شنبه 16/نوامبر/2024

آہ! یہ مظلوم فلسطینی

جمعرات 25-مارچ-2010

سوویت یونین کے ٹوٹنے کےبعد امریکا دنیا کے نقشے پر نئی سپر طاقت کے روپ میں سامنے آیا۔ امریکا کی خواہش تھی کہ مشرق وسطیٰ  میں اسرائیل کو دفاعی اور معاشی لحاظ سے مضبوط کر کے وہاں اس کی برتری قائم کی جائے۔ چنانچہ امریکا اسرائیل کی پرورش کرتا رہا اور معاشی طور پر مستحکم کرتا رہا۔ بالآخر جب اسرائیل دفاعی اور معاشی دونوں لحاظ سے مستحکم ہو گیا تو امریکا نے اسے فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرنے کا حکم دیدیا۔

اسرائیل نے امریکی حکم کی بجاآوری کرتے ہوئے فلسطین میں اپنی فوجیں داخل کر دیں اور فلسطینیوں پر آتش و آہن کی بارش کر دی جس کے نتیجے میں اسرائیل فلسطین کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو گیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

رواں مہینے میں اسرائیل نے فلسطین کے علاقوں پر شدید بمباری کی اور ہزاروں فلسطینیوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ نیز فلسطین سول سوسائٹی کے ایک کارکن کے مطابق رواں مہینے میں اسرائیلی فورسز نے بیت المقدس کے مشرقی علاقے میں غیر علانیہ آپریشن شروع کر دیا اور گھروں کے دروازے توڑ توڑ کر پچیس سے زائد نوجوان فلسطینیوں کو گرفتار کر کے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔

گزشتہ جمعہ کے روز بھی اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ کی پٹی پر شدید بمباری کی، جس کے نتیجے میں دو فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔

نیچی پرواز کرنے والے اسرائیلی ایف سولہ طیاروں کا ہدف مصر اور غزہ کی سرحد پر واقع وہ علاقے ہوتے ہیں جس میں زیر زمین سرنگیں بنائیں گئیں ہیں جن کے ذریعے فلسطینی روزمرہ کی اشیاء غزہ منتقل کرتے ہیں۔

حال ہی میں اسرائیل نے مسجد اقصیٰ  کو شہید کرنے کے لیے دوبارہ سازشیں تیز کر دیں اور مسجد کے قرب و جوار میں کسی نہ کسی بہانے کھدائی کی جاتی ہے۔ چنانچہ اس کھدائی کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ  کے ”المصلی المروانی” کی دیوار اور ستونوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔

نیز مقبوضہ مغربی پٹی میں عائد پابندیوں کی وجہ سے فلسطینی شہریوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سے فلسطینی کسان اپنی زمین اور آمدن سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ اور ایک اندازے کے مطابق گزشتہ تین سال کے دوران زیتون کے دس ہزار درختوں کو کاٹ دیا گیا یا جلا دیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے لیکن اس ظلم و ستم کو روکنے کے لیے کوئی ملک آواز بلند کر رہا ہے نہ کوئی ادارہ۔ انسانی حقوق کے بلند و بانگ دعوے کر رہے ہیں اور اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ یہ سب کچھ فلسطین میں کیوں ہورہا ہے؟ رواں مہینے میں فلسطینی صدر محمود عباس کا پاکستان کا دورہ کرنا اور پاکستانی حکمران کا فلسطین کی آزادی کی خاطر جدوجہد کرنے کا اعلان کرنا یقینا خوش آئند بات ہے لیکن اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عالم کفر عالم اسلام کے مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے۔ اسلامی دنیا کو ہر طریقے سے نقصان پہنچا رہا ہے مگر افسوس ہم ان کی سازشوں کو سمجھنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ اگر ہم ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے چالیس ممالک کی حمایت کے باوجود امریکا فلسطین کا مسئلہ حل نہیں کراسکتا؟ کن وجوہات کی بناء پر مسئلہ فلسطین کو لٹکائے رکھا ہے؟

کاش! ہم لوگ اہل مغرب کی سازشوں کو بھانپ لیں تو ہمیں کہیں بھی شرمندگی کا مظاہرہ نہ کرنا پڑے۔
کاش! عالم اسلام کے حکمران اپنی نفرتوں اور کدورتوں کو مٹا کر متحد ہو جائیں اور دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ پھر کسی صلاح الدین ایوبی اور محمود غزنوی کو پکارنے کی ضرورت نہ پڑے۔ مگر کب…؟

بشکریہ روزنامہ اسلام

لینک کوتاه:

کپی شد