اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت اپنے اثرو روسوخ اور یہودی لابی کو استعمال کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے سائنس وثقافت ’یونیسکو‘ کے قبلہ اول کے حوالے سے منظور کردہ قطعی فیصلے کو تبدیل کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ یونیسکو میں بعض ایسے عہدیدار موجود ہیں جو صہیونی ریاست کے دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں جن میں تنظیم کی خاتون ڈائریکٹر جنرل ’’ایرینا بوکوفا‘‘ بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے ایک بیان میں مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کی ملکیت کے دعوے کو باطل قرار دینے کی عالمی قرارداد کو متنازع بنانے کی کوشش کی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یونیسکو‘ کی ڈائریکٹر جنرل ایرینا بوکوفا نے اس قرارداد کو متنازع بنانے کی کوشش کی ہے جس میں یونیسکو نے مسجد اقصیٰ اور دیوار براق کو مسلمانوں کے مذہبی مقدس مقامات قرار دیتے ہوئے ان پر یہودیوں کا مذہبی ملکیت کا دعویٰ باطل قرار دیا تھا۔
حماس کا کہنا ہے کہ مسز بوکافا نے جو بیان دیا ہے وہ یونیسکو کے فیصلے اور اس کی منظور کردہ قرارداد کی روح کے خلاف ہے۔
خیال رہے کہ یونیسکو کی خاتون ڈائریکٹر جنرل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی مذہبی ملکیت کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات دراصل بیت المقدس کے تنازع کے حوالے سے عالمی سطح پر پائے جانے والے مختلف نظریات ہی کا حصہ ہیں۔
حماس نے ان کے اس بیان کو اسرائیلی دباؤ کانتیجہ قرار دیتے ہوئے ان پر زور دیا ہے کہ مسز بوکوفا یونیسکو کی قرارداد پرعمل درآمد یقینی بنائیں اور صہیونی ریاست کا دباؤ قبول کرنےسے انکار کر دیں۔
یونیسکو نے حال ہی میں ایک قرارداد پر رائے شماری کرائی تھی جس میں قرار دیا گیا تھا کہ مسجد اقصیٰ اور دیوار براق پر یہودیوں کا مذہبی ملکیت کا دعویٰ باطل ہے کیونکہ یہ دونوں مسلمانوں کے تاریخی مذہبی مقامات ہیں۔ صہیونی ریاست نے یونیسکو کی قرارداد مسترد کردی تھی۔ اس قرار داد پر جلد ہی دوبارہ رائے شماری کرائی جائے گی جس میں تنظیم کے 58 رکن ممالک حصہ لیں گے۔