جمعه 15/نوامبر/2024

مغربی کنارے کا انضمام اور اسرائیل کا صہیونی مذہبی وژن

جمعہ 15-نومبر-2024

غزہ – مرکز اطلاعات فلسطین

صہیونی عزائم مغربی کنارے پر "خودمختاری کے نفاذ” کی بزدلانہ کوششوں میں تیزی لا رہے ہیں۔

صہیونی دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت میں انتہا پسند شخصیات کی جانب سے اس خواب کی تکمیل کے لیے کافی عرصے سے تکرار جاری ہے۔ حال ہی میں ، انتہا پسند اسرائیلی وزیر بزلیل سموٹریچ نے سال 2025 کو ان مذہبی تصورات کو عملی جامہ پہنانے کا سال قرار دیا ہے۔

دوسری جانب، امریکی صدر ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں باضابطہ طور پر اپنے اختیارات سنبھالتے ہی ، نیتن یاہو اب ان عزائم کو حقیقت بنننے کے لیے ایک "سنہری موقع” کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

آنے والے دنوں میں الحاق کے لیے عملی طریقہ کار

اس تناظر میں، مصنف اور سیاسی تجزیہ کار فرج شلہوب نے کہا کہ نیتن یاہو کی قیادت میں انتہائی دائیں بازو کی صہیونی حکومت کی طرف سے تجویز کردہ مغربی کنارے پر "خودمختاری مسلط کرنے” کا معاملہ پہلے سے زیادہ سنگین ہو گیا ہے، خاص طور پر ٹرمپ کی قیادت میں دائیں بازو کی امریکی انتظامیہ کی موجودگی کے بعد سے۔

خطے کے حالات کے پیش نظر ان کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس تناظر میں عملی اقدامات دیکھنے کو ملیں گے۔

شلہوب نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ اہم معاملات میں سے ایک جس پر نیتن یاہو اس وقت کام کر رہے ہیں، خاص طور پر امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کے بعد، مغربی کنارے میں اسرائیلی موجودگی کو مضبوط بنانے کا مسئلہ ہے تاکہ وہاں مکمل خودمختاری نافذ کی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ "یہ واضح نہیں ہے کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی قبضے کے لیے کیا حتمی فارمولہ نافذ کیا جا سکتا ہے۔” لیکن ٹرمپ کی فتح کے پس منظر میں اسرائیلی خودمختاری کو مسلط کرنے کے لیے دائیں بازو کی حکومت کی طرف سے عزم، تصدیق اور عملی کوشش واضح ہے۔”

انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسرائیل 2025 کو مغربی کنارے میں خودمختاری مسلط کرنے کا سال بنانا چاہتا ہے۔ مطلب یہ کہ ، مغربی کنارے میں دائیں بازو کے مذہبی تصورات میں سے کچھ کو نافذ کی جاسکے۔ اس سے نیتن یاہو سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ توقع رکھتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کی واضح حمایت حاصل ہو گی  جیسا کہ ٹرمپ کے پہلے دور میں گولان میں اور امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کے حوالے سے ہوا تھا۔

شلہوب نے کہا کہ امریکی موقف مغربی کنارے پر اسرائیلی خودمختاری کے نفاذ کی حمایت کرتا ہے۔

اس طرح کے اقدام کے کیا مضمرات ہیں؟

شلہوب کے خیال میں ، "اسرائیل اس سلسلے میں مرحلہ وار اقدامات کر سکتا ہے۔ جیسے کہ ابتدا میں مغربی کنارے کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کا قانونی اعلان اور اسے ریاست اسرائیل کا حصہ قرار دینا، اس طرح مغربی کنارے کی زمینوں سے متعلق کسی بھی بات چیت یا سیاسی تصفیے کو رد کرنا ہوسکتا ہے۔

دوسرا مسئلہ آبادکاری اور مغربی کنارے میں اسرائیل کی موجودگی کو استحکام دینا ہے۔

اس سلسلے میں اسرائیل سافٹ پاور پہ مبنی ایک عملی پالیسی اپنا سکتا ہے۔ یا، اگر ضروری ہو تو، تشدد کے ذریعے، مغربی کنارے کی آبادی کے ایک اہم حصے کو ملک سے باہر، خاص طور پر اردن کی طرف دھکیلنا بھی ہوسکتا ہے۔”

شلہوب نے کہا کہ "اردن انتظامیہ میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل کے تعلقات کے تحت مغربی کنارے میں ایک نئی حقیقت قائم کی جا سکتی ہے،  جو اسرائیلی موجودگی کو استحکام بخشنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں پرنقل مکانی کے لیے دباؤ ڈالے گا۔”

شلہوب کے خیال میں ،  نیتن یاہو حکومت اسے اہم معاملہ بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہ مسئلہ اب سنجیدگی کے ساتھ میز پر ہے اور امریکہ اور صہیونی حلقوں میں اس پر یکساں بات کی جا رہی ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ "امریکی انتخابات سے قبل ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی ریاست رقبے کے لحاظ سے ایک چھوٹا ملک ہے۔ اسے اضافی علاقوں کی ضرورت ہے جس میں ریاست اسرائیل کو ایک مناسب جغرافیائی حقیقت کے تحت رہنے کی اجازت ہو۔”

شلہوب نے کہا کہ "اس کے بعد پہلی چیز جو ذہن میں آتی ہے،وہ  مغربی کنارہ ہے۔”

