سابق امریکی سفیربرائےاسرائیل مارٹن انڈک نے کہا ہے کہ ’’حماس کا 7 اکتوبر کو اسرائیلی بستیوں پراچانک حملہ دنیا کو 50 سال پیچھے لے جاتا ہے جب اکتوبر 1973 کی جنگ شروع ہوئی تھی۔‘‘
انہوں نے عبرانیاخبار "یدیعوت احرونوت” سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ "ایک بار پھراس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ مشرق وسطیٰ کی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہےاور اسرائیل کا مستقل وجود ریاست ہائے متحدہ امریکا کی مدد اور اس کی حمایت پرمنحصر ہے۔”
انہوں نے مزیدکہا کہ "غزہ کی پٹی اور جنوب میں اسرائیلی قصبوں پر حماس کے اچانک حملے سےنمٹنے میں وسیع تر ناکامی ڈیٹرنس پاور کا نقصان اور اسرائیل کا حد سے زیادہ خوداعتمادی ہے۔”
انہوں نے مزیدکہاکہ "لیکن حماس کے اچانک حملے پر اسرائیلی فوج کے فوری ردعمل میں ناکامیاکتوبر 1973 میں ہونے والے واقعے سے کہیں زیادہ بدتر تھی۔ یہ ناقابل تصور ہے کہاسرائیلی فوجیوں کو غزہ کی پٹی تک پہنچنے میں 10 گھنٹے لگے۔ میں نے ایسا نہیں کیا۔معلوم کریں کہ کیا کسی کے پاس اس کی معقول وضاحت ہے۔”
امریکی سفارت کارکا کہنا تھا کہ ’ہم نے محسوس کیا کہ 1973 میں انور سادات امن کے لیے حالات پیداکرنے کے لیے جنگ میں گئے تھے اور حماس ایسا نہیں کرتی اور وہ اسرائیل کو ختم کرناچاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "تمام حفاظتی نظریات جن کے بارے میں ہم نےسوچا تھا وہ کھڑکی سے باہر پھینک دیے گئےاور اب ان کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ اکتوبرکی جنگ کے جھٹکے نے ہمیں توڑ دیا، ایک گہرا فریکچر چھوڑ دیا اور اس کی گہرائی کوسمجھنے میں کافی وقت لگا۔ آج ایک بار پھراسی مقام پر کھڑے ہیں۔
خیال رہے کہ ساتاکتوبر سے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی طرف سے مسلط کی گئی جنگ میں اب تک آٹھ ہزارسے زائد فلسطینی شہید اور بیس ہزار کے قریب زخمی ہوچکےہیں۔
یہ جنگ اس وقتشروع ہوئی تھی جب حماس نے غزہ میں اسرائیلی باڑ کو پار کرتے ہوئے اسرائیلی بستیوںپر اچانک حملہ کردیا تھا۔