اس میں دو رائے نہیں کہ شہداء زندہ ہوتے ہیں کیونکہ شہداء کویہ سند خود خدائے بزرگ وبرتر نے دے رکھی ہے مگر دنیا سے پردہ کرنے کے بعد بھی کچھ شہداء رہتی دنیا تک اپنی کرامات دکھاتے ہیں۔ انہی میں ایک 16 سالہ فلسطینی شہید بھی شامل ہیں جن کی شہادت کے دو ماہ گذر جانے کے بعد بھی جسم سے خون کے فوارے پھوٹتے رہے۔ شہید کو جب فلسطین کے قومی پرچم اور فلسطینی کوفیہ میں کفن دیا گیا تو کچھ ہی دیر میں اس کا کفن خون سے رنگین ہو گیا تھا۔ جب اسے لحد میں اتارا جا رہا تھا تو کندھا دینے اور قبر میں اتارنے والوں کے ہاتھ بھی شہید کے خون سے تر ہو گئے تھے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق یہ کرامت مقبوضہ مغربی کنارے کے سلفیت شہر سے تعلق رکھنے والے 16 سالہ شہید عبدالرحمان رداد کی ہے۔ رداد کو صہیونی فوجیوں نے دو ماہ قبل تل ابیب میں گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا۔ صہیونی پولیس نے اس کی شہادت کے وقت یہ افسانہ گھڑا تھا کہ اس نے ایک یہودی آباد کار پر چاقو سے وار کیا ہے، جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہو گیا۔ مبینہ طورپر یہودی آباد کار پر چاقو سے حملے کے بعد اسرائیلی پولیس نے عبدالرحمان رداد پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی تھی جس کے نتیجے میں موقع پر ہی اس کی شہادت ہو گئی تھی۔
یہ واقعہ 8 مارچ 2016ء کی شام کا ہے۔ عبدالرحمان رداد کو شہید کیے جانے کے بعد اس کا جسد خاکی صہیونی درندوں نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا اور پوسٹ مارٹم کی آڑ میں شہید کے جسم کی چیر پھاڑ بھی کرتے رہے۔ مگر اس کے باوجود اس کے جسم سے خون بہنے کا سلسلہ جاری رہا۔
عبدالرحمان رداد اور قلقیلیہ شہر کے بشار مصالحہ شہید کے جسد خاکی جمعہ 19 مئی کو ان کے ورثاء کے حوالے کیے گئے۔ دونوں کی شہادت کا دن ایک ہی ہے۔ شہید رداد اور مصالحہ کے اہل خانہ کو قلقیلیہ کی فوجی چوکی نمبر 109پر بلایا گیا جہاں شہداء کے جسد خاکی ان کے ورثاء کے حوالے کیے گئے۔
شہید رداد کی کرامات
عبدالرحمان رداد شہید کے ایک قریبی رشتہ دار احمد رداد نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جب صہیونی حکام سے شہید کا جسد خاکی وصول کیا اس وقت بھی اس سے خون بہہ رہا تھا۔ اس کے بعد بارہ گھنٹے تک شہید کا جسد خاکی ان کے گھر میں رہا جہاں اسے فلسطینی قومی پرچم اور کوفیہ میں کفن دیا گیا مگر شہید کے جسم سے خون کے فوارے مسلسل پھوٹتے رہے۔ احمد رداد نے بتایا کہ شہید کے جسم سے نکلتے خون کو دیکھ کر نوجوان جذباتی ہوتے اور وہ مسلسل تکبیر کے نعروں کے ساتھ اسے الوداع کہہ رہے تھے۔
احمد نے بتایا ہے عبدالرحمان رداد شہید کی کرامات میں سےایک یہ بھی ہے کہ اس کی تاریخ پیدائش اور تاریخ شہادت دونوں ایک ہی ہیں۔
شہید کے آخری دیدار کے وقت اس کی والدہ کا جذبہ تمام فلسطینی نوجوانوں کے لیے سبق آموز تھا۔ ماں نے اپنے لخت جگرکی شہادت کے واقعے پراپنے اوپر سوار نہیں ہونے دیا۔ ماں کا جگر چھلنی تھا مگراس نے خود کو سہارا دینے کے لیے سینے پر رداد کی ایک بڑی تصاویر اٹھا رکھی تھی۔
بیٹے کو لحد میں اتارنے کے لیے رخصت کرتے وقت ماں کے الفاظ یہ تھے کہ ’جا اللہ تجھ پر راضی اور تو اللہ سے راضی، اللہ تجھ پر اپنی رحمت ک دروازے کھول دے‘‘۔ اس موقع پر خواتین بھی آزادی کے ترانوں کے ساتھ شہید کو الوداع کہہ رہی تھیں۔