فلسطین کی تاریخی مساجد میں مقبوضہ مغربی کنارے کی تاریخی جامع مسجد ابراہیمی جسے تقدس کے طورپر ’حرم ابراہیمی‘ بھی کہا جاتا ہے دیگر کئی حوالوں کے ساتھ صہیونیوں کے ہاتھوں وہاں ہونے والے قتل عام کی وجہ سے بھی شہرت رکھتی ہے۔
مسجد ابراہیمی میں ایک صہیونی دہشت گرد کے ہاتھوں کئی عشرے قبل نمازیوں کے وحشیانہ قتل عام کی یاد میں مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک انفوفلم تیار کی ہے۔
مسجد ابراہیمی غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل میں واقع ہے۔ اس شہر پر اسرائیل نے سنہ 1967ء کی چھ روزہ جنگ میں قبضہ کیا۔
مسجد میں پہلا بڑا کشت وخون 15رمضان المبارک سنہ 1414ھ بہ مطابق 25 فروری 1994ء کو کیا گیا۔
باروکھ گولڈ چائن نامی یہودی نے اس روز نماز فجر کے وقت مسجد میں گھس کر اندھا دھند گولیاں برسائیں، جس کے نتیجے میں 29 نمازی شہید اور 150 زخمی ہوئے۔
صہیونی ریاست نے نمازیوں کے سفاک قاتل کا ٹرائل کرنے کے بجائے فلسطینیوں اور مسجد ابراہیمی کا ٹرائل شروع کر دیا۔
اس واقعے کے بعد مسجد ابراہیمی کے 60 فی صد حصے کو یہودی معبد میں تبدیل کر دیا گیا۔
جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے فلسطینی نمازیوں کے مسجد میں آنے کی راہ روکی گئی اور یہودیوں کی رسائل آسان بنائی گئی۔
یہ ہے وہ مسجد ابراہیمی
تعمیر میں مسجد اقصیٰ کی مشابہ مسجد ابراہیمی پرانے بیت المقدس شہر میں واقع ہے۔
اس مسجد کا نام جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی نسبت سے رکھا گیا کیونکہ تاریخی روایات سے پتا چلتا ہے کہ اسی مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آخری آرام گاہ ہے۔
سنہ 1967ء کے بعد مسجد ابراہیمی پر صہیونی ریاست کا ناجائز تسلط قائم ہے۔
ہرماہ سیکڑوں یہودی مسجد میں گھس کر اس کی بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
چند نمایاں پابندیاں
اذان اور نماز کے قیام پر پابندی
نمازیوں کو ہراساں کرنا
مسلسل کئی کئی روز تک مسجد کو فلسطینیوں کے لیے بند رکھنا
نمازیوں کی جامہ تلاشی اور قرآن پاک کے نسخے چھیننا اور انہیں پھاڑتے ہوئے بے حرمتی کرنا۔
مسجد کے سدنہ اور محافظوں کو زدو کوب کرنا۔
نمازیوں اور وہاں پر حفاظت پر مامور افراد پر فائرنگ کرنا۔
اسرائیل نے 21 فروری 2010ء کو مسجد ابراہیمی کو صہیونی تاریخی ورثے کا حصہ قرار دیا۔
اکتوبر 2010ء کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے مسجد ابراہیمی کو فلسطین کے تاریخی ورثے کا حصہ قرار دیا۔
اس طرح صہیونیوں کی چالوں اور مکرو فریب کے باوجود مسجد ابراہیمی اسلامی تاریخی ثقافت اور تہذیب کا حصہ قرار پایا۔