جمعه 15/نوامبر/2024

صہیونی صیاد اپنے ہی دام میں پھنس گیا!

ہفتہ 14-مئی-2016

فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر جولائی اور اگست 2014ء کومسلط کردہ جنگ کے حوالے سے اسرائیل کے ’اسٹیٹ کنٹرولر‘ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ نے صہیونی ریاست کے سیاسی، حکومتی، فوجی اور انٹیلی جنس حلقوں میں ایک نیا بھونچال پیدا کردیا ہے۔ اس رپورٹ میں غزہ جنگ سے متعلق اسرائیل کے جاری کردہ گمراہ کن پروپیگنڈے کے ان تمام جھوٹے اور من گھڑت دعوؤں کی قلعی کھول دی گئی ہے جو اب تک حکومت، فوج اور انٹیلی جنشیا کی جانب سے بیان کیے جاتے رہے ہیں۔ اسٹیٹ کنٹرول کی رپورٹ میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی پر سنہ دو ہزار چودہ کی جنگ میں اسرائیل کو شرمناک ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ میں ہونے والے غیرمعمولی جانی اور مالی نقصان کے بارے میں حقائق سے قوم کو آگاہ کرنے کے بجائے قوم سے حقائق پوشیدہ رکھے گئے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ سنہ 2014ء کی 51 روزہ جنگ میں وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور وزیر دفاع موشے یعلون پرالزام عاید کیا گیا ہے کہ انہوں نے اس جنگ کے حقائق قوم سے خفیہ رکھے ہیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے جنگ کے حقائق کے بارے میں پارلیمنٹ اور کابینہ کو بھی مطلع نہیں کیا ہے۔

اسرائیلی اخبار’’یدیعوت احرونوت‘‘ نے  اسٹیٹ کنٹرولر کی رپورٹ کو ’’سیاسی ایٹم بم‘‘ قرار دیا اور لکھا ہے کہ اس رپورٹ میں جنگ میح فتح وکامرانی سے متعلق جتنے بھی جھوٹے دعوے کیے گئے ہیں وہ سب من گھڑت اور جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ حقیقی معنوں میں اس جنگ میں فلسطینیوں کا جانی نقصان زیاد ہوا مگر یہ جنگ ہراعتبار سے اسرائیل نے نہیں بلکہ فلسطینیوں نے جیتی ہے۔

سرنگوں کا سنگین چیلنج

عبرانی زبان میں شائع ہونے والے اخبار’’یدیعوت احرونوت‘‘ نے اسٹیٹ کنٹرول کی دھماکہ خیز رپورٹ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ اسٹیٹ کنٹرولر ’’یوسف شابیرا‘‘ نے غزہ جنگ سے متعلق رپورٹ جاری کرکے سیاسی میدان میں دھماکہ کردیا ہے جس کے نتیجے میں سیاسی اور حکومتی حلقوں میں ارتعاش پیدا ہوگیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کاروں کی کھودی گئی سرنگوں کے بارے میں قوم کو گمراہ کیا ہے۔ اس حوالے سے دو باتیں اہمیت کی حامل ہیں۔ اول یہ کہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے غزہ کی پٹی میں سرنگوں کی موجودگی کے بارے میں غلط معلومات فراہم کی گئیں۔ دوم یہ کہ اسرائیل نے یہ دعویٰ کیا کہ غزہ جنگ کے دوران فلسطینیوں کی زمین دو سرنگوں کا نیٹ ورک تباہ کردیا گیا۔ حالانکہ جن علاقوں پر بمباری کی گئی وہاں سرنگوں کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملا بلکہ وہ عام شہری علاقے ہیں جہاں فلسطنیوں کی اکثریت ہے۔ مثال کے طور پر الشجاعیہ کالونی پر کارپٹ بمباری کی گئی جس کے نتیجے میں وہاں پر 90 سے 9 فی صد مکانات ملبے کا ڈھیر بنا دیے گئے مگر وہاں ایک بھی سرنگ نہیں ملی۔ اس نوعیت کے کئی دوسرے ایسے ہی خوفناک اور من گھڑت دعوے کیے گئے جن کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اسٹیٹ کنٹرولرکی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ خفیہ ادارے‘‘شاباک‘‘ نے غزہ کی پٹی میں جن جن مقامات پر سرنگوں کی موجودگی کے بارے میں تنبیہ کی تھی اس کے بارے میں وزیراعظم بنجمن نتین یاھو اور وزیردفاع موشے یعلون کو بہ خوبی علم مگرانہوں نے کابینہ اور پارلیمنٹ کو اس حوالے سے کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے جب جولائی سنہ 2014ء پرغز کو تاخت وتاراج کرنا شروع کیا تو اس وقت جنگ کے حوالے سے مناسب منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور نہ ہی سرنگوں کے معاملے سے نمٹنے کے لیے موثرحکمت عملی وضع کی گئی تھی۔ حکومت کے پاس غزہ میں سرنگوں کے بارے میں جو معلومات تھیں پہلے تو وہ ناقص تھیں، نیز ان سرنگوں کے بارے میں وزیراعظم اور وزیردفاع نے کابینہ کو معلومات فراہم نہیں کیں۔ جنگ کے تمام مراحل کی نگرانی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو، وزیردفاع موشے یعلون اور آرمی چیف بینی گانٹز کے ہاتھ میں رہی اور باقی پوری کابینہ اور ریاستی ادارے اس جنگ اور سرنگوں کے بارے میں کسی قسم کی معلومات سے تہی دامن تھے۔

