اس بچے کے جواب پر ٹیچر پہلے چونکی پھر کچھ دیر سوچ کر مسکرائی اور غریب بچے کے اس جواب کو اسکا خواب قرار دیا اور سوچا کہ اچھا خواب دیکھنا ہر ایک کا حق ہے۔ٹیچر کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ اس بچے کا یہ خواب 40سال بعد سچ ثابت ہوگا۔قارئین یہ بچہ امریکہ کا حال ہی میں منتخب ہونے والا پہلا سیاہ فام صدر بارک اُوباما ہے اور ٹیچر سری مرتی ننگسی ہے جو انڈونیشیا کے ایک سرکاری پرائمری اسکول مین ٹانگ میں اس وقت اُستاد تھی جب بارک اوباما وہاں 4 سال زیر تعلیم تھا ۔
یہ وہی اسکول تھا جسکے بارے میں اوباما کی صدارتی انتخابی مہم کے دوران یہ مشہور کیا گیا کہ یہ اسکول ایک دینی مدرسہ تھا ۔ اُوباما کی یہ انڈونیشین ٹیچر اب 69سال کی ہوچکی ہیں لیکن اُوباما اور اسکی کلاس میں کارکردگی انہیں اب تک یاد ہے ۔ انتخابات کے دن اُوباما کے سابق اساتذہ، ہم جماعت اور دوست جو اسے بیری کے نام سے پکارتے تھے اسکول میں موجود تھے اور اس آٹھ سالہ سخت محنتی اور نیک طبیعت بچے کے ماضی کو یاد کرکے خوش ہورہے تھے جسکا مشغلہ کارٹون بنانا تھا۔انتخابات کی صبح اس اسکول کے 500بچے اُوباما کی کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ سے اپنے ننھے ہاتھ اُٹھا کر دعا ئیں مانگ رہے تھے ۔
4نومبر 2008کا دن امریکی تاریخ کا ایک نا قابل فراموش دن ہے جسے نہ صرف امریکی بلکہ دنیا بھر کے دیگر لوگ کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے جب کینیا کے ایک مسلمان باپ کا بیٹا امریکہ کا 44 واں اور امریکی تاریخ کا پہلا سیاہ فام صدر منتخب ہوا ۔صدر بش اور اسکی پالیسیاں ناکام ہوئیں اور امریکی عوام نے صدر مشرف کی طرح صدر بش کی جماعت اور انکی پالیسیوں کو بھی مسترد کردیا۔
اُوباما کے مد مقابل بش کی پارٹی کے صدارتی اُمیدوار مکین کو صدر بش کی پالیسیاں لے ڈوبیں اور انتخابی مہم کے دوران وہ مکین کی مدد کو بھی نہ آسکے۔ صدر بش کا یہ نعرہ کہ "جنگ کے دوران گھوڑے نہیں بدلتے”کام نہ آیا اور لوگوں نے صدر بش کو ہی بدل ڈالا۔ امریکی عوام نے بارک اُوباما کو اس لئے ریکارڈ تعداد میں ووٹ دیئے جن میں بڑی تعداد سیاہ فام اور دیگر ممالک کے امریکی شہریت رکھنے والے افراد کی تھی ۔امریکی عوام نے اُوباما کے اس نعرے کہ ” وہ تبدیلی لائے گا” کی بنیاد پر اسے بھاری اکثریت سے کامیاب کیا۔
صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد رات کو اُوباما نے اپنے 2لاکھ حامیوں سے شکاگو کے گرانڈ پارک میں تاریخی تقریر کی ۔اس تقریر کے دوران نہ تو پہلے کی طرح غبارے چھوڑے گئے نہ ہی کبوتر اُڑائے گئے اور نہ خوشی میں شیمپین کی بوتلیں کھولی گئیں۔ اُوباما نے اپنی اس تقریر میں کہا کہ امریکہ کی طاقت اسکی جنگی قوت یا دولت نہیں بلکہ امریکہ کی اصل طاقت اسکی جمہوریت ہے جس نے آج ایک سیاہ فام امریکی کو امریکہ کا صدر منتخب کیا۔تقریر کے دوران میں نے نہ صرف سیاہ فاموں بلکہ سفید فام لوگوں کو بھی روتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ سیاہ فام امریکیوں کی چال میں آج ایک مثبت تبدیلی محسوس کی جارہی ہے ۔
اوباما کی جیت پر امریکہ سے مجھے ایک مزاحیہ ایس ایم ایس وصول ہوا جس میں تحریر تھا کہ کل علی الصبح 7بجے تمام سفید فام امریکی کپاس کے کھیتوں میں کام کرنے کے لئے اپنے سیاہ فام آقاؤں کو رپورٹ کریں۔ اس تاریخی تقریر کے بعد اُوباما اپنی تھکن اُتارنے کے لئے آرام کرنے کے بجائے حسب معمول ورزش کرنے قریبی جمنازیم گئے جہاں لوگ نئے صدر کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اوباما کی کامیابی پر کینیا میں ایک دن کی سرکاری چھٹی کا اعلان کیا گیا اور اس کے آبائی گھر میں اسکے سوتیلے بہن بھائی خوشی سے ناچتے ہوئے یہ گانا گا رہے تھے کہ ہم وائٹ ہاؤس جارہے ہیں ۔
اُوباما کی جیت نے نہ صرف امریکی بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کی توقعات میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے۔توقعات پوری نہ ہونے کی صورت میں مایوسی بھی بڑے پیمانے پر ہوگی۔ امریکہ کی سیاست دو ایشوز کے گرد گھومتی ہے جن میں ایک داخلی پالیسی اور دوسری خارجی پالیسی ۔داخلی پالیسی میں تبدیلیاں متوقع ہیں جس میں صحت، بیروزگاری اورٹیکسوں میں کمی جیسے مسائل شامل ہونگے ۔
