام کرنے کی اجازت دے دی جس زمانے میں شاہ ایران نے چار لاکھ ملین ڈالرز کے بدلے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اس وقت سے 1978ء تک موساد ‘ سی آئی اے امریکن اور برطانوی M1-6کے ایجنٹ ایران میں سیاہ و سفید کے مالک تھے اور انہوں نے ایران کو جکڑ رکھاتھا- علاوہ انہوں نے ایران میں بیٹھ کر ہمسایہ ملکوں خاص کر موساد نے عرب ملکوں سے بہت کچھ حاصل کیا-
واشنگٹن دنیا کا عجیب وغریب شہر ہے جو ایک لحاظ سے پوری دنیا پر اثر انداز ہوتاہے – یہاں پر یہودی لابی کی حکمرانی ہے- ایپیک اسرائیلی لابی کا ایک حصہ ہے- یہ لابی بے حد موثر منظم اور طاقتور گروپ جو امریکی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتاہے اس لابی کے سربراہ کو وہائٹ ہائوس میں مدعو کیاجاتاہے- یہاں تک کہ ایک غیر منتخب فرد کو سرکاری کمیٹیوں میں شامل کرلیا جاتاہے-
1982ء میں امریکن صدر ریگن نے ایک یہودی مسٹر ڈائن کو غیر ملکی امداد کی کمیٹی میں شامل کیا- یہ سرکاری کمیٹی تھی یہ غیر منتخب اور غیر نمائندہ اور یہ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ واقعہ ہواتھا-
امریکہ میں یہودی صرف سینیٹروں اور ایوان نمائندگان کو ہی رشوت نہیں دیتے بلکہ امریکی صدور کو بھی رشوت دینے سے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے- جب کینیڈی انتخاب جیت گیا تو رات کے پچھلے پہر نیو یارک کے چند انتہائی دولت مند یہودی اس کے پاس آئے اور انتہائی خطیر رقم پیش کی اور کہا کہ اس رقم کے عوض امریکی خارجہ پالیسی کا اختیار یہودیوں کو سونپ دیا جائے-
کینیڈی کے لیے یہ پیشکش حیران کن تھی- اس نے اپنے ایک صحافی دوست سے کہا ’’اس پیشکش پر میں نے شدت سے ذاتی توہین محسوس کی اور میرے لیے یہ حیران کن بات تھی کہ کوئی شخص یا گروپ امریکی صدر کو بھی اس انداز سے رشوت دینے کی کوشش کرسکتا ہے-
مشرف پرویز کے دور حکومت (ق) لیگ کے دور حکومت میں پرویز مشرف، شوکت عزیز اور خورشید محمود قصوری کے تعلقات یہودیوں سے بہترین رہے ہیں اور شاید اب بھی ہوں- پرویز مشرف اور ان کے دور حکومت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی انتہائی کوشش کی گئی اور یہ جو اسلام پسندوں کا قتل عام کیا جاتا رہا ہے- لال مسجد، جامعہ حفصہ، وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہا ہے-
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں جتنے بھی امریکی سفیر آتے ہیں، خاتون ہو یا مرد ہو وہ یہودی ہوتے ہیں اور جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے جتنے بھی امریکی جنرل آج تک آئے ہیں یہودی ہی ہوتے ہیں- یہی حالت امریکی سفراء کی ہے جو پاکستان میں آئے وہ یہودی ہی ہیں- اس کی ایک خاص وجہ ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی امریکی یہودیوں اور یہودی نواز طبقوں کی طرف سے پاکستان کی مخالفت شروع ہوگئی تھی-
پاکستان تو ایشیائی خطے میں بن رہا تھا لیکن بارہ ہزار میل دور امریکیوں کو نہ معلوم کیوں تکلیف ہو رہی تھی؟ 1950ء کی بات ہے کہ ڈھاکہ مشرقی پاکستان میں ایک امریکی یہودی امریکی کاروباری فرم کا نمائندہ کچھ عرصے سے مقیم تھا اس کا نام کروک تھا لیکن باطن میں بھی دور ستم یا مسمی ثابت ہوا تھا کیونکہ رفتہ رفتہ یہ راز کھلا کہ وہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا بیج بونے میں ہمہ تن مصروف تھا-
پاکستان کی سالمیت کے خلاف اس کی ناپسندیدہ شخص قرار دے کر ملک سے نکال دیا- دوسری بات یہ ہے کہ امریکن سی آئی اے کے جتنے بھی آج تک سربراہ ہوئے ہیں وہ سب یہودی یا کرپٹ یہودی ہوتے ہیں- ابھی کل کی بات ہے کہ محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر نے اٹھارہ جون 2008ء کو کہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف اور میرے خلاف امریکی حکومت کی طرف سے دیا ہوا ایک ایجنڈا ہے- جس میں یہودی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں- جن میں ڈیوڈ البرائٹ بھی شامل ہے جو کٹر یہودی ہے-