شنبه 16/نوامبر/2024

اسرائیلی جارحانہ عزائم اور امریکی حمایت

ہفتہ 24-اپریل-2010

20 اپریل کو فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے باسٹھ سال مکمل ہوگئے، اس موقع پر مقبوضہ بیت المقدس کی فضاؤں میں صہیونی جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر پروازیں کرتے رہے جبکہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو مکمل طور پر سیل کیے رکھا۔
 
دوسری طرف مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں نے اسرائیل کے قبضہ، گھروں سے بیدخلی اور مظالم کے خلاف مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کیے (عیسوی کیلنڈر کے مطابق یہ تاریخ 14 مئی 1948ء بنتی ہے)۔ قبضے کی برسی کے موقع پر امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے پیغام میں کہا کہ امریکا کے اسرائیل کے ساتھ اٹوٹ تعلقات ہیں اور وہ امریکی عوام اور اسرائیل کے عوام کی گہری دوستی پر فخر کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا مستقبل میں اسرائیل کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں امن کی کوششیں جاری رکھے گا اور امید ہے کہ علاقے میں دو ریاستوں (اسرائیل، فلسطین) کے قیام سے امن کی راہ ہموار ہوگی۔ اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق کی تمام تر خلاف ورزیوں اور فلسطینیوں کے خلاف کئی عشروں سے جاری مسلح جنگی کارروائیوں کے باوجود امریکی صدر کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ اٹوٹ بندھن کو مزید مضبوط کرنے کا اعلان اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ دراصل امریکا ہی ہے جو اسرائیل فلسطین تنازع کو ہوا دیتا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تنازع کو اس سطح تک پہنچانے میں سب سے زیادہ منفی کردار امریکا کا ہی ہے جو ایک طرف فلسطین کی آزادی کی بات کرتا ہے تو دوسری جانب نہ صرف اسرائیل کو مسلح کرنے کے اقدامات کیے جاتے ہیں بلکہ اس کی سیاسی اور سفارتی حمایت بھی جاری رکھی جاتی ہے۔

دنیا کے امن اور مشرق وسطیٰ میں صورتحال کو بہتر بنانے کی کوششوں کے دعوے کرنے والے امریکا کی دوہری اور دوغلی پالیسیوں کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اسرائیلی جارحانہ کارروائیوں اور فلسطینیوں پر اس کے انسانیت سوز مظالم کے خلاف وقتاً فوقتاً منظور ہونے والی قراردادیں سب سے زیادہ امریکا نے ہی ویٹو کیں۔ ایسی صورتحال میں امریکا کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششیں جعلی اور محض دکھاوے کیلئے ہیں کیونکہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ اسرائیل کی حمایت اور سلامتی پر واشنگٹن کے قدم کبھی نہیں ڈگمگائیں گے، امریکا اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہے گا اور ہر مشکل میں اس کی مدد کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ ایک ناجائز طور پر قائم ہونے وال یریاست جارحیت آمادہ رہے اور دنیا کی واحد سپر پاور اس کی حمایت کا کھلا اعلان کرے تو امن کہاں اور کس طرح قائم ہوگا؟۔ دکھاوے کی کارروائیوں اور بیانات میں اسرائیلی قیادت بھی امریکا سے کسی طور پیچھے نہیں ہے۔
 
اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک نے کہا ہے کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ ختم کردینا چاہیے۔ اسرائیلی ریڈیو کو انٹرویو میں ایہود باراک کا کہنا تھا کہ امریکا سے بڑھتی ہوئی دوریاں ختم کرنے کیلئے اسرائیلی حکومت کو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو تقسیم کرنے والے اہم امور سے نمٹنا ہوگا، اسرائیل کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ دنیا فلسطینی عوام پر کئی عشروں سے جاری اسرائیلی حکمرانی مزید برداشت نہیں کرے گی۔ دوسری طرف ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر نیتن یاہو نے کہا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر کسی قیمت پر بھی نہیں رکے گی۔
 
اسرائیلی وزیر اعظم کا بیان اسی ملک کے وزیر دفاع کے بیان کا جواب ہے یعنی یہ کہ اسرائیل فلسطینیوں کی سرزمین پر اپنا قبضہ ختم نہیں کرے گا۔ اسرائیل پہلے ہی فلسطین کے وسیع علاقوں پر قابض ہوچکا ہے اگر اس کی توسیع پسندانہ کارروائیاں اسی طرح جاری رہیں تو وہ رہے سہے فلسطینی علاقوں پر بھی قابض ہو جائے گا اور اس طرح اس علاقے میں دو ریاستی منصوبے پر عمل درآمد ناممکن ہو کر رہ جائے گا۔ اقوام عالم کو اسرائیل کی ان دوہری اور دوغلی پالیسیوں کا ادراک کرتے ہوئے انہیں روکنے کیلئے سفارتی سطح پر تحریک چلانی چاہیے تاکہ فلسطینیوں کو ان کا حق آزادی مل سکے اور مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کا قیام ہوسکے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

لینک کوتاه:

کپی شد