سیاسی ایٹم بم

اخبار یدیعوت احرونوت نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’اسٹیٹ کنٹرولر‘ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس جو کن مبصرین نے باریکی سے دیکھا ہے انہوں نے اسے سیاسی میدان میں سیاسی ایٹم بم سے تشبیہ دی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ کنٹرولر کی رپورٹ لبنان پر سنہ 2006ء میں مسلط کردہ دوسری جنگ میں ناکامی کے حوالے سے مرتب کردہ’’وینوگراڈ‘‘ رپورٹ، سنہ 2009ء میں غزہ کی پٹی پرمسلط کی گئی جنگ اور اس کی تحقیقاتی رپورٹ سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اسٹیٹ کنٹرولر کی رپورٹ جس میں وزیراعظم اور وزیردفاع کو معلومات خفیہ رکھنے کا قصور وار قرار دیاگیا ہے کو عوام کی نظروں سے پوشیدہ رکھنا اب مخفی نہیں رہا ہے اور عوامی حلقے اسے زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ عوام کا حق ہے کہ وہ غزہ جنگ کی ناکامیوں کے اسباب کے متعلق جان کاری حاصل کریں۔ صہیونی حکام کا کہنا ہے کہ یہ اسی طرح خطرناک ہے جس طرح سابق وزیراعظم ارئیل شیرون کی جانب سے لبنان جنگ کے بعد وزیردفاع کو تبدیل نہ کرنا اور لیڈ کاسٹ آپریشن میں بیبی بوجی کی جگہ موشے یعلون کو زیردفاع تجویز کرنا تھا۔

اخباری رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ کنٹرولر کی رپورٹ میں سابق آرمی چیف جنرل بینی گانٹز پربھی سخت الفاظ میں تنقید کی گئی ہے۔ یہ تنقید اس لیے کی جارہی تھی کہ کیونکہ غزہ جنگ کے معروضی حالات اور فوج کے دعوؤں کے درمیان تضاد نے عوام کو ایک نئی بے چینی میں ڈال دیا تھا۔ کرم ابو سالم کے مقام پر ایک پرانی سرنگ کے انکشاف سے بھی فوج پر تنقید میں اضافہ ہوا کیونکہ فوج کی اور انٹیلی جنس اداروں کی اپنی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسلامی تحریک مزاحمت’حماس‘ کا جنگ کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ مگر اس سرنگ کے منکشف ہونے کے ایک ماہ بعد صہیونی فوج نے غزہ کی پٹی پر بمباری شروع کردی تھی۔ یہ بمباری چار روز جاری ہی۔

الزمات کا تبادلہ:

اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسٹیٹ کنٹرولر کی رپورٹ کے لیک ہونے پروزیراعظم بنجمنن نیتن یاھو اور ان کے مقرب حلقوں کی جانب سے سیاسی مخالفین پرسخت لعن طعن کیا جا رہا ہے اور  رپورٹ کے منظرعام پرآنے کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ کنٹرولر کی رپورٹ کا افشاء ایک غیرذمہ دارانہ حرکت ہے۔

سیاسی جماعت میریٹز کی خاتون سربراہ ھاگا گولون کا کہنا ہے کہ وزیراعظم خود کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔وہ غزہ جنگ میں ناکامی چھپانے کے لیے اب مخالفین کو تنقید کا بلا جواز نشانہ بنا رہے ہیں۔

عبرانی ٹی وی 10 نے عسکری ذرائع کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ممکن ہے کہ اسٹیٹ کنٹرولر کی رپورٹ سابق وزیرخارجہ آوی گیڈور لائبرمین نے لیک کی ہے۔