مگر میں نہیں سمجھتا کہ امریکہ کی خارجی پالیسی جس میں عراق،افغانستان، کشمیر ،فلسطین اورپاکستان کے مسائل پر کوئی بڑی تبدیلی متوقع ہے کیونکہ امریکہ کی خارجی پالیسیاں طویل مدتی ہوتی ہیں اور شخصیات کے بدلنے سے ان میں کوئی فرق نہیں پڑتا یہ پالیسیاں ادارے تشکیل دیتے ہیں جن میں سی آئی اے، پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں۔اس کی ایک واضح مثال اُوباما کی جیت کے فوراً بعد انکی جانب سے وائٹ ہاؤس کے انتہائی طاقت ور عہدے چیف آف اسٹاف کے لئے ایک متعصب یہودی امینول کی تقرری ہے۔
یہ ممکن نہیں کہ امریکی صدر یہودی لابی کے چنگل سے نکل سکے۔ اسی طرح انہوں نے ایک بھارتی نژاد سونال شاہ جو بھارت کے انتہا پسند پارٹی وشوا ہری پرشانت (جس کی اسٹوڈنٹ ونگ بجرنگ دَل ہے) کے امریکہ میں کو آرڈینیٹر کو اپنا مشیر مقرر کیا ہے واضح ہو یہ انتہا پسندپارٹی بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہے اور انکے ہوتے ہوئے مسلمانوں کے متعلق امریکی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔اُوباما کا ایران کے بارے میں بھی سخت بیان کہ ایران ایک ایٹمی طاقت کے طورپر نا قابل قبول ہے۔ اس کے رد عمل میں ایرانی اسپیکر نے کہا ہے کہ یہ بیان اوباما کی غلط اننگ کی شروعات ہے اسی طرح اوباما کا مشرقی یورپ میں میزائل شیلڈ کے منصوبے پر عمل پیرا ہونا بش کی پالیسیوں کے تسلسل کو ظاہر کرتا ہے ۔
پاکستان میں انتخابات کے چند دنوں بعد صدر اور وزیر اعظم اپنے عہدے کا حلف اُٹھالیتے ہیں اور پہلی پریس کانفرنس میں داخلی اور خارجی پالیسی پر بیان دینا شروع کردیتے ہیں جس پر انہیں اس وقت عبور حاصل نہیں ہوتا جبکہ اس کے برعکس امریکہ میں نئے صدر اُوباما 20جنوری کو صدارت کا حلف اُٹھائیں گے۔ یہ دو ماہ کا وقفہ اس لئے دیا جاتا ہے تا کہ اس دوران نئے منتخب صدر کو مختلف اداروں کی جانب سے امریکی قومی پالیسیوں اور انٹیلی جنس کے متعلق بریفنگ دی جاتی ہے تاکہ وہ قومی اُمور کے متعلق آگاہی حاصل کرسکیں اسی طرح سابق انتظامیہ نئی آنے والی انتظامیہ کو تمام منصوبوں سے آگاہ کرتی ہے جس پر وہ کام کررہی ہوتی ہے۔
انتخابی مہم کے دوران امریکہ کے ایک معروف اخبار میں اوباما کا ایک کارٹون چھپا جس میں اسے اُسامہ بن لادن کی طرز پر لباس میں ملبوس اور داڑھی رکھے ہوئے اور اسکی بیوی کو ہاتھ میں گن لیئے ہوئے دہشت گرد کے طور پر دکھایا گیا۔آنے والے وقت میں بھی یہودی لابی کے اس طرح کے حربے اسکے لئے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں اس لئے روز صبح اُٹھ کر اسے امریکیوں کو یہ باور کروانا پڑے گا کہ اس کے دل میں مسلمانوں کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔
امریکہ کے نو منتخب صدر اُوباما کو دوجنگیں،سخت خطرے میں دنیا اور صدی کا سب سے بڑا اقتصادی بحران صدر بش سے ورثے میں ملا ہے۔امریکی معیشت کی بحالی اُوباما کے لئے بہت بڑا چیلنج ہوگی۔اگر اُوباما بش کی جنگی پالیسیوں کو جاری رکھتے ہیں تو امریکی معیشت ان جنگی اخراجات کو برداشت نہیں کرسکے گی اور امریکہ مزید زوال کا شکار ہوجائیگا۔
ان دو جاری جنگوں،گوانتا ناموبے اور بگرام ایئر بیس جیسی بدنام زمانہ جیلوں سے دنیا بھر میں امریکہ کا امیج بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اگر اُوباما واقعی تبدیلی چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے ان بدنام جیلوں کو بند کرکے انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ ختم کرنا چاہئے جسکا انہوں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران اس کا وعدہ بھی کیا تھا ۔ نئی امریکی حکومت پاکستان میں عوام کی منتخب پارلیمنٹ کے فیصلوں اور پاکستان کی سالمیت کا احترام کرے اور سرحدی علاقوں میں ہونے والے حملوں کو فوراًبند کرے اور اوباما مسئلہ کشمیر کو حل کروانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں دو شخصیات کے درمیان ملکی معاملات طے ہوتے تھے نہ کہ دو قوموں کے درمیان ۔ اُمید ہے کہ آنے والے وقت میں یہ دوستی شخصیتوں کے درمیان نہیں بلکہ قوموں کے درمیان ہوگی ۔