سنہ 2005ء کے دورانصیہونی قابض فوج غزہ کی پٹی کے ایک تہائی رقبے پر قابض بستیوں اور فوجی کیمپوں کوخالی کرنے کے بعد انخلاء کرکے غزہ کو خالی کرکے چھوڑ گئی۔
غزہ سے انخلاءپہلا واقعہ ہے جس میں "اسرائیل” کو 1948 میں فلسطین پر قبضے کے بعد سےاس نے اپنے زیرقبضہ زمین کو خالی کرنے پر مجبور کیا تھا۔
2000 میں الاقصی انتفاضہ کے شروع ہونے کے بعد سے بستیوں اور فوجی ٹھکانوںپر مزاحمتی حملوں نے قابض حکومت کوغزہ کی پٹی کی 21 بستیوں کو خالی کرنے پر مجبورکیا۔ان پر 1967 کی شکست کے بعد "اسرائیل” نے قبضہ کر لیا تھا۔
مبصرین کے مطابق انخلاغزہ کی سرحدوں، کراسنگ اور فضائی حدود پر تسلط اور محاصرہ مسلط کرنے سے پہلے قابض کےنظریہ کے لیے ایک تزویراتی ناکامی ہے جو 2006 سے اب تک جاری ہے۔
انخلاء کے بعدمزاحمت نے غزہ کے جزوی طور پر آزاد کرائے گئے علاقے پر اپنی صلاحیتوں کو مضبوط کیا،طاقت جمع کی اور اپنی صلاحیتوں کو استوار کیا۔ اس کے علاوہ زرعی علاقوں میں زندگیکی واپسی اور ایک تہائی سے زیادہ رقبے پر شہری زندگی کو بحال کیا۔
اسٹریٹجک ناکامی
یہ درست ہے کہغزہ کی پٹی پر 38 سال سے جاری قبضہ فلسطینی مزاحمتی دھڑوں کی طاقت میں اضافے کےساتھ حکومت، قابض فوج اور آباد کاروں کے لیے مہنگا اور پریشان کن ثابت ہوا ہے، لیکناس کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔
انخلا سے قبلاسرائیلی معیشت بے روزگاری اور مہنگائی جیسے بحرانوں سے دوچار تھی۔ اس وقت کے قابضریاست کے وزیر اعظم ایریل شیرون نے انخلاء کے موقع پر کہا تھا کہ مُنقطع ہونے سےاسرائیل کو آگے دیکھنے کا موقع ملے گا اور یہ کہ اسرائیلی ایجنڈا اب سے بدل جائےگا۔
غزہ سے انخلا صیہونیوںکی سٹریٹجک شکست ہے کہ پوری زمین کو کنٹرول کرنے کے نظریے کے لیےقابض ریاست کے نعرےکےخلاف ہے۔ قابض ریاست کا نعرہ تھا کہ قوم کے بغیر زمین اور زمین کے بغیرقوم کااصول اپنایا جائے۔
غزہ سے انخلاء نےایک آزاد فلسطینی ریاست کی تعمیر میں آگے بڑھنے کے لیے دشمن کے عمل اور ارداوں کومتاثر کیا۔ یہیی وجہ ہے کہ سنہ 2006ء کے انتخابات میں حماس کے جیتنے کے بعداسرائیل نے غزہ کی پٹی کا محاصرہ شروع کیا۔
مزاحمت نے ثابت کیاکہ غزہ پر قابض ریاست سےنمٹنے کا بہترین عملی طریقہ طاقت کی زبان ہے جس نے اسے بستیوںاور فوجی ٹھکانوں کو خالی کرنے پر مجبور کیا۔
2005 میں غزہ سے قبضے کی واپسی نے فلسطینی مزاحمت کے کام کے لیے ایکقابل قدر چھلانگ قائم کی، جس نے اس کی صلاحیتوں کو بہت ترقی دی ہے۔
انخلاء نے مزاحمتکو کام کرنے کے لیے ایک بنیاد فراہم کی، اس لیے ہم نے جنگوں اور فوجی دوروں میںجارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری، ترقی اور طاقت جمع کرنے کا نتیجہ دیکھا۔
غزہ کی حقیقت اور اس کا مستقبل
یہ انخلا صرف قابضریاست کی طرف سے کسی معاہدے پر دستخط کیےبغیر عمل میں آیا جو کہ پورے فلسطین اور خاص طور پر غزہ پر قبضے کی تاریخی پالیسیکی خلاف ورزی ہے۔
انخلاء کے بعد قابضریاست نے اسے مغربی کنارے سے الگ کرنے کے معاملے کو مضبوط کیا اور علیحدگی کی دیواریںقائم کیں۔ آبادیاتی تبدیلی کے ڈراؤنے خواب پر قابو پانے کے لیے یہودیوں کی آبادیاور تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا کیونکہ غزہ سے انخلا نے اسرائیلی بقا کے لیے ایک چیلنجکھڑا کیا تھا۔
علاقائی طاقتیںغزہ کو الگ تھلگ اور محصور رکھنے میں قابض کے ساتھ ملی بھگت کرتی ہیں اور غزہ میںگورنمنٹل ایکشن کمیٹی عوام کی حقیقت کی ذمہ دار ہے۔ یہ زندگی کے جوڑوں پر اسرائیلیتسلط کے ساتھ غزہ کو سنبھالنے میں ایک مشکل چیلنج ہے۔
قابض غزہ کی پٹیکے مشرق میں الگ ہونے والی حفاظتی باڑ کے ساتھ ساتھ 300 میٹر کی گہرائی میں”سکیورٹی بفر زون” پر اپنا تسلط مسلط کرتا ہے، اور وہاں کی زرعی اور شہریزندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔
انخلا نے ایک ایسیسرزمین میں کھیتی باڑی اور روزمرہ کے کام کو بحال کر دیا جو ماضی میں فلسطینیوں کےلیے شجر ممنوع تھا، یہاں تک کہ کسی بھی طرح سے اس تک پہنچنا بھی محال تھا مگر ابفلسطینیوں کو اپنی اس اراضی پر تصرف کا اختیار اور حق حاصل تھا۔
آزاد کرائی گئیزمینوں کی زرعی میدان میں سرمایہ کاری سے کچھ فصلوں اور زرعی مصنوعات کے لیے خودکفالت حاصل ہوئی، لیکن برآمدات اور درآمدات میں رکاوٹ اور کراسنگ کا تسلط اس میدانکی ترقی میں رکاوٹ ہے۔