معروضی حقائق

شلہوب نے خیال ظاہر کیا کہ آئندہ ایام میں اس معاملے میں تیزی دیکھی جائے گی، کیونکہ خطے کی نازک صورت حال کے پیش نظر امریکی اور صہیونی طاقتیں اس وقت اس سمت میں بڑا قدم اٹھانے کے لیے سازگار  موقع سمجھتی ہیں۔

چونکہ بزلیل سموٹریچ نے چند روز قبل اس بات کا اظہار کیا تھا کہ سال 2025 مغربی کنارے پر اسرائیل کی خودمختاری اور مسلط ہونے کا سال ہے اس لیے یہ معاملہ پہلے سے کہیں زیادہ سنگین معلوم ہوتا ہے اور ہم اگلے مرحلے میں اس حوالے سے عملی اقدامات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

الحاق کا معاملہ اسرائیلی حکومت کے ایجنڈے پر ہے

20 جنوری کو امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالتے ہی قابض وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے مقبوضہ مغربی کنارے کے الحاق کے معاملے کو اپنی حکومت کے ایجنڈے میں واپس لانے کا عندیہ دیا ہے۔

اسرائیلی نشریاتی ادارے کے مطابق نیتن یاہو نے قریبی لوگوں سے یہ بات حالیہ دنوں میں نجی بات چیت کے دوران کہی۔ ذرائع کے مطابق،  مغربی کنارے کو اسرائیلی قبضے سے الحاق کرنے کا یہ منصوبہ پہلے سے موجود ہے، اور قابض حکام ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت کے دوران ابراہیم معاہدہ کے تحت 2020 سے اس پر کام کر رہے ہیں۔

استعماری عزائم اور فلسطینی عوام کے حقوق سے انکار

فلسطینی تحریک حماس نے کہا کہ دہشت گرد وزیر خزانہ سموٹریچ کا یہ اعلان کہ وہ مغربی کنارے پر صیہونی کنٹرول کو بڑھانے اور فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کے منصوبے پر عمل درآمد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، واضح طور پر قابض ریاست کے استعماری عزائم اور ہمارے لوگوں کے قومی حقوق سے انکار کا اظہار ہے۔

پیر کو ایک پریس بیان میں زور دیا کہ یہ اعلامیہ ان لوگوں کے دعووں کی تردید کرتا ہے جو دہشت گردی پر مبنی اس نازی ہستی کے ساتھ امن اور بقائے باہمی کے حصول کے بارے میں فریب میں مبتلا ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ہم دہشت گرد سموٹریچ اور دیگر صیہونی جنگی مجرموں کو ان کے کسی بھی مذموم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی اجازت نہیں دیں گے، جس سے انہیں ہماری مقبوضہ سرزمین پر قانونی حیثیت ملے، اور تاریخ کی اس حقیقت کو تبدیل  کیا جائے گا کہ مغربی کنارہ خالصتاً آزاد، فلسطینی سرزمین اور ہماری آزاد فلسطینی ریاست کا ایک اٹوٹ حصہ جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہے۔

بین الاقوامی قانون کو پامال کرنا

 یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے جوزف بوریل نے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کے ان بیانات کی مذمت کی ہے۔

"ایکس” پلیٹ فارم پر اپنے اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ میں، آج، منگل، بوریل نے زور دیا کہ وہ ان بیانات کی "غیر واضح طور پر مذمت” کرتے ہیں۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس طرح کے بیانات "بین الاقوامی قانون کو کمزور کرتے ہیں، فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اور دو ریاستی حل کے حصول کے امکان کو خطرہ بناتے ہیں۔”

واضح رہے کہ”مذہبی صیہونیت” پارٹی کے سربراہ سموٹریچ نے کل، پیر کو کہا کہ انہوں نے مغربی کنارے پر اسرائیلی خودمختاری کو بڑھانے کے لیے تیاری کی ہدایات کی ہیں، اور وضاحت کی کہ وہ اس منصوبے کو 2025 میں نافذ کرنے کی امید رکھتے ہیں۔

وسیع پیمانے پر مذمت

خلیج تعاون کونسل کے سیکرٹری جنرل جاسم محمد البداوی نے کہا کہ ”انتہا پسندانہ بیانات بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں اور سلامتی کونسل کی تمام متعلقہ قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔”

البداوی نے خلیج تعاون کونسل کی جانب سے ایسے اشتعال انگیز بیانات اور پالیسیوں کو مسترد کرنے کے موقف پر زور دیا جو اسرائیلی قابض حکومت کی طرف سے جاری پالیسی کے تحت خطے میں امن کے امکانات کو کم کرے، اور تنازعات کو ہوا دے۔

اسلامی تعاون تنظیم نے بھی انتہا پسند اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کے نسل پرستانہ بیانات کی شدید مذمت کی  ہے۔

تنظیم نے منگل کو ایک بیان میں اس بات پر زور دیا کہ قابض ریاست کا وجود اور جارحیت، آباد کاری، نقل مکانی، الحاق، تباہی اور نسل کشی پر مبنی اس کی پالیسیاں بین الاقوامی قانون کے تحت تمام غیر قانونی اور ناجائز اقدامات ہیں۔

پیر کے روز، اردن نے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالیل سموٹریچ کے ان بیانات کی مذمت کی۔

اردن کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ وہ "انتہا پسند اسرائیلی وزیر بیزلیل سموٹریچ کے انتہا پسندانہ، اشتعال انگیز، نسل پرستانہ بیانات کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔،

انہوں نے "اشتعال انگیزی” کو مکمل طور پر مسترد کیا اور کہا کہ "اسرائیل کی مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر کوئی خودمختاری نہیں ہے۔

مختصر لنک:

کاپی