اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے واضح کیا ہے کہ فلسطین میں ایک سال سے جاری تحریک انتفاضہ القدس فلسطینی قوم کے حقوق کے حصول اور مقدسات کے دفاع کی تحریک ہے۔ حماس انتفاضہ القدس کو مزید موثر اور نیتجہ خیز بنانے کے لیے ہرممکن اقدامات کرے گی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے سیاسی شعبے کے رکن خلیل حیہ نے جماعت کی آفیشل ویب سائیٹ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی جماعت تحریک انتفاضہ القدس کو مزید موثر اور طاقت ور بنانے کے لیے قوم کے تمام سماجی دھاروں کو مضبوط کرے گی تاکہ صہیونی دشمن کے خلاف اور فلسطینیوں کے حقوق کے حصول کے لیے جاری تحریک کو نتیجہ خیز بنایا جا سکے۔
خیال رہے کہ فلسطین میں مقدس مقامات کی بے حرمتی اور نہتے فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف اکتوبر سنہ 2015ء میں فلسطینی قوم نے تحریک انتفاضہ القدس کا آغاز کیا تھا۔ اب تک اس تحریک کو مہمیز دینے کے لیے 248 فلسطینی شہری اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں جب کہ 1500 کے قریب زخمی اور ہزاروں گرفتار ہوئے۔ اس تحریک کے دوران 40 صہیونی بھی جہنم واصل کیے گئے ہیں۔ حماس رہ نما خلیل حیہ نے یہ انٹرویو اسی تحریک انتفاضہ کے تناظر میں دیا ہے۔
انہوں نے فلسطینی قوم پر زور دیا کہ وہ دشمن کی جارحیت کے خلاف اور مقدسات کے دفاع کے لیے جاری تحریک انتفاضہ کو موثر بنانے کے لیے بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیں۔
خلیل حیہ کا کہنا تھا کہ حماس کو یہ بات کہنے میں کوئی عارضی محسوس نہیں ہوتی کہ ہم تحریک انتفاضہ کو تقویت دینے کے لیے قوم کے تمام دھاروں کو تقویت دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک فلسطینی قوم کے پاس طاقت نہیں ہوگی اس وقت تک وہ وطن عزیز کی آزادی اور قبلہ اول کے دفاع کے لیے موثر جنگ نہیں لڑ سکتے ہیں۔
حماس رہ نما نے اسرائیل کے سابق صدر آنجہانی شمعون پیریز کو عالمی سطح پر ملنے والی پذیرائی اور خراج عقیدت کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لگتا ہے کہ دنیا آج بھی دہشت گردی کی تعریف پر متفق نہیں ہو سکی ہے۔ اگر فلسطینیوں کا قاتل اور ارض فلسطین پر قبضہ جمانے والا شعمون پیریز پرامن لیڈر تھا تو فلسطینی قوم یہ استفسار کرتی ہے کہ ان کا قاتل کون ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ فلسطین میں سیاسی انتشار کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد قومی مفاہمت کا عمل آگے بڑھانے کے لیے کوششیں شروع کرے۔
حماس رہ نما نے کہا کہ ان کی جماعت فلسطین میں بروقت پارلیمانی، بلدیاتی اور صدارتی انتخابات کے انعقاد کی حامی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کا فیصلہ معطل ہونے کے بعد نئی تاریخ کے حوالے سے تحریک فتح اور حماس کے درمیان کسی قسم کا رابطہ نہیں ہوا ہے۔