اسرائیلی کنیسٹ نے مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم غیر قانونی بستیوں پر صہیونی قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے والے ہنگامی ضابطوں کی مدت میں توسیع کی منظوری دے دی ہے۔ نسلی امتیاز پر مبنی اس قانون کو "اپارتھائیڈ قانون” بھی کہا جاتا ہے۔ "
بل کے مطابق یہ قانون مزید 5 سال تک نافذ رہے گا۔ گذشتہ روز تیسری رائے شماری میں کنیسٹ کے 39 اراکین نے بل کی حمایت میں ووٹ دیا جبکہ 12 اراکین نے مخالفت کی۔
اس سے قبل 10 جنوری کو، پہلی رائے شماری میں اسرائيلی پارلیمنٹ نے اتحادی اور حزب اختلاف کے 58 اراکین کی حمایت سے توسیع کی منظوری دی تھی۔ 13 اراکین نے اس کی مخالفت کی تھی۔
کچھ خامیوں کے باعث بينيت لبيد کی پچھلی حکومت اس قانون کو پاس کرنے میں ناکام رہی ۔ اس وقت نیتن یاہو کی قیادت میں حزب اختلاف نے بھی حکمران اتحاد کو غیر مستحکم کرنے کی غرض سے قانون کی حمایت سے انکار کر دیا تھا۔ جو بعد میں حکومت جانے کا باعث بنا۔
پچھلی حکومت کی ناکامی کے بعد، اس بل کی میعاد جون 2022 میں تقریباً ختم ہو گئی تھی، لیکن اس سے پہلے ہی کنیسٹ کے تحلیل ہو جانےکی وجہ سے خودبخود اس میں توسیع کر دی گئی۔
یہ قانون 1967 میں فلسطینی علاقوں پر قبضے کے بعد سے نافذالعمل ہے، اور اس کی سرکاری وضاحت ” ہنگامی ضوابط – دفعات برائے جرائم اور قانونی معاونت” کی جاتی ہے۔
اس قانون کا مقصد مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں آباد کاروں کو "اسرائیلی شہری” کے طور پر قانونی دائرے میں شامل کرنا ہے۔ ہر 5 سال بعد اس قانون کی تجدید کی جاتی ہے۔
یہ قانون صہیونی عدالتوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی قانون کی خلاف ورزی کرنے والے آباد کاروں کے خلاف مقدمہ چلائے ۔ اس کے تحت اسرائیلی حکام کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ 1967 کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فلسطینیوں پر قانونی پابندیاں عائد کریں اور گرفتاریاں عمل میں لائیں۔
نسلی امتیاز کایہ قانون صہیونی حکام کو فلسطینیوں کو قید کرنے کا اختیار دیتا ہے، حالانکہ بین الاقوامی قانون کے تحت کوئی قابض ریاست ان شہریوں کو قید نہیں کر سکتی جو اس کی حدود سے باہر ہوں۔