حماس نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ فلسطینی عوام اپنے قومی حقوق کے محافظ رہیں گے اور اسرائیلی قبضے سے اپنی سرزمین کی آزادی کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
(آج) بدھ کے روز اعلانِ بالفور کی 105 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک بیان میں حماس نے کہا کہ ہمارے لوگوں، ہمارے حقوق اور ہماری تاریخی سرزمین کے خلاف ہونے والا سیاسی استحصال اور قتلِ عام قابض اسرائیل کی ناکام کوششیں ہیں۔ باوجود مسلسل امریکی تعصب و حمایت کے بزدل صہیونی طاقتیں ناکام و نامراد ہو رہی ہیں۔
حماس نے مقبوضہ شہر بیت المقدس اور مسجدِ اقصیٰ کو قابض ریاست کے ساتھ "تنازع کا مرکز” قرار دیا، جو ناجائز قبضہ کرتے ہوئے ان علاقوں کو اسرائیل بنانے کے منصوبوں پر قائم ہے۔
موومنٹ نے کہا: "رواں سال سالگرہ یوں منائی جارہی ہے کہ بیت المقدس اور مغربی کنارے کے لوگ فلسطین کو قبضے اور جارحانہ بے حرمتی سے آزاد کرانے کے پرخطر راستے میں استقامت و عزیمت کے شاندار ترین نمونے پیش کررہے ہیں۔”
بالفور اعلامیہ مغربی دنیا کے لیے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ملک کے قیام کی راہ پر پہلا قدم تھا۔
یہ اعلامیہ 2 نومبر 1917 کو پہلی جنگِ عظیم کے دوران عالمی صہیونی تنظیم کے ساتھ برطانوی مذاکرات کے تین سال بعد جاری کیا گیا تھا اور یہ برطانیہ کے اس وقت کے وزیرِ خارجہ آرتھر جیمز بالفور کی طرف سے لیونل والٹر روتھشائلڈ کو لکھے ایک خط کی شکل میں سامنے آیا تھا۔
سلطنتِ عثمانیہ کی تحلیل کے بعد فلسطین بھی برطانوی شرکار کے زیرِ اثر آ گیا، جو استعمار اور قبضے کی ایک درپردہ شکل تھی۔
اعلان بالفور کے نتیجے میں فلسطینیوں کی زندگیوں میں ایک اہم ہلچل پیدا ہوئی اور اسے عام طور پر نکبہ اور صہیونی ریاست اسرائیل کے ساتھ شروع ہونے والے تنازعہ کے اہم محرکات میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
105 سال گزرنے کے بعد بھی فلسطینی عوام برطانیہ سے بالفور کے جرم پر معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے وطن اور آبائی علاقوں سے بے گھر ہوئے اور انہیں صیہونی حکومت کے ہاتھوں مختلف قسم کے مصائب اور جارحیت کا سامنا کرنے پر مجبور کیا گیا ۔