اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی شرانگیزیوں سے عرب اور مسلم ممالک کبھی بھی محفوظ نہیں رہے – اس کا دائرہ کار پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے – موساد یہودی پناہ گزینوں کی مخفی تحریکوں کا بھی ذمہ دار ہے – جو شام‘ ایران اور ایتھوپیا کے باہر موجود ہیں – مغرب اور اقوام متحدہ میں موجود کئی سابقہ کیمونسٹ ممالک میں موساد کے ایجنٹ متحرک ہیں موساد کاہیڈ کوارٹر تل ابیب میں ہے – 1980ء میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق اس تنظیم کے اراکین کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے دو ہزار کے قریب تھی مگر حالیہ دنوں میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق اس کے خاص اراکین کی تعداد 35ہزار ہے جن میں سے 20ہزار متحرک ایجنٹ ہیں اور 15ہزار غیر متحرک ایجنٹ ہیں جنہیں ضرورت پڑنے پر کام میں لایا جاتاہے –
تنظیم سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کے لئے ضروری ہے کہ عوامی سطح پر اس کی شناخت نہ ہو لہذا موساد کے ڈائریکٹر کے لئے یہ شرط زیادہ کڑی سمجھی جاتی رہی ہے ‘ مگر مارچ 1996ء میں اسرائیلی حکومت نے میجر جنرل ڈینی یاطوم کی شبتائی شادت کی جگہ تقرری کا باقاعدہ اعلان کیا – شبتائی نے 1996ء کے آغاز میں اپنے عہدے سے استعفی دے دیاتھااس تنظیم کو عام طور پر مرکزی ادارہ برائے اتحاد مرکزی ادارہ برائے حفاظت اور اطلاعات کے طور پر جانا جاتاہے –
موساد یکم اپریل 1951ء کو وجود میں آئی اس کو اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے بنایاتھا جن کا کہناتھاکہ اس تنظیم کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ اسرائیل کے اردگردکیا ہو رہاہے – بظاہر اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لئے بنائی جانے والی یہ تنظیم اس وقت دنیا بھر میں دہشت گردی پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہی ہے – اس تنظیم کے آٹھ ڈیپارٹمنٹ ہیں اگرچہ اس تنظیم سے متعلق بہت سی باتیں ابھی بھی مخفی ہیں کولیکشن ڈیپارٹمنٹ اس کا سب سے بڑا شعبہ ہے جس کی ذمہ داری میں بیرون ممالک سرکاری دفاتر اور سفارتخانوں کی جاسوسی شامل ہے یہ شعبہ مختلف ڈیسکو پر مشتمل ہے جس پر ایک مخصوص جغرافیائی علاقے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے – دنیا بھر میں پھیلے جاسوس اسے کنٹرول کرتے ہیں سال 2000ء کے آغاز میں موساد نے کولیکشن آفیسرز کی بھرتی کے لئے باقاعدہ اشتہار دیاتھا-
پولیٹیکل ایکشن اینڈ لائسنس ڈیپارٹمنٹ کے نام سے موساد ایک اور شعبے کا کام غیر ملکی خفیہ سروس کے ساتھ دوستی اور سیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہے اور ایسے ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ان کے ساتھ میل ملاپ بڑھانا ہے تاکہ ان ممالک سے ان کے ایجنٹ مفید معلومات اکٹھی کرسکیں – سپیشل آپریشن ڈویژن میں موجود اراکین انتہائی حساس قتل کرنے ‘ تباہی و بربادی کی تحریکیں چلانے ‘ پیر ملٹری اور نفسیاتی جنگ و جدل کے منصوبوں پر کام کرنے پر مامور کئے جاتے ہیں – لیپ ڈیپارٹمنٹ نفسیاتی جنگ و جدل‘ پراپیگنڈہ اور دھوکہ دہی جیسے امور پر کام کرتاہے موساد کا ایک اور شعبہ ہے جو تحقیق سے وابستہ ہے اور اسے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کا نام دیا گیا ہے جس کی ذمہ داری میں روزانہ کی صورتحال کی رپورٹ ‘ ہفتہ وارانہ اور ماہانہ رپورٹیں شامل ہیں یہ شعبہ 15جغرافیائی سیکشنوں (ڈیسک) میں تقسیم ہے جن میں امریکہ‘ کینیڈا ‘مغربی یورپ‘ لاطینی امریکہ‘ سابق سوویت یونین‘ چین‘ افریقہ مراکو‘ الجیریا‘ تیونس‘ لیبیا‘ عراق‘ اردن‘ شام‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور ایران شامل ہیں – ایک ’’نیوکلیئر نامی ڈیسک بھی یہیں موجود ہے جس کا کام دنیا بھر کے نیوکلیائی ایشوز پر توجہ مبذول کرناہے –
ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کا کام جدید ٹیکنالوجی جوکہ موساد کے مختلف آپریشنز میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہو حاصل ہو کرناہے – اپریل2001ء میں موساد نے اخبار میں ’’مدد چاہیے‘‘ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیاتھا جس میں الیکٹرونکس انجینئر اورکمپیوٹر سائنسدان مانگے گئے تھے جو موساد کے ٹیکنالوجی یونٹ کو چلا سکیں – اسرائیل دنیا بھر کی کئی اہم شخصیات کے قتل کی سازشوں میں ملوث رہاہے – حماس کے راہنما خالد مشعل کو بھی موساد نے زہر دے کر قتل کرنے کی کوشش کی تھی‘ اہم فلسطینی رہنماؤں کے قتل میں اس تنظیم کا ہاتھ رہاہے جس میں احمد یاسین اور یاسرعرفات جیسے اعلی پائے کے لیڈر بھی شامل ہیں دنیا بھر کے کئی اغوا ‘دھماکے اور سیاسی ہنگاموں کے پیچھے بھی موساد کے ایجنٹ کارفرماہوتے ہیں –
گزشتہ کچھ عرصہ سے موساد کی سازش تحریک کا محور عراق بنا ہوا ہے عراق میں موساد کی کارروائیوں کے حوالے سے بہت سے حقائق سمنے آ چکے ہیں عراق میں موساد کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں کوئی نیا واقع نہیں ہے بلکہ جس وقت صدر بش نے عراق پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیاتھا اس وقت سے اسرائیل عراق میں سرگرم ہے عراق میں بڑھتی ہوئی خون ریزی اور روز کے پر تشدد واقعات کے تعلق سے اخبارات میں جو کچھ شائع ہوتاہے امریکہ انہیں القاعدہ یا لسانی و گروہی تصادم کا رنگ دے کر پیش کرتاہے لیکن حالیہ دنوں میں مختلف شواہد کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عراق میں جاری دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیچھے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ ہے –
موساد کی جانب سے ان کارروائیوں کا جہاں ایک مقصد بے گناہ عراقیوں کو تشدد کا نشانہ بنانا ہے وہیں دوسری طرف ان عراقی مزاحمتی تحاریک کو بے اثرکرنا بھی شامل ہے تاکہ عوامی اعتماد کو مجروح کیا جاسکے – دلائل اور شواہد کی ورشنی میں یہ بات پائے ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ موساد امریکہ کی قبضہ گیر افواج کے اشتراک سے عراق میں زبردست خون خرابہ کررہی ہے کسی ایک گروہ کے خلاف پر تشدد کارروائیاں انجام دے کر موساد دوسرے گروہ میں عداوت کے جذبات بھڑکارہی ہے تاکہ شیعہ سنی آپس میں باہم دست و گریبان ہوجائیں – موساد عراق میں فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کی پالیسی پر گامزن ہے تاکہ عراق میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہوجائے اور خانہ جنگی کی آگ پورے عراق کو اپنی لپیٹ میں لے لے چنانچہ اس وقت عراق میں وسیع پیمانے پر جاری نسل تطہیر موساد کی طویل کوششوں کا نتیجہ ہے –