اسرائیلی دفاعی تجزیہ نگار اور ھیلار کا کہنا ہے کہ فوج یہ سمجھتی ہے کہ اسٹیٹ کنٹرولر کی رپورٹ کے افشاء کے پیچھے لائبرمین کا ہاتھ ہے اور وہ چونکہ نیتن یاھو اور موشے یعلون کو قوم کے سامنے بے نقاب کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے  اسٹیٹ کنٹرولر کی رپورٹ لیک کی ہے۔

اسٹیٹ کنٹرولر کی رپورٹ اور فلسطینی مزاحمت

اسرائیل کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں بھونچال کی کیفیت پیدا کرنے والی اسٹیٹ کنٹرولر کی رپورٹ پر ایک نقطہ نظر فلسطینی عوام کا بھی ہے کیونکہ اس نوعیت کی رپورٹس کے بالواسطہ یا براہ راست اثراف فلسطینیوں پربھی مرتب ہوتے ہیں۔ فلسطینی تجزیہ نگاروں نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اس وقت فلسطینی سرنگوں کے ان دیکھے خوف کا شکار ہے۔ چونکہ محاذ جنگ میں اسرائیل کو ان سرنگوں کی مسماری میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ اس رپورٹ کو فلسطینی حلقوں اور اسرائیل میں غیرمعمولی پیمانے پر زیربحث لایا جا رہا ہے۔ فلسطینی مبصرین کا خیال ہے کہ غزہ کی پٹی اور غرب اردن میں اسرائیل کی پے درپے ہمزیمتوں کے بعد صہیونی ریاست اور حکومت کی ایک اور ناکامی ہے جس نے فلسطینی تحریک مزاحمت کو ’فتح مند‘ ثابت کیا ہے۔

فلسطینی مبصرین کا کہنا ہے کہ صہیو نی اسٹیٹ کنٹرولرکی رپورٹ کے افشاءکےت بعد اسرائیلی لیڈر شپ کے سامنے تین آپشنز موجود ہیں۔

اول: یہ کہ اسرائیل غزہ پر جنگ مسلط کرنے کا دعویٰ ترک کردے اور اس وقت غزہ میں سرنگوں کے معاملے پر پیالی میں جو طوفان اٹھایا جا رہا ہے اس نفسیاتی جنگ سے بھی باز آجائے اور یہ کھل کر کہہ دے کہ موجودہ حالات کسی نئی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

دوم: دوسرا آپشن یہ کہ اسرائیل طویل جنگ بندی کا راستہ اختیار کرے۔ نیز غزہ کی پٹی پرعاید اقتصادی پابندیوں اورغزہ کے حوالے سے دیگر تمام زیربحث کیسز کو داخل دفتر کرے۔ غزہ کی پٹی میں جنگی قیدی بنائے گئے فوجیوں کی رہائی کے لیے فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی شرائط تسلیم کرے اور غزہ میں بندرگاہ کے قیام کا مطالبہ تسلیم کرے۔

سوم:اسرائیل کے پاس تیسرا آپشن غزہ پر جنگ مسلط کرنے کا ہے اور موجودہ حالات میں اس کا کوئی امکان  نہیں ہے۔ اسرائیلی عبرانی ٹی وی 10 سے وابستہ دفاعی تجزیہ نگار الون بن ڈیوڈ کا بھی یہی خیال ہے کہ اسرائیل کے پاس غزہ کی پٹی پر جنگ مسلط کرنے کا آپشن تو ہے مگر ایسا ہونا ممکن نہیں دکھتا۔ تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ حماس اور اسرائیل دونوں کا خیال یہی ہے کہ لمحہ موجود میں جنگ کا آپشن خطرناک ہوگا۔ خاص طورپر یہ اسرائیل کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔ اتنا تباہ کن جتنا کہ لیڈ کاسٹ آپریشن فلسطینیوں کے لیے نقصان  دہ ثابت ہوا تھا۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اسٹیٹ کنٹرولر کی رپورٹ نے نہ صرف اسرائیل کے سیاسی اور عسکری حلقوں میں ہل چل پیدا کردی ہے  بلکہ اس رپورٹ نے نیتن یاھو کے سیاسی مستقبل پربھی ایک دھبا لگا دیا ہے۔ اس رپورٹ کے بعد نیتن یاھو کے لیے خود کو چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ کے لیے پیش کرنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہے گا۔

مختصر لنک:

کاپی