جمعه 15/نوامبر/2024

فلسطینی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی پر مبنی یو این رپورٹ جاری

منگل 19-جولائی-2022

اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی  نے اسرائیلی کی طرف سے مسلسل اور ڈھٹائی کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے کلچر کی مذمت کی ہے اور کہا ہے اسرائیل کے اس روہے سے انسانی حقوق کو سنگین خلاف ورزیوں کو تقویت ملتی ہے۔  اقوام متحدہ کی  یہ خصوصی کمیٹی فلسطینیوں کے اسرائیل کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں،  فلسطینیوں کے خلاف اور دوسرے مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیلی کارروائیوں کی تحقیقات  کے لیے قائم کی گئی  ہے۔

کمیٹی نے یہ بات عمان کے سالانہ وزٹ کے بعد کہی ہے۔ خصوصی کمیٹی کے ارکان  کا یہ دورہ چار جولائی کو شروع ہو کر چار دن تک جاری رہا تھا۔ اس چار دن تک جاری رہنے والے مشن میں کمیٹی کے ارکان نے فلسطینی حکومت کے اعلی حکام سے ملاقاتیں کیں، اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے نمائندوں سے ملے۔ نیز فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کے علاوہ گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں کے علاقے میں بھی وزٹ کیے اور لوگوں سے براہ راست معلومات حاصل کیں۔

خصوصی کمیٹی کے ارکان نے اقوم متحدہ کے ذیلی ادارے انروا کے ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا، مارکہ پناہ گزین کیمپ کا دورہ کیا۔ ان تمام سرگرمیوں کے دوران کمیٹی کے ارکان کو افسوس رہا کہ کہیں بھی اسرائیلی حکام کا رویہ تعاون پر مبنی نہیں تھا ۔ حتی کہ اقوام متحدہ کی اس خصوصی کمیٹی کی اس درخواست کو بھی اہمیت نہ دی گئی کہ اسرائیلی حکام سے مشاورت کا موقع دیا جائے۔

اسرائیلی حکام کی طرف سے  اقوام متحدہ کی اس خصوصی کمیٹی کو مسلسل انکارکیا جاتا رہا، جس سے اقوام متحدہ کے اس مشن کو اندازہ ہوا کہ اسرائیلی حکام خود کو جوابدہی سے ماورا سمجھتے ہیں۔ جو کچھ وہ مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے ساتھ سلوک روا رکھے ہوئے ہیں اس بارے میں جواب دینے کو بھی تیار نہیں ہیں۔

 اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی کے مطابق طویل تر اسرائیلی قبضے اور جوابدہی کے احساس سے ماورا اسرائیلی رویے اور کلچر کی وجہ سے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی شہریوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق سے بہرہ ور ہونے کا امکان ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں برابری کی بنیاد پر حقوق، امن اور عظمت آدمیت کے سارے معاملے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

خصوصی کمیٹی نے بتایا اس کے دورے کی ایک اہم وجہ یہودی آباد کاروں کے فلسطینیوں کے خلاف پر تشدد سلوک کے بڑھتے ہوئے واقعات کا جائزہ لینا بھی تھا۔   اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی طرف سے فلسطینیوں کے ساتھ پر تشدد سلوک کا جائزہ لینا ، فلسطینیوں کی نظر بندیوں، اظہار رائے کے حق ، نقل و حرکت کی خلافحق کی  ورزیوں سے متعلق واقعات کے بارے میں تحقیقات کرنا تھا۔

اس دوران اسے معلوم ہوا کہ رواں سال یعنی 2022 کے ساال میں اب تک صرف مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج نے 60 فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ یہ قتل امن وامان کے چکر میں اور قانون نافذ کرنے کے نام پر کیے گئے۔ اس سے پچھلے 2021 کے اتنے دورانیے میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے  41 فلسطینیوں کی جان لی تھی۔

سپیشل کمیٹی نے  کہا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے ایک بہیمانہ انداز یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ فلسطینیوں کی مرنے کے بعد لاشیں بھی ان کے لواحقین کے حوالے نہیں کی جاتیں۔ اس سلسسلے میں 325 فلسطینیوں کی لاشیں ان کے اہل خانہ کو تدفین کے لیے نہیں دی گئی ہیں۔

