اسرائیلی فوج کی جانب سے بے گناہ فلسطینیوں کو بغیر کسی الزام کے طویل عرصے تک انتظامی قید کے تحت پابند سلاسل رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ دوسری جانب اسرائیلی عدلیہ صہیونی فوج کی اس ظالمانہ پالیسی کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ اس کی تازہ مثال 63 سالہ فلسطینی قیدی عمر البرغوثی کی درخواست کو مسترد کرنے سے لی جاسکتی ہے۔ البرغوثی انتظامی حراست کے تحت پابند سلاسل ہیں۔ ان کی تین ماہ کی حراستی مدت 18 اگست 2016ء کو ختم ہو رہی ہے۔ مگراسرائیلی حکام نے انہیں مزید تین ماہ کے لیے انتظامی حراست میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے انتظامی حراست کی توسیع کے خلاف اسرائیلی سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی مگرصہیونی سپریم کورٹ نے ان کی اپیل مسترد کردی ہے۔
فلسطین میں اسیران کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے’کلب برائے اسیران‘ کے قانونی مشیر جواد بولس کا کہن اہے کہ صہیونی سپریم کورٹ نے عمر البرغوثی کی انتظامی حراست میں توسیع کے خلاف دی گئی درخواست مسترد کردی ہے۔
بولس کا کہنا ہے کہ 63 سالہ عمر البرغوثی کا تعلق غرب اردن کے وسطی شہر رام اللہ کے نواحی علاقے کوبر سے ہے۔ صہیونی حکام نے انہیں 18 اگست کے بعد مزید تین ماہ کے لیے انتظامی قید میں رکھنے کا فیصلہ کیاہے۔ اس پرانہوں نے انتظامی حراست کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا مگر سپریم کورٹ نے صہیونی فوج کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے ان کی درخواست مسترد کردی ہے۔
خیال رہے کہ عمر البرغوثی نے کئی سال اسرائیلی جیلوں میں انتظامی حراست میں گذارے ہیں۔ سنہ 2010ء میں انہوں نے کئی ماہ تک اسرائیلی جیل میں گذارے۔ وہ مسلسل 20 سال تک پابند سلاسل رہے اور مجموعی طورپر 26 سال قید کاٹی ہے۔