اسرائیل اپنے اس اقدام کے ذریعے ایک تیرسے کئی شکار کرنے کا خواں ہے – پر تشدد کارروائیوں کے ذریعے اسرائیل پہلا مقصد یہ حاصل کرنا چاہتاہے کہ عراق کی تاریخی سرزمین میں جو تاریخی لحاظ سے اسرائیل کے لئے کافی اہمیت کی حامل ہے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے – مسلکی اور گروہی تنازعات کو بنیاد بنا کر اس کو منظر سے غائب کردیا جائے – اسرائیل کے لئے عراق کی تقسیم انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کے بغیر نیل سے فرات تک عظیم تر اسرائیلی سلطنت کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا – اسرائیل عراق کے حصے بخرے کرنے یک لئے امریکہ کو بھرپور طریقہ سے استعمال کررہاہے – اس ضمن میں امریکہ میں عراق کی تقسیم سے متعلق قرار داد بھی منظور کی جاچکی ہے – جس کے مطابق عراق کا ایک حصہ سنی طبقہ کا ہوگا دوسرا شیعہ اور تیسرا کرد قبائل کو دیا جائے گا –
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر کوئی غاصب ملک کس طرح خود مختارملک کی تقسیم کا حق رکھتاہے – امریکہ کی اس ضمن میں ساری کوششیں اسرائیل کے لئے ہیں کیونکہ وہ چاہتاہے کہ ہر وہ ملک جو مستقبل میں اسرائیل کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتاہے اس کو طاقت کے ذریعے ختم کردیاجائے- عراق میں جاری شورش کا تیسرا اہم مقصد یہ ہے کہ عراق پڑوسی ممالک کے خلاف اسرائیلی جاسوس کا ایک اہم ٹھکانہ ثابت ہوگا – موساد کے اہلکاروں کے لئے عراقی سرحدوں میں قائم اپنے جاسوسی کرنا آسان ہوگا خاص طور پر اسرائیل کے دشمن ممالک شام ‘ ایران اور حزب اللہ کے خلاف جاوسی سرگرمیاں ممکن ہوں گی –
عراق میں موساد کو سرگرم رکھنے کا یہ ایک اہم مقصد ہے انہی وجوہات کی بناء پر اسرائیل عراق میں اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرتا جا رہاہے – عراق میں اسرائیلی سرگرمیوں میں آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے – کسی بھی تجزیہ نگار کے لئے عراق میں جاری اسرائیل کی وسیع تر سرگرمیوں کی وسعت کا احاطہ کرنا ممکن نہیں عراق میں اسرائیل کی وسیع تر سرگرمیوں کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اس وقت عراق میں 25سے زائد اسرائیل کی فوجی و اقتصادی کمپنیاں قائم ہیں دیگر شعبوں میں بالواسطہ طور پر مختلف ناموں سے کام کرنے والی اسرائیلی کمپنیوں کی تعداد حد شمار سے باہر ہے -یہ تمام کمپنیاں موساد کے لئے ڈھال کا کام کررہی ہیں – اس ضمن میں ایک بھارتی اخبار نے لکھاہے کہ عراق میں جاری اسرائیلی سرگرمیوں کی حقیقت تک رسائی کے لئے ماضی کا احاطہ کرنا ضروری ہے – ستمبر2003ء میں ایک عراقی سفارتکار نے اسرائیل میں ایک اسرائیلی صنعت کار کے یہاں بطور مہمان قیام کیاتل ابیب میں قائم پلاسٹک مصنوعات کی ایک نمائش کے موقع پر عراقی سفارتکار کا قیام ٹسفی منطینی نامی اسرائیلی صنعت کار کے پاس ہوا عراق میں امریکی یلغار کے بعد سے یہ سفارتکار مسلسل اسرائیل کے دورے کررہا ہے –
یہ شخص اپنے دوروں میں اسرائیل کے مختلف سیاسی قائدین سے ملاقات کرتاہے اور ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر معاہدے کرتاہے – ظاہر ہے کہ یہ کوئی عراقی قائد ہی ہوسکتاہے جو امریکہ کے اشارے پر سفارتی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے- حالیہ دنوں میں اس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ مارک زال نامی ایک اسرائیلی وکیل جو اسرائیل میں حکمران لیکوڈ پارٹی سے قریبی روابط رکھتاہے – عراق میں جاری عالمی سرمایہ کاری پر اس کا کنٹرول ہے عراقی حکومت سے قریبی روابط رکھنے والی عراقی کمپنی کے مشیر کی حیثیت سے اس کا تقرر عمل میں آیا ہے اسرائیل کی کمپنیوں کے عہدیدار عراق میں مقیم اسرائیلی وکیل مارک زال کے توسط سے اپنی کمپنیوں کی مصنوعات عراق میں کھپت کرتی ہیں –