اسی طرح  خصوصی کمیٹی نے نوٹ کیا گیا کہ یہودی آباد کاروں کی طرف سے بھی فلسطینیوں کے خلاف کیے جانے والے پرتشدد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ ان واقعات کے سبب فلسطینیوں کی اموات اور زخمی ہونے کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یکم جون 2021 سے 31 مئی 2022 تک 575 واقعات یہودی آباد کاروں کی طرف سے کیے گئے۔ ایک سال پہلے یہ  430  واقعات ہوئے تھے۔ تاہم مجرموں کو سزا کم ہی ملتی ہے۔                

 فلسطنیوں کے بنیادی انسانی حقو سے لے کر  حق خود اردیت تک سب حقوق کی خلاف ورزیاں اسرائیل کی ایک منظم  پالیسی کا نتیجہ ہیں۔ اس اسرائیلی مسلسل پریکٹس نے فلسطینیوں کی زندگی کے ہر پہلو اور شعبے کو متاثر کیا ہے۔ کمیٹی کے علم میں یہ بات بھی آئی کہ فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیل انتظامی احکاات کے تحت نظر بندیوں کے حربے کو بہت وسیع کر دیا گیا ہے۔ 1967 سے اب تک آٹھ لاکھ فلسطینیوں کو نظر بند کیا جا چکا ہے۔ جبکہ آج کل 640 فلسطینی جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں نظر بند ہیں۔

ان فلسطینیوں کے خلاف کوئی الزام ہے، نہ مقدمہ مگر اس کے باوجود انہیں نظر بند کیا گیا اور ان کی نظر بندی میں توسیع کی جاتی رہتی ہے۔ تشدد کا نشانہ بنایا جانا اس کے علاوہ ہے۔  نیز بیمار ہونے کی صورت میں انہیں علاج کی سہولت بھی نہیں دی جاتی ہے ۔ مزید یہ کہ فلسطینیوں کی گرفتاریوں کے بعد ان پر  تفتیش کے دوران بد ترین تشدد کیا جاتا ہے اور اذیت دی جاتی ہے۔ ایسا تشدد کیا جاتا ہے  جس کی بین الاقوامی قانون میں اجازت نہیں ہے ۔

اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مغربی کنارے  اور یروشلم میں  ناجائز یہودی بستیوں کو توسیع دینے کے لیے امتیازی منصوبہ بندی کرتے ہوئے زوننگ لاز اور فوجی قوانین کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے تاکہ فلسطینیوں کی زمین ہتھیائی جا سکے۔ مغربی کنارے کے ایریا سی پورے مغربی کنارے کے 62  فیصد حصہ  پر مشتمل ہے۔ اسرائیل نے اس کے 30 فیصد حصے کو فائرنگ رینج میں بدل دیا ہے۔ اس وجہ سے فلسطینیوں کو اپنی عمارات خالی کر جانے یا گرا کر چلے جانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں مسافر یطا کے علاقے میں بطور خاص فلسطینیوں کے گھروں اور دیگر تعمیارتی ڈھانچوں کی مسماری کے بڑھے ہوئے واقعات پر تشویش ظاہر کی ہے ۔ اس علاقے میں بھی اسرائیل نے فائرنگ زون 918 قائم کیا ہے۔ حتی کہ اسرائیلی ہائی کورٹ نے بھی اس علاقے کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ گویا ہر طرح سے فلسطینیوں سے ان کی جائیداادیں چھیننے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔

مسافر یطا میں تقریبا 1200 مقامی لوگوں کو اس طرح کی بے دخلی کا سامنا ہے۔ 1967 کی جنگ کے بعد یہ فلسطینیوں کی اپنے گھروں سے بے گھر ہونے کی سب سے بڑی اکٹھی بے دخلی ہے۔ یہ

سب کچھ بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی کر کے کیا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں کے گھروں یا دیگر تعمیات کی مسماری کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی  قرار داد نمبر 2334 میں ممانعت کی گئی ہے مگر اس کے باوجود اسرائیل من مانینں کر رہا ہے۔ کمیٹی نے رپورٹ کیا ہے کہ مغربی کنارے میں بنائی گئی یہودی بستیوں کی تعداد 279 ہے اور ان کی آبادی 700000 پر مشتمل ہے۔         

مئی 2022 میں اسرائیل نے اس علاقے میں مزید 400 سے زائد یہودی بستیوں میں نئے گھر بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس سلسلے میں تعمیرات کرنے والوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دے کر تعمیرات تیز کرائی جاتی ہیں۔ اس نئے منصوبے کی وجہ سے فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری مہم میں اضافہ ہو گیا ہے۔  2022 کے آغاز سے اب تک  387 فلسطینیوں کے مکانات یا دوسری تعمیرات کی مسماری کی جا چکی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی