ان میں لمبی لمبی کہانیاں کہی گئی ہیں اور بعض صدارتی امیدواروں کے بارے میں خبردار بھی کیا گیا ہے تاہم اس ضمن میں، میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ معزز حضرات نے اس آدمی کو دیکھا ہے جس کا نام باراک اوباما ہے کیونکہ اس کو خاصا خوفناک بنا کر پیش کیا جاتا ہے-
لیکن اگر کوئی ان ای میلز کے حوالے سے شش و پنج یا کسی مخمصے میں مبتلا ہوگیا ہو تو میں آپ کو آج بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں جو کچھ بھی کہوں گا اپنے دل کی گہرائیوں سے کہوں گا اور اسرائیل کے سچے دوست کی حیثیت سے کہوں گا اور میں جانتا ہوں کہ میں جب آپ کی اس کانفرنس ’’اے آئی پی اے سی‘‘ میں شرکت کے لیے حاضر ہوا ہوں تو مجھے شدت کے ساتھ یہ احساس ہوا ہے کہ میں اپنے دوستوں میں آگیا ہوں، سچے دوستوں میں، اچھے دوستوں میں جو میرے اس پختہ عزم پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم امریکہ اور اسرائیل کا رشتہ ناقابل شکست بنانا چاہتے ہیں، نہ صرف آج کے لیے، نہ صرف کل کے لیے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے-
یہاں میں آپ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کی کہانی سب سے پہلے میں نے اس وقت سنی جب میں صرف گیارہ برس کا لڑکا تھا- یں نے یہودی برادری کے اس طویل اور دشوار گزار سفر کی داستان سنی جو انہوں نے اپنا عقیدہ اور اپنی شناخت قائم رکھنے کی خاطر کیا- صدیوں کا سفر لیکن اس تمام عرصہ میں یہودی لوگ اپنی روایات پر کاربند رہے اور اپنے مادر وطن تک پہنچنے کے لیے انہوں نے کیا کیا صعوبتیں نہ برداشت کیں-
اس کہانی کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا- میری پرورش ایسے انداز سے ہوئی ہے کہ مجھے اپنی آبائی جڑوں (آبائو اجداد) کی کچھ زیادہ خبر نہیں- میرے والد سیاہ فام تھے- ان کا تعلق کینیا سے تھا لیکن وہ ہمیں اس وقت چھوڑ کر چلے گئے جب میں صرف دو سال کا تھا- میری والدہ سفید فام تھیں- ان کا تعلق کنساس سے تھا جو مجھے اپنے ساتھ لے کر انڈونیشیا چلی گئیں اور وہاں سے واپس جزائر ہوائی آگئیں- مجھے پوری طرح یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ میرا اپنا تعلق کہاں سے ہے چنانچہ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے خود اپنی روحانی، جذباتی اور ثقافتی شناخت پیدا کرنی چاہیے- تب مجھے صہیونیت کے اصل نظریے کی صحیح سمجھ آئی کہ ہمارے لیے دنیا میں کہیں نہ کہیں ہمارا مادر وطن ضرور موجود ہوتا ہے-
مجھے ہولو کاسٹ کی ہولناکیوں سے بھی آگاہی ہوئی جس نے یہودیوں کو اپنے مادر وطن اسرائیل تک سفر کے لیے فوری طور پر انگیخت دی- اپنے بچپن کا زیادہ وقت میں نے اپنے دادا، دادی کے ساتھ گزارا- میرے دادا نے جنگ عظیم دوم میں حصہ لیا تھا اور دادا کے بھائی نے بھی یہ جنگ عظیم لڑی تھی- ان کا تعلق کینیا سے تھا جنہیں خواب میں بھی یہ توقع نہیں تھی کہ وہ کبھی یورپ دیکھ سکیں گے اور کئی مہینوں بعد جب وہ جرمنی سے واپس آیا تو وہ سکتے کی سی کیفیت میں تھا- وہاں ہولوکاسٹ کے جو ہولناک مناظر اس نے دیکھے تھے وہ کبھی اس کے ذہن سے محو نہ ہوسکے-
میرے دادا کے بھائی جن کا میں ذکر کررہا ہوں جھنگ عظیم کے زمانے میں 89 ویں انفنٹری ڈویژن سے وابستہ تھے- آپ کو یقینا پتہ ہوگا کہ امریکہ کی یہ پہلی فوجی رجمنٹ تھی جو نازیوں کے ’’کنسٹریشن کیمپوں‘‘ تک پہنچی اور انہوں نے 1945ء میں بعض اہم علاقے واگزار کرالیے-
نازیوں کے ہولناک عقوبت خانوں (کنسٹریشن کیمپس) کی مسماری کے چند سال بعد ڈیوڈ بن گوریان نے یہودیوں کی ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا- ہم جانتے ہیں کہ اسرائیل کا قیام نہ صرف ضروری تھا بلکہ برحق بھی تھا- جس کے پیچھے صدیوں کی جدوجہد موجود تھی اور کئی عشروں کے صبر و تحمل کا کام شامل تھا لیکن اب اس واقعے کو 60 برس کا عرصہ گزرچکا ہے اور اب ہم جانتے ہیں کہ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے اور امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد میں اسرائیل کی سلامتی کے سوال پر ہرگز ہرگز کوئی سمجھوتہ نہیں کروں گا-
بالخصوص اس صورت میں کہ آج بھی بعض آوازیں ہولوکاسٹ (یہودیوں کا قتل عام) کو جھٹلانے کی کوشش کررہی ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ دہشت گرد گروپ اور سیاسی لیڈر بھی اسرائیل کو تباہ و برباد کرنے کی بات کرتے ہیں اور مشرق وسطی میں ایسے نقشوں کی کوئی کمی نہیں جن میں اسرائیل کے وجود کی ہی نفی کردی گئی ہے- ان نقشوں میں یہ یہودی مملکت کوئی نشان ہی نہیں رکھتی جبکہ سرکاری فنڈ سے شائع کی جانے والی نصابی کتابوں میں اسرائیل کے خلاف نفرت کا زہر بھرا ہوا ہے اور یہی نہیں اسرائیل پر راکٹوں کے پے درپے حملے بھی کیے جاتے ہیں جبکہ سکول جانے والے اسرائیلی بچوں کو اس بات کا کوئی علم نہیں ہوتا کہ کہیں ان کی سکول بس دھماکے سے تو نہ اڑادی جائے گی-
مجھے اسرائیل کی طرف سے امن کی تلاش اور سلامتی کی ضرورت کا بہت طویل عرصہ سے احساس و ادراک ہے لیکن پھر بھی یہ احساس اس قدر شدید نہیں تھا جتنا کہ دو سال قبل اسرائیل کا دورہ کرنے کے بعد پیدا ہوا ہے اور اب مجھے فخر ہے کہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے کام کرنے والوں میں مجھے بھی شامل کرلیا گیا اور اسرائیل کو دی جانے والی دھمکیوں کے دفاع کرنے والوں میں بھی پیش پیش ہوں گا اور یہ ایسا عزم ہے جس پر ری پبلکن امیدوار صدارت جان میک کین اور میں دونوں کی سختی سے قائم ہیں کیونکہ امریکہ میں اسرائیل کی حمایت سیاسی پارٹیوں سے ماورا بھی موجود ہے اور ہمارے عزم میں یہ بھی شامل ہے کہ اسرائیل کی سلامتی کو جب بھی کوئی خطرہ درپیش ہو اس کے خلاف بھرپور آواز بلند کی جائے لیکن میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ امریکہ کی موجودہ خارجہ پالیسی میں اسرائیل کی سلامتی پر مناسب توجہ نہیں دی گئی-
حماس اب غزہ کو کنٹرول کررہی ہے جبکہ حزب اللہ نے جنوبی لبنان میں اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے اور اب بیروت کو بھی اپنی طاقت دکھا رہے ہیں جبکہ عراق کی جنگ میں ایران نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے- عراق غیر مستحکم ہے اور القاعدہ وہاں اپنی طاقت میں اضافہ کررہی ہے اور نئی بھرتیاں تیزی سے جاری ہیں-
اس کے نتیجے میں امن کی کوششیں جمہود کا شکار ہو رہی ہیں اور امریکہ اس خطے میں اور زیادہ تنہا ہو کر رہ گیا ہے جس سے اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرات اور زیادہ بڑھ گئے ہیں- پھر وہاں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو ساری کی ساری خرابیاں اسرائیل کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں اور اسرائیل فلسطین تنازع کو ہی تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں حالانکہ اسرائیل پورے مشرق وسطی میں واحد ملک ہے جہاں صحیح معنوں میں جمہوریت قائم ہے جبکہ باقی تمام خطہ انتہاء پسندی کی روش کا شکار ہے-(جاری ہے)