اسرائیل عراق میں متعدد سیاسی نوعیت کے اہم مقاصد کی تکمیل کے لئے کوشاں ہیں جن میں سب سے اہم عراق تا اسرائیل پٹرول اور پانی کی پائٹ لائن ہے تاکہ اسرائیل کے پانی اور پٹرول کی قلت پر قابو پایا جاسکے – اسرائیل موساد کے ذریعے دنیا بھر میں اپنے پنجے گاڑنا چاہتاہے تاکہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرسکے-
تنظیم سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کے لئے ضروری ہے کہ عوامی سطح پر اس کی شناخت نہ ہو لہذا موساد کے ڈائریکٹر کے لئے یہ شرط زیادہ کڑی سمجھی جاتی رہی ہے ‘ مگر مارچ 1996ء میں اسرائیلی حکومت نے میجر جنرل ڈینی یاطوم کی شبتائی شادت کی جگہ تقرری کا باقاعدہ اعلان کیا – شبتائی نے 1996ء کے آغاز میں اپنے عہدے سے استعفی دے دیاتھااس تنظیم کو عام طور پر مرکزی ادارہ برائے اتحاد مرکزی ادارہ برائے حفاظت اور اطلاعات کے طور پر جانا جاتاہے –
موساد یکم اپریل 1951ء کو وجود میں آئی اس کو اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے بنایاتھا جن کا کہناتھاکہ اس تنظیم کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ اسرائیل کے اردگردکیا ہو رہاہے – بظاہر اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لئے بنائی جانے والی یہ تنظیم اس وقت دنیا بھر میں دہشت گردی پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہی ہے – اس تنظیم کے آٹھ ڈیپارٹمنٹ ہیں اگرچہ اس تنظیم سے متعلق بہت سی باتیں ابھی بھی مخفی ہیں کولیکشن ڈیپارٹمنٹ اس کا سب سے بڑا شعبہ ہے جس کی ذمہ داری میں بیرون ممالک سرکاری دفاتر اور سفارتخانوں کی جاسوسی شامل ہے یہ شعبہ مختلف ڈیسکو پر مشتمل ہے جس پر ایک مخصوص جغرافیائی علاقے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے – دنیا بھر میں پھیلے جاسوس اسے کنٹرول کرتے ہیں سال 2000ء کے آغاز میں موساد نے کولیکشن آفیسرز کی بھرتی کے لئے باقاعدہ اشتہار دیاتھا-
پولیٹیکل ایکشن اینڈ لائسنس ڈیپارٹمنٹ کے نام سے موساد ایک اور شعبے کا کام غیر ملکی خفیہ سروس کے ساتھ دوستی اور سیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہے اور ایسے ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ان کے ساتھ میل ملاپ بڑھانا ہے تاکہ ان ممالک سے ان کے ایجنٹ مفید معلومات اکٹھی کرسکیں – سپیشل آپریشن ڈویژن میں موجود اراکین انتہائی حساس قتل کرنے ‘ تباہی و بربادی کی تحریکیں چلانے ‘ پیر ملٹری اور نفسیاتی جنگ و جدل کے منصوبوں پر کام کرنے پر مامور کئے جاتے ہیں – لیپ ڈیپارٹمنٹ نفسیاتی جنگ و جدل‘ پراپیگنڈہ اور دھوکہ دہی جیسے امور پر کام کرتاہے موساد کا ایک اور شعبہ ہے جو تحقیق سے وابستہ ہے اور اسے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کا نام دیا گیا ہے جس کی ذمہ داری میں روزانہ کی صورتحال کی رپورٹ ‘ ہفتہ وارانہ اور ماہانہ رپورٹیں شامل ہیں یہ شعبہ 15جغرافیائی سیکشنوں (ڈیسک) میں تقسیم ہے جن میں امریکہ‘ کینیڈا ‘مغربی یورپ‘ لاطینی امریکہ‘ سابق سوویت یونین‘ چین‘ افریقہ مراکو‘ الجیریا‘ تیونس‘ لیبیا‘ عراق‘ اردن‘ شام‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور ایران شامل ہیں – ایک ’’نیوکلیئر نامی ڈیسک بھی یہیں موجود ہے جس کا کام دنیا بھر کے نیوکلیائی ایشوز پر توجہ مبذول کرناہے –
ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کا کام جدید ٹیکنالوجی جوکہ موساد کے مختلف آپریشنز میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہو حاصل ہو کرناہے – اپریل2001ء میں موساد نے اخبار میں ’’مدد چاہیے‘‘ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیاتھا جس میں الیکٹرونکس انجینئر اورکمپیوٹر سائنسدان مانگے گئے تھے جو موساد کے ٹیکنالوجی یونٹ کو چلا سکیں – اسرائیل دنیا بھر کی کئی اہم شخصیات کے قتل کی سازشوں میں ملوث رہاہے – حماس کے راہنما خالد مشعل کو بھی موساد نے زہر دے کر قتل کرنے کی کوشش کی تھی‘ اہم فلسطینی رہنماؤں کے قتل میں اس تنظیم کا ہاتھ رہاہے جس میں احمد یاسین اور یاسرعرفات جیسے اعلی پائے کے لیڈر بھی شامل ہیں دنیا بھر کے کئی اغوا ‘دھماکے اور سیاسی ہنگاموں کے پیچھے بھی موساد کے ایجنٹ کارفرماہوتے ہیں –
گزشتہ کچھ عرصہ سے موساد کی سازش تحریک کا محور عراق بنا ہوا ہے عراق میں موساد کی کارروائیوں کے حوالے سے بہت سے حقائق سمنے آ چکے ہیں عراق میں موساد کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں کوئی نیا واقع نہیں ہے بلکہ جس وقت صدر بش نے عراق پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیاتھا اس وقت سے اسرائیل عراق میں سرگرم ہے عراق میں بڑھتی ہوئی خون ریزی اور روز کے پر تشدد واقعات کے تعلق سے اخبارات میں جو کچھ شائع ہوتاہے امریکہ انہیں القاعدہ یا لسانی و گروہی تصادم کا رنگ دے کر پیش کرتاہے لیکن حالیہ دنوں میں مختلف شواہد کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عراق میں جاری دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیچھے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ ہے –
موساد کی جانب سے ان کارروائیوں کا جہاں ایک مقصد بے گناہ عراقیوں کو تشدد کا نشانہ بنانا ہے وہیں دوسری طرف ان عراقی مزاحمتی تحاریک کو بے اثرکرنا بھی شامل ہے تاکہ عوامی اعتماد کو مجروح کیا جاسکے – دلائل اور شواہد کی ورشنی میں یہ بات پائے ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ موساد امریکہ کی قبضہ گیر افواج کے اشتراک سے عراق میں زبردست خون خرابہ کررہی ہے کسی ایک گروہ کے خلاف پر تشدد کارروائیاں انجام دے کر موساد دوسرے گروہ میں عداوت کے جذبات بھڑکارہی ہے تاکہ شیعہ سنی آپس میں باہم دست و گریبان ہوجائیں – موساد عراق میں فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کی پالیسی پر گامزن ہے تاکہ عراق میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہوجائے اور خانہ جنگی کی آگ پورے عراق کو اپنی لپیٹ میں لے لے چنانچہ اس وقت عراق میں وسیع پیمانے پر جاری نسل تطہیر موساد کی طویل کوششوں کا نتیجہ ہے –
اسرائیل اپنے اس اقدام کے ذریعے ایک تیرسے کئی شکار کرنے کا خواں ہے – پر تشدد کارروائیوں کے ذریعے اسرائیل پہلا مقصد یہ حاصل کرنا چاہتاہے کہ عراق کی تاریخی سرزمین میں جو تاریخی لحاظ سے اسرائیل کے لئے کافی اہمیت کی حامل ہے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے – مسلکی اور گروہی تنازعات کو بنیاد بنا کر اس کو منظر سے غائب کردیا جائے – اسرائیل کے لئے عراق کی تقسیم انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کے بغیر نیل سے فرات تک عظیم تر اسرائیلی سلطنت کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا – اسرائیل عراق کے حصے بخرے کرنے یک لئے امریکہ کو بھرپور طریقہ سے استعمال کررہاہے – اس ضمن میں امریکہ میں عراق کی تقسیم سے متعلق قرار داد بھی منظور کی جاچکی ہے – جس کے مطابق عراق کا ایک حصہ سنی طبقہ کا ہوگا دوسرا شیعہ اور تیسرا کرد قبائل کو دیا جائے گا –
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر کوئی غاصب ملک کس طرح خود مختارملک کی تقسیم کا حق رکھتاہے – امریکہ کی اس ضمن میں ساری کوششیں اسرائیل کے لئے ہیں کیونکہ وہ چاہتاہے کہ ہر وہ ملک جو مستقبل میں اسرائیل کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتاہے اس کو طاقت کے ذریعے ختم کردیاجائے- عراق میں جاری شورش کا تیسرا اہم مقصد یہ ہے کہ عراق پڑوسی ممالک کے خلاف اسرائیلی جاسوس کا ایک اہم ٹھکانہ ثابت ہوگا – موساد کے اہلکاروں کے لئے عراقی سرحدوں میں قائم اپنے جاسوسی کرنا آسان ہوگا خاص طور پر اسرائیل کے دشمن ممالک شام ‘ ایران اور حزب اللہ کے خلاف جاوسی سرگرمیاں ممکن ہوں گی –
عراق میں موساد کو سرگرم رکھنے کا یہ ایک اہم مقصد ہے انہی وجوہات کی بناء پر اسرائیل عراق میں اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرتا جا رہاہے – عراق میں اسرائیلی سرگرمیوں میں آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے – کسی بھی تجزیہ نگار کے لئے عراق میں جاری اسرائیل کی وسیع تر سرگرمیوں کی وسعت کا احاطہ کرنا ممکن نہیں عراق میں اسرائیل کی وسیع تر سرگرمیوں کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اس وقت عراق میں 25سے زائد اسرائیل کی فوجی و اقتصادی کمپنیاں قائم ہیں دیگر شعبوں میں بالواسطہ طور پر مختلف ناموں سے کام کرنے والی اسرائیلی کمپنیوں کی تعداد حد شمار سے باہر ہے -یہ تمام کمپنیاں موساد کے لئے ڈھال کا کام کررہی ہیں – اس ضمن میں ایک بھارتی اخبار نے لکھاہے کہ عراق میں جاری اسرائیلی سرگرمیوں کی حقیقت تک رسائی کے لئے ماضی کا احاطہ کرنا ضروری ہے – ستمبر2003ء میں ایک عراقی سفارتکار نے اسرائیل میں ایک اسرائیلی صنعت کار کے یہاں بطور مہمان قیام کیاتل ابیب میں قائم پلاسٹک مصنوعات کی ایک نمائش کے موقع پر عراقی سفارتکار کا قیام ٹسفی منطینی نامی اسرائیلی صنعت کار کے پاس ہوا عراق میں امریکی یلغار کے بعد سے یہ سفارتکار مسلسل اسرائیل کے دورے کررہا ہے –
یہ شخص اپنے دوروں میں اسرائیل کے مختلف سیاسی قائدین سے ملاقات کرتاہے اور ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر معاہدے کرتاہے – ظاہر ہے کہ یہ کوئی عراقی قائد ہی ہوسکتاہے جو امریکہ کے اشارے پر سفارتی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے- حالیہ دنوں میں اس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ مارک زال نامی ایک اسرائیلی وکیل جو اسرائیل میں حکمران لیکوڈ پارٹی سے قریبی روابط رکھتاہے – عراق میں جاری عالمی سرمایہ کاری پر اس کا کنٹرول ہے عراقی حکومت سے قریبی روابط رکھنے والی عراقی کمپنی کے مشیر کی حیثیت سے اس کا تقرر عمل میں آیا ہے اسرائیل کی کمپنیوں کے عہدیدار عراق میں مقیم اسرائیلی وکیل مارک زال کے توسط سے اپنی کمپنیوں کی مصنوعات عراق میں کھپت کرتی ہیں –
اسرائیل عراق میں متعدد سیاسی نوعیت کے اہم مقاصد کی تکمیل کے لئے کوشاں ہیں جن میں سب سے اہم عراق تا اسرائیل پٹرول اور پانی کی پائٹ لائن ہے تاکہ اسرائیل کے پانی اور پٹرول کی قلت پر قابو پایا جاسکے – اسرائیل موساد کے ذریعے دنیا بھر میں اپنے پنجے گاڑنا چاہتاہے تاکہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرسکے-