فلسطینیوں پرغاصب صہیونیوں کے ظلم وستم کی ان گنت داستانوں میں ایک داستان دریائے اردن کے مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس میں ’’دوما‘‘ قصبے کے دوابشہ خاندان کی کہانی بھی کم دردناک نہیں۔
سعد دوابشہ نامی ایک فلسطینی خاندان کو ایک سال قبل جولائی میں اس کے گھرمیں یہودی شرپسندوں نے آگ لگا کر شہید کر دیا تھا۔ یہودیوں کی آتش زدگی کے نتیجے میں محمد سعد دوابشہ، اس کی اہلیہ ریھام دوابشہ اور ایک شیرخوار علی سعد دوابشہ جام شہادت نوش کر گئے تھے جب کہ ان کا ایک چار سالہ بیٹا احمد دوابشہ اور ننگی جارحیت میں بری طرح جھلس گیا تھا۔
احمد اور پورے خاندان میں زندہ بچ جانے والا اکلوتا بچہ ہے۔ اگرچہ جھلس جانے کے باعث اس کی حالت اب بھی کوئی اتنی تسلی بخش نہیں۔ جسمانی طور پر وہ صحت یاب ہونے کے باوجود ذہنی اور نفسیاتی طورپر اب بھی اس ہولناک واقعے سے بری طرح متاثر ہے۔
پانچ سالہ احمد سعد دوابشہ آتش زدگی کے مجرمانہ واقعے کے وقت چار سال کا تھا۔ ایک سال کے علاج کے بعد اب وہ کافی حد تک بہتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے دادا اور دیگر اقارب نے اسے دوما کے ایک اسکول میں بھی داخل کر دیا ہے۔
دوما قصبے میں ایک نیا پرائمری اسکول احمد کے چھوٹے بھائی علی کے نام سے قائم کیا گیا ہے۔ احمد کو اسی اسکول میں داخل کیا گیا ہے۔
فلسطین میں 28 اگست 2016ء کو نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوا تو احمد دوابشہ کو اس کے دادا اور کئی دوسرے قریبی رشتہ دار اسکول چھوڑنے اس کے ساتھ آئے۔ اگرچہ اسے اسکول میں داخل کردیا گیا جہاں اس کے ہم جماعت دوسرے بچے بچیاں اس کا دل بہلانے میں مدد کریں گے مگرمعصوم ذہن کے دماغ میں اب بھی طرح طرح کے سوالات موجود ہیں۔ وہ اپنی پیاری ماں اور شفیق باپ کو لاکھ جتن کے باوجود بھلا نہیں پایا ہے۔ اسکول میں بچوں کو چھوڑنے کے لیے آنے والی دوسرے بچوں کی مائیں احمد کو اندر ہی اندر سے تڑپا دیتی ہیں۔ وہ اپنے دادا اور دوسرے رشتہ داروں سے بار بار اپنے ماں باپ کے بارے میں پوچھتا ہے۔
جب دوسرے بچوں کو اسکول سے لے جانے کے لیے ان کی مائیں یا والد آتے ہیں تو احمد پوچھتا کہ اس کی امی کب آئے گی۔ وہ کہاں ہے۔ وہ اسے بہت یاد کرتا ہے۔ وہ بھی اسے یاد کرتی ہو گی۔
اگرچہ صحافی حضرات بھی ننھے بچے سے مختلف نوعیت کے سوالات کرتے رہتےہیں مگر اہل خانہ نے اس بات پرسختی سے پابندی لگائی ہے کہ کوئی شخص احمد سے اس کے والد یا والدہ کے بارے میں کوئی بات نہ کرے۔
بوجھل دن
علی، ریہام اور سعد دوابشہ کی دردناک موت پر ان کا پورا خاندان اور تمام اقارب سب دکھی ہیں مگر وہ احمد کے سامنے خود کو سہارا دینے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ اسکول چھوڑنے کے لیے احمد کے ساتھ آئے اس کے چچا نصر دوابشہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ احمد کو پہلی جماعت میں داخل کرنے کے لیے اسکول لانا بہت بھاری دن ثابت ہوا۔ بچہ بار بار اپنے ماں باپ کو یاد کرتا ہے اور ہم اس کے سامنے لاجواب ہو جاتے ہیں۔
نصر نے کہا کہ کاش کہ میرے بھائی اور بھاوج آج زندہ ہوتے تو وہ اپنے بیٹے کو اسکول خود چھوڑنے جاتے اور کتنے خوش ہوتے۔ احمد کے والدین حیات ہوتے تو وہ بیٹے کی واپسی کا کس بے تابی کے ساتھ اسکول سے واپسی کا بھی انتظار کرتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ احمد کو اسکول لانے کے پہلے دن ہم سب بہت دکھی تھے اور یہ دن سب پر بہت بھاری گذرا۔ ہم سب کو بھائی سعد اور بھاوج ریھام کی یاد ستاتی رہی۔
احمد کے اسکول لائے جانے کےبارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں نصر نے کہا کہ پہلے دن ہم چھٹی ہونے تک احمد کے ساتھ رہے مگر اس کے بعد اب ہم اسے اسکول چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ چھٹی کے وقت گھر کا کوئی فرد احمد کو ساتھ لے جاتا ہے۔
خواب جو تشنہ تعبیر رہا
احمد کے اقارب نے بتایا کہ بچے کے والدہ نے ایک سال قبل یہودی شرپسندوں کی لگائی گئی آگ کے نتیجے میں جام شہادت نوش کرنے سے قبل ہی احمد کے اسکول کا انتظام کر لیا تھا۔ انہوں نے اسکول کا بیگ اور پلے گروپ کے بچوں کے لیے تیار کردہ قاعدہ اور بچے کی دلچسپی کی دیگر اشیاء خرید لی تھیں۔ ماں اپنے بیٹے کوخود ہی اسکول داخل کرانے کا خواب دیکھ رہی تھی مگر اس کا یہ خواب تشنہ تعبیر رہا۔ بچے کو اسکول لے جانے سے قبل ہی دشمن کی آگ نے ریھام کی زندگی ختم کر دی تھی۔
نصر دوابشہ نے بتایا کہ احمد کو اس کے والدین نے ایک سال قبل ہی اسکول داخل کرانا تھا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ بچے کے والدین دونوں شہید ہو گئے اور خود احمد بھی یہودی شرپسندوں کی بھیانک دہشت گردی کا نشانہ بنا اور کئی ماہ تک مختلف اسپتالوں میں زیرعلاج رہا۔ وہ اپنے قصبے میں کوئی ڈیڑھ ماہ قبل واپس آیا ہے۔ اس کے بعد اب اسے اچانک ہی اسکول چھوڑ دیا گیا ہے۔
احمد کے شہید بھائی علی دوابشہ کے نام سے قائم پرائمری اسکول کی پرنسپل ھدیٰ علی عید نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم احمد کے ساتھ دیگر بچوں ہی کی طرح سلوک کریں گے تاکہ اسے کسی قسم کے نفسیاتی دباؤ کا سامنا نہ کرناپڑے۔ اسکول کے نصاب، ہوم ورک اور یونیفارم کے حوالے سے احمد کے معاملے میں دیگر طلباء کی طرح برتاؤ ہو گا۔
ھدیٰ علی کا کہنا تھا کہ احمد کو اسکول لائے جانے کے پہلے روز لوگوں کی بڑی تعداد اس کے گرد جمع ہو گئی تھی۔ بلا شبہ لوگ احمد کے ساتھ ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں اور ہرایک اس کے ساتھ محبت اور شفقت کا داعیہ رکھتا ہے مگر بہت زیادہ ھجوم سے احمد گھبرا جاتا ہے۔ ہم اسکول میں اسے مصروف رکھنے کی کوشش کریں گے تاکہ اس کے ذہن سے والدین کی یاد کم ہو۔
احتیاطی تدابیر
اسکول کی پرنسپل نے بتایا کہ احمد چونکہ آگ میں جھلسنے کے باعث کافی کمزور ہو چکا ہے۔ اس کی جلد اب بھی زیادہ گرمی سردی برداشت نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اسے زیادہ سے زیادہ پرسکون رکھنے کے لیے ضروری احتیاطی تدابیر کریں گے۔ اسے گرمی سے بچائیں گے۔ براہ راست سورج کی شعاعوں سے اسے بچانے کی خاطر اس کے لیے خصوصی مفلر تیار کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں سماجی بہبود کی تنظیمیں اور دوابشہ خاندان بھی بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔
ھدیٰ علی نے کہا کہ احمد کی تعلیم ان کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری ہے وہ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی پوری کوشش کریں گی۔
اسکول کی استانی تغرید دوابشہ کو جماعت اول کی نگراں مقرر کیا گیا ہے۔ وہ احمد کی قریبی عزیزہ ہے اور بچے کا بہت زیادہ خیال رکھتی ہے۔