اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘ نے واضح کیا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں پابند سلاسل فلسطینیوں کی رہائی جماعت کی اولین ترجیح ہے۔ حماس کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کےتبادلے کے لیے طے کردہ شرائط حتمی اور اٹل ہیں جن میں کوئی نرمی یا تبدیلی نہیں کی جائے گی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے ترجمان حسام بدران نے ایک بیان میں کہا کہ جماعت نے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کےتبادلے کے لیے چند شرائط رکھی ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کی کسی نئی ڈیل سے قبل صہیونی فوج کو سنہ2010ء میں’وفاء احرار‘ معاہدے کے تحت رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار کیے گئے قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا۔
ترجمان نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے حماس کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی ہے۔ سنہ 2010ء میں رہا کیے گئے بعض فلسطینیوں کو دوبارہ حراست میں لیا گیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی نئی ڈیل میں ان شہریوں کی رہائی بڑی رکاوٹ ہے جنہیں ایک بار رہا کرنے کے بعد دوبارہ سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔
فلسطین میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے حسام بدران نے کہا کہ ہم نے عوام سے جنت کے وعدے تو نہیں کررہے ہیں، تاہم تمام ترمشکلات کے باوجود حماس کے نمائندے عوامی خدمت کو اپنا شعار بنائیں گے۔ انہوں نے کہ فلسطین کے حالات قدرتی نہیں۔ ہم ایک غاصب ریاست کے تسلط میں جی رہے ہیں۔ ہم پر معاشی پابندیاں عاید ہیں۔ اس لیے ہماری بہت سی مجبوریاں ہیں۔ اس کے باوجود حماس عوامی خدمت اور فلاح وبہبود کے منصوبوں پر کام جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ بعض لوگ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے خوف زدہ ہیں مگرحماس پوری تیاری کے ساتھ انتخابی عمل میں حصہ لے گی۔