اسرائیل میں ایک بار پھر فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کو صہیونی ریاست کا مستقل حصہ بنانے کی مذموم مہم شروع ہو گئی ہے۔ یہ مہم ماضی میں بھی اسرائیلی کنیسٹ [پارلیمنٹ] میں شروع کی گئی تھی مگر بعد ازاں اسے باوجوہ روک دیا گیا تھا۔
حال ہی میں اسرائیل کے ایک سرکردہ یہودی لیڈر’شیلا الدار‘ نے انکشاف کیا ہے کہ پارلیمنٹ میں جلد ہی ایک بل پیش کیا جانا ہے جس میں مطالبہ کیا جائے گا کہ ارکان پارلیمنٹ مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے قانون سازی کریں۔
اسرائیل کے عبرانی اخبار’’معاریف‘‘ نے شیلا الدار کا بیان نقل کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ میں ایسے کئی ارکان موجود ہیں جو مغربی کنارے کو اسرائیل کا اٹوٹ انگ قرار دینے کا خیال رکھتے ہیں اور وہ اپنے اس نظریے کو عملی شکل میں ڈھانے کے لیے قانون سازی کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔
اسرائیل کی حکمراں جماعت ’’لیکوڈ‘‘ سے تعلق رکھنے والے رکن کنیسٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی ارکان پارلیمنٹ اور وزراء سے بھی اس بات کا عہد لیا ہے کہ وہ مغربی کنارے کو یہودی ریاست کا حصہ بنانے کے لیے قانون سازی کے عمل میں حصہ لیں گے۔ ان کے ساتھ شدت پسند مذہبی سیاسی جماعت’’جیوش ہوم‘‘ کے ارکان کنیسٹ بھی شامل ہیں اور وہ سب مل کر جلد ہی پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کریں گے جس میں غرب اردن کو صہیونی ریاست کا حسہ بنایا جائے گا۔
عبرانی اخبار کا کہنا ہے کہ شیلا الدار اور اس کے حامیوں کو اسرائیل کے نائب وزیردفاع اور جیوش ہوم کے لیڈر ایلی بن ڈھان کی حمایت بھی حاصل ہے۔
اخباری رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعض ارکان کنیسٹ کی تجویز یہ ہے کہ مغربی کنارے کے ’سیکٹر C‘ کا علاقہ اسرائیل میں شامل کرلیا جائے کیونکہ یہ بھی غرب اردن کے کل رقبے کا 60 فی صد ہے۔
معاریف کی رپورٹ کے مطابق غرب اردن کے سیکٹر سی میں چار لاکھ یہودی اور 70 ہزار عرب شہری آباد ہیں۔ اس سیکٹر کو اسرائیل میں ضم کیے جانے کے بعد عرب آبادی کے سامنے دوآپشنز رکھے جائیں گے۔ وہ چاہیں تو اسرائیل کی شہرت اختیار کریں اور اپنی علاقوں میں ٹھہرے رہے ہیں۔ اگر وہ اسرائیلی شہریت پر راضی نہ ہوں تو انہیں متبادل علاقوں میں منتقل کر دیا جائے